خواتین کاعالمی دن……ام المومینین حضرت خدیجۃ الکبری
(Anwar Abbas Anwar, Lahore)
ہر سال آٹھ مارچ کو خواتین کا
عالمی دن منایا جاتا ہے یہ دن ان خواتین ورکر کی یاد میں منایا جاتا ہے
جنہوں نے سن 1900 میں معاشی ،سیاسی اورسماجی حقوق کی جدجہد کا آغاز کیا، ان
صنعتی کارکنان نے مزدوروں کے اوقات مقرر کرنے ،اجرت میں اضافے کے علاوہ ووٹ
کا حق لینے کے لیے بھی آواز بلند کی۔ مغربی اقوام کے شانہ بشانہ مسلم ممالک
میں بھی یہ دن پوری دھوم دھام سے منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ سرکاری اور
غیر سرکاری سطح پر اس دن کی مناسبت سے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
خواتین کے لیے سیاسی ،معاشی،کاروبار سمیت ہرمیدان میں خواتین مردوں کے
مساوی آزادی دینے کے مطالبات ہوتے ہیں، خواتین کی تقاریب میں مرد بھی بڑھ
چڑھ کر اور پوری گرم جوشی سے شریک ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ خواتین کے حوالے
سے منعقد ہ مجالس و محافل یا تقریبات میں عالمی سطح پر ’’مردوں کی اجارہ
داری ‘‘ کے خلاف آواز بلند کرنے والی مغربی دنیا کی معروف خواتین کوتو
سنہری حروف میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے ۔لیکن آج سے چودہ سو سال قبل
خواتین کے حقوق کے لیے بہترین کردار چھور کر جانے والی’’ دنیا کی بہترین
خواتین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اﷲ تعالی عنہا، حضرت فاطمہ زہرا رضی اﷲ تعالی
عنہا، حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالی عنہا سمیت دیگر اسلام کی نامور خواتین کو
یکسر کر دیا جاتا ہے۔مغربی دنیا کے متعصب میڈیا کی بات تو سمجھ میں آتی ہے
لیکن مسلم ممالک اور ’’مسلمان مرد و زن‘‘ کی اس احسان فراموشی عقل سے باہر
ہے۔ کہتے ہیں کہ برے کردار کے حامل ہونے کے باوجود گیا گزرے مسلمان ( مرد
وزن) سے بھی ایسی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ عالمی سطح پر منائے جانے والے
خواتین کے عالمی دن کے غیر معمولی موقعہ پر اپنی محسن ہستیوں ( شخصیات) کی
سیرت پاک کی مناسبت سے آج کی خواتین ( اپنی بہو بیٹیوں اور بیگمات )کی
تربیت کرنے سے احتزاز کریں گے؟ لیکن یہ ہمارا خیال خیال ہی رہتا ہے۔ ہماری
سیاسی اور غیر سیاسی تنظیمات کی طرف سے ’’ عالمی یوم خواتین ‘‘ کے حوالے سے
منعقد ہ مجالس و محافل میں ’’این جی اوز کے عہدیداران مرد اور خواتین کی
تخصیص کیے بنا سب اپنے غیر ملکی فنڈز دینے والے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے
’’ بے پردگی کو فروغ دینے کی باتیں کرتے نہیں تھکتے۔حالانکہ دین اسلام کی
ان محترم ہستیوں کی پوری ساری زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ عورت یا
خواتین کو جس قدر آزادی عطا کی ہے اور جتنے حقوق خواتین کو دیئے گے ہیں اور
ان کے حقوق کی حفاظت کا نتظام و انصرام کیا ہے ،اس کی نظیر دنیا کے کسی
آئین میں دکھائی نہیں دیتی۔ حضرت خدیجۃالکبری طاہرہ صدیقہ سیدہ اور پاک و
طاہرہ کا ایک یتیم اور اپنے سے کہیں مالی حثیت میں کمزور نبی کریم ﷺ کو
نکاح کی دعوت دینا خواتین کو حاصل حقوق بہترین مثال ہے۔ بعض لوگ اس حوالے
سے کہتے ہوں گے کہ یہ واقعہ ان کے قبول اسلام سے تعلق رکھتا ہے۔ چلیں اس
بات کو بھی درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس پاک و منزہ اور طاہرہ و صاحب
کردار بی بی کے قبول اسلام میں بغیر کسی مرد و زن کی تخصیص کے سب سے سبقت
حاصل کرنیکے بعد اسلام نے عورت کو یہ حق عطا نہیں کیا کہ وہ چاہے تو اپنے
ولی کی موجودگی میں بھی خود اپنے شریک حیات کا انتخاب کر سکتی ہے۔ اور پھر
عین نکاح کے وقت دلہن سے نکاح کی قبولیت کی سند کا حصول لازم قرار دیا۔ یہ
دین اسلام کا درخشاں باب ہے کہ اس نے والدین اور خاوند کی جائیداد میں حصے
دار بنایا اور عورت کے قدموں میں اولاد کی جنت رکھی۔ دنیا کا ہر نظریہ ،سوچ
اور مذہب مہذب معاشرے کی تشکیل کی تلقین کرتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے
معاشرے کے تمام طبقات کو مساوی حقوق حاصل ہوں کیونکہ مہذب معاشرے کی تشکیل
کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک معاشرے میں انصاف قائم
نہ ہو اور انصاف پر مبنی معاشرے کے لیے یکساں حقوق کی فراہمی لازمی امر
ہے۔وہ خواتین بھی اپنی جگہ قابل احترام ہیں جنہوں نے کم وسائل ہونے کے
باوجود سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے حقوق کے حصول کے
لیے قربانیاں دیں اور اس ھقیقت سے بھی نظریں