مغرب اور اسلام میں عورت کے حقوق و فرائض !
(Akhtar Sardar, Kassowal)
اسلام خواتین کو کیا حقوق دیتا
ہے اس پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ جو خواتین کے حقوق کے
غم میں دن رات دبلے ہو رہے ہیں ان کے ہاں عورت کے حقوق کیا ہیں ۔وہاں مرد و
عورت کے درمیان آزاد جنسی تعلقات کی وجہ سے ،جسے فطری کہا جاتا ہے( کیوں کہ
جانور بھی نکاح کی پابندی سے آزاد ہیں اور یہ خود کو بندری یعنی بندر کی
اولاد کہتے ہیں )،جس کے نتیجے میں محبت ختم ہوئی ،ذمہ داری ختم ہوئی
،خاندان کا نظام ٹوٹ گیا ،اور اب یہ معاشرہ اس پر پچھتا رہا ہے ۔عورت کے
معاشی استقلال کی وجہ سے طلاق میں اضافہ ہوا ،بچہ پیدا کرنا ایک بوجھ سمجھا
جاتا ہے ،وہاں اب بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ،بچے 5 میں سے ایک
حرام پیدا ہو رہا ہے جس کے والد کا علم نہیں ہوتا ،ایسے بچوں کی حکومت
پرورش کرتی ہے ۔امریکہ میں دس میں چھ یا سات خواتین ایسی ہیں جو طلاق لے
چکی ہیں ،اور دوسری شادی کر لیتی ہیں،بہت سی یہ درد سر پالتی ہی نہیں ہیں
،اس سے خود غرضی جنم لیتی ہے ،اکیلے پن کا احساس پیدا ہوتا ہے ،جو نفسیاتی
بیماریوں کو جنم دے رہا ہے ،وہاں اگر عورت ،شوہر ،ساس ،سسر کے لیے کھانا
پکائے ،صفائی کرے تو اسے قید سمجھا جاتا ہے ذلت کا کام کہا جاتا ہے ،اور یہ
ہی کام (بلکہ اس سے بھی زیادہ ذلیل کام ) اگر عورت غیر مردوں کے لیے کرے تو
آزادی کہا جاتا ہے ،مساج سنٹر ،ہوٹل،ماڈل گرل،سیلز گرل،وغیرہ وغیرہ
اسلام نے عورت کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت دی ہے ،وہ ہر شعبہ زندگی
میں کام کر سکتی ہے ،وہ شعبہ خیر کا ہو ،فضول نہ ہو اس میں اپنی عزت و وقار
نہ کھونا پڑے ،مناسب پردے میں رہ کر وہ کام کر سکتی ہے ۔اسلام میں عورتیں
جنگوں میں شرکت کرتی رہی ہیں ،نرسنگ کا کام ،پانی پلانے کا کام کرتی رہیں
ہیں ،جنگوں کی کمانڈ بھی کی اوراساتذہ کے فرائض بھی سر انجام دیے ۔
اسلام میں عورت کو کمانے کی ،گھر کو چلانے کے لیے معاشی تگ و دو ،بچوں کو
پالنے حتی ٰکہ اپنی ذات کے لیے بھی روٹی،کپڑا ،مکان جیسی بنیادی ضروریات کے
لیے جہدو جہد نہیں کرنی پڑتی یہ سب مرد کے ذمہ ہے دوسری بات یہ کہ عورت کی
جو ملکیت ہے اس میں مر د کا کوئی حق نہیں ہے ،جو عورت کمائے وہ اسے اپنی
مرضی سے استعمال کر سکتی ہے ،لیکن مرد کی کمائی میں عورت کا حق ہے۔اسلام کے
مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کے سکون کے لیے بنائے گئے ہیں ،ایک دوسرے کا
لباس کہا گیا ہے ،نکاح کر کے میاں ،بیوی ایک دوسرے سے آسودگی حاصل کر سکتے
ہیں مغرب کی طرح انہیں آزادی کی گنجائش نہیں ہے ،میاں ،بیوی ایک یونٹ ہیں
،اسلام میں گھر کی معاشی ضروریات کی ذمہ داری مرد پر ہے ۔
عورتوں کو بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں (سورۃ بقرہ228 )مومن
مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور
بری باتوں سے منع کرتے ہیں (سورۃ توبہ71 )تم میں سے کسی کام کرنے والے کے
کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہر گز ضائع نہیں کرتا (سورۃ آل عمران 195
)اس سے بڑھ کر عورت کا اور کیا حق ہو کہ اﷲ نے جنت عورتوں (ماؤں ) کے قدموں
