ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت
رکھتے ہیں
وفاقی وزیر دفاعی پیداوار کا جراتمندانہ بیان، امریکی ردِعمل کا انتظار..؟
یہ اور بات ہے کہ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار سردار عبدالقیوم جتوئی اِس بیان
کی جو اُنہوں نے گزشتہ دنوں ملتان ایئر پورٹ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
دیا تھا اِس کی بعد میں خود تردید کردیں یا حکومت ہی اِن کے اِس بیان سے
پھر جائے کہ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا تھا جو
اِن کا بیان میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے بات یہ نہیں تھی بلکہ یوں تھی....وغیرہ
وغیرہ اور پھر بعد میں ہمیشہ کی طرح وہ ہی ہو جو ہمارے یہاں ہوتا آیا ہے کہ
منہ نکلی ہوئی اچھی بات بھی ہوا میں تحلیل ہوجانے کے بعد ٹائیں ٹائیں فِش
ہوئی اور آئی گئی ہو گئی۔
مگر میں یہاں یہ سمجھتا ہوں کہ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار نے اِس بار جو کچھ
بھی کہا ہے وہ بلکل درست ہے اور اُنہوں نے یہ کہہ کر ملک کی ساڑھے سولہ
کروڑ عوام کی دلی خواہش کی کھل کر ترجمانی کی ہے اِن کے اِس والہانہ اندازِ
گفتگو پر پوری پاکستانی قوم اِنہیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے اگرچہ یہ اور
بات ہے کہ اِن کے اِس بیان کے بعد امریکا کی جانب سے جو بھی ردِعمل سامنے
آئے گا اِس سے بعد بھی نمٹ لیا جائے گا مگر اُس وقت جو کچھ بھی ہوگا اَس کی
حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو کوئی فکر نہیں کرنی چاہئے اور اپنا مؤقف
یوں ہی امریکا پر واضح طور پر دو ٹوک انداز سے واضح کرتے رہنا چاہئے کہ اِس
پر بھی گرمی چڑھے کہ پاکستانی حکمران، سیاستدان اور عوام یہ کیا کرنے لگے
ہیں کہ یہ اِب امریکا کو بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں تو وہیں سردار
عبدالقیوم جتوئی کے اِس بیان سے پاکستانی قوم میں اَبھی اتنا یہ احساس ضرور
پیدا ہوگیا ہے کہ اَب ہمارے حکمرانوں نے آہستہ آہستہ امریکی زیادتیوں اور
اِس کے مرضی کے احکامات کے خلاف دبے دبے لفظوں ہی میں صحیح کچھ تو بولنا
شروع کردیا ہے جو ملک اور قوم کے مفاد میں ایک اچھا اور مثبت عمل ہے۔
اور جس سے یہ اندازہ لگانا بھی کوئی مشکل نہیں رہا ہے کہ عوام کی طرح
حکمران اور حکومت میں شامل وزراء اور مشیران بھی امریکی رویوں سے بدظن
ہوچکے ہیں اور اَب یہ امریکا پر پھٹ پڑنے کو تیار بیٹھے ہیں کہ اَب امریکی
اپنے مفادات کے حصول کے خاطر ہم (پاکستان) پر اپنی مرضی چلائیں یا امریکی
ہماری ملکی بقاء اور سالمیت کے خلاف کوئی ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نکالیں
تو ہم امریکیوں کے چھکے چھوڑا دیں گے۔
مگر یہاںمیں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں میں اتنی جرات اور بہادری کے
باوجود بھی یہ بیچارے اُس وقت بے بس اور مجبور ہوجاتے ہیں کہ جب ملک اور
قوم سے متعلق کچھ مصالحتیں اِن کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہیں اور یہ
امریکیوں کے سامنے سب کہنے اور کر سکنے کی ہمت رکھنے کے باوجود بھی اپنا سر
نیچے کئے اور یہ سب اچھی طرح سے جانتے ہوئے بھی کہ امریکی جو کہہ رہے ہیں
وہ سب کا سب غلط ہے مگر پھر بھی ہمارے حکمران یہی کچھ کرتے ہیں جو امریکا
اِن کو حکم دیتا ہے اور اِن سے جو کروانا چاہتا ہے۔ اور یہ بیچارے مصالحتوں
کا شکار ہو کر من و عن و ہی کچھ کرتے ہیں جیسا امریکا اِن سے اپنی مرضی کے
مطابق سے کروانا چاہتا ہے۔
بہرکیف! اِن ساری باتوں کے باوجود بھی یہ ایک انتہائی خوش آئند خبر ہے کہ
جو پچھلے دنوں ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنی رہی کہ ملتان
ایئرپورٹ پر میڈیا سے اپنی جارحانہ انداز سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزریر
دفاعی پیداوار سردارعبدالقیوم جتوئی نے کہا کہ دنیا یہ بات اچھی طرح سے
جانتی اور مانتی ہے کہ پاکستان ایک مکمل طور پر خودمختار ملک ہے اور ہماری
حکومت کی یہ کوشش ہے کہ ہم امریکا سے تعلقات برقرار رکھنا تو چاہتے ہیں مگر
ملکی خودمختاری پر کسی کے بیجا دباؤ میں آکر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور
اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے امریکا کو یہ بھی باور کرایا کہ پاکستان کا دفاع
ناقابل ِ تسخیر ہے اور کوئی ملک خواہ وہ ہمارا کتنا ہی بڑا خیر خواہ کیوں
نہ ہو وہ ہماری طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا اور اِس موقع پر نہ صرف
عبدالقیوم جتوئی نے یہ کہا بلکہ امریکا کو متنبہ کرتے ہوئے پاکستانی قوم کو
یہ خوش خبری بھی دی کہ پاکستان کے پاس ڈرون طیارے گرانے کی جدید ٹیکنالوجی
موجود ہے اور ہم طیارے گرانے کی تجربات بھی کرچکے ہیں اور اِس کے ساتھ ہی
اِن کا بڑے پر تباک انداز سے یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا نے سفارتی طریقے سے
ڈرون حملے بند نہ کئے تو ہم اِنہیں گرائیں گے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے
اِس حقیقت کا بھی ادراک کرلیا کہ پاکستان نے ڈرون طیارے بنالئے ہیں اور
ساتھ ساتھ ہی اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں 7ایف تھنڈر کی تعداد جلد
2 درجن ہوجائے گی اِس کے بعد میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی خوش آئند
امر ہے کہ پاکستان نے ڈرون طیارے بنا کر امریکی محتاجی ختم کردی ہے اور اَب
پاکستان بھی ڈرون ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا کے برابر آکھڑا ہوا ہے۔ جس
سے ملکی دفاع اور مضبوط ہوگیا ہے۔
ایک ایسے موقع پر اور یہ بات ہے کہ جب امریکا کی جانب سے مسلسل دباؤ کے
باعث ہمارے حکمران، سیاستدان اور عوام جس شدید ذہنی اور جسمانی کرب سے
دوچار ہیں اِس صورتِ حال میں دفاعی امور کے وزیر مملکت سردار عبد القیوم
جتوئی کا یہ بیان جہاں نہ صرف ملکی سیاسی اور معاشی نشیب و فراز کے حوالے
سے ایک مثبت اور تعمیری تبدیلیاں رونما کرے گا تو وہیں امریکا کو بھی اِس
جانب ضرور سوچنے پر مجبور کردے گا کہ پاکستان کو اَب شائد امریکا کی کسی
امداد کی ضرورت نہیں اور نہ اَب امریکا پاکستان کو امداد اور ڈرون
ٹیکنالوجی کا جھانسہ دے کر پاکستانیوں سے کوئی اپنی مرضی کا ایسا ویسا کام
لے سکتا ہے جیسا وہ پہلے ماضی میں کبھی لیا کرتا تھا۔
اور اَب اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو امریکی امداد کی کوئی
ضرورت نہیں ہے کیونکہ اَب پاکستانی حکمران، سیاستدان اور عوام امریکیوں کی
چالاکی اور اِن کی اَن عیاریوں سے اچھی طرح سے واقف آچکے ہیں جس سے امریکی
پاکستانی حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام کو خوب بے وقوف بناکر اپنا کام
نکالا کرتے تھے۔
میرا خیال ہے کہ اَب امریکیوں کو اِس بات کا بھی اچھی طرح سے احساس ہوجانا
چاہئے کہ پاکستان کے وفاقی وزیر دفاعی پیداوار سردار عبدالقیوم جتوئی نے جب
یہ کہہ دیا ہے کہ امریکا نے مذاکرات سے بات نہ مانی تو ہم کچھ بھی کرسکتے
ہیں۔ میرے مطابق امریکیوں کو اَب یہ بات بھی سمجھ آجانی چاہیئے کہ پاکستان
امریکی جی حضوری میں انتہا کو پہنچ چکا ہے اور اَب پاکستان کے پاس امریکی
جی حضوری کی تمام حدیں ختم ہوچکی ہیں اور پاکستان وہ کچھ کرسکتا ہے جو
امریکا کے گمان میں بھی نہیں ہوگا۔
اور یہاں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شائد پاکستان یا توامریکا سے جاری اِن
مذاکرات کے سلسلے کو یکدم سے روک دے گا.....اور یا پھر امریکا سے دوستی کے
تمام رشتے ناطے ختم کرکے..... ایک بار پھر نئے سرے سے خوشامدیوں کی طرح سے
خوشامد کے بھرپُور انداز سے مذاکرات کی شروعات کرے گا اور آئندہ امریکا سے
خالصتاً خوشامد اور جی حضوری کی بنیادوں پر اپنی دوستی قائم کرے گا جو
ہمارے حکمرانوں کی عادت میں شامل ہے۔ کیوں وفاقی وزیر دفاعی پیداوار نے یہ
واضح طور پر امریکا سے کہہ دیا ہے کہ ”ٓامریکا نے مذاکرات سے بات نہ مانی
تو کچھ بھی کرسکتے ہیں “ یعنی کہ شائد وہ بھی جس کا میں نے ابھی اوپر کی
سطور میں ذکر کیا ہے۔ |