کے نیچے رکھی ۔بیوی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے کا ثواب رکھا ،مرد کی
کمائی میں عورت کا حصہ رکھا اور عورت کی کمائی کی صرف وہ مالک ہے ،اسلام نے
تو عورت کو حقوق دیئے ہیں اب اگر ان پر مسلمان عمل نہ کریں تو اسلام کا تو
کوئی قصور نہیں ہے ۔یہ ایک فرق ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم مسلمانوں کو تنقید
کا نشانہ بناتے ہیں ۔
اسلام نے عورتوں کو مردوں کے مساوی نہیں بلکہ مردوں سے زیادہ حقوق دیے ہیں
۔اور ان حقوق کے ساتھ فرائض بھی ہیں ۔تنقید کرنے والے صرف فرائض کی بات
کرتے ہیں حقوق کی نہیں ۔یہ موم بتی مافیا ،دیسی لبرل خواتین و حضرات جن
حقوق کی بات کرتے ہیں اصل میں وہ خواتین کی تذلیل ہے اور ان کی مخالفت میں
جو دین اسلام کے متشدد علماء جن پابندیوں کی بات کرتے ہیں وہ بھی عورت پر
ظلم ہیں ۔اسلام میں مرد اور عورت ایک انسان ہونے کے ناطے برابر ہیں ،لیکن
اب ان کے واجبات کی ادائیگی اور حقوق و فرائض الگ الگ ہیں ۔
مسلمانوں کے اندر بھی بہت سے تضاد پائے جاتے ہیں ،خواتین کے حقوق کے متعلق
،میں سمجھتا ہوں خواتین کے متعلق جو بہترین اور اسلام کے عین مطابق حقوق کی
تشریح کی ہے وہ ان مسلمانوں نے کی ہے جو بعد میں مسلمان ہوئے مثلاََ محمد
اسد ،محمد شہباز ،اور ایسے اور بہت سے مذہب اسلام کے سکالر یا وہ جو فرقہ
پرستی میں مبتلا نہیں تھے ۔مثلاََ علامہ اقبال، علامہ شبلی، حضرت امام
غزالی ، مولانا ندوی وغیرہ ۔یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ مسلمانوں کے ہر فرقے
میں خواتین کے چند حقوق و فرائض کے بارے میں الگ الگ رائیں پائی جاتیں ہیں
۔جن کا ذکر اس کالم میں ممکن نہیں ہے ۔
اس پر صرف یہ کہنا ہے کہ بعض علماء نے احادیث کی من پسند تشریح کر کے
عورتوں پر ظلم کیا ۔مثلاََ تعدا زدادواج،طلاق،پردہ،معاش،وغیرہ وغیرہ اسی
طرح ان کے مخالفین علماء نے بھی اسی مسائل کو دوسری طرف کھینچا ہے ۔اعتدال
کا راستہ نہیں چنا گیا ۔اور یہ کہنا مناسب ہے کہ اسلام کا راستہ نہیں چنا
گیا کیوں کہ اسلام اعتدال کا دین ہے ۔ علاوہ ازیں دین اسلام میں بہت سے
اسلام بن گئے ہیں ،مغربی اسلام،مشرقی اسلام،ہندوستانی اسلام،ایرانی
اسلام،سعودی اسلام ،ترکی کا اسلام ،مصر کا اسلام وغیرہ اسلام پر ایرانی
اثرات کا ذکر تو علامہ اقبال نے بھی کیا ہے دراصل ہر علاقے کے کچھ رسم و
رواج ہوتے ہیں اس علاقہ میں جب اسلام قبول کیا تو انہوں نے اپنے علاقے کے
رسم و رواج کو اسلام میں شامل کر لیا بعد میں اسے اسلام کا درجہ دے دیا گیا
ہے ۔مثلاََ قرآن سے شادی ،لباس ،اور مختلف علاقوں میں مختلف لباس ،پردہ
وغیرہ قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ،اس لیے
کہ اﷲ نے بعض کو بعض پر افضل بنایا ہے اور اس لیے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے
ہیں (سورۃ النسا) قرآن کی اس آیت مبارک پر جہاں غیرمسلم ،سوال اٹھاتے ہیں
کہ اسلام میں عورت سے مرد کو افضل کہا گیا ہے وہاں بعض مسلمانوں نے بھی اس
کے الگ الگ تراجم کیے اور بعض نے اس کا کیا سے کیا مطلب بنا دیا اس آیت کے
حوالے سے مجھے فعل حال صرف یہ کہنا ہے کہ اگر مرد اپنا مال اپنی عورت پر
خرچ کرتا ہے تو وہ افضل ہے ۔نہیں تو نہیں ہے قارئین اس پر ان شا اﷲ پھر
کبھی بات ہو گی۔آپ کیا کہتے ہیں ضرور لکھیے گا ۔ |
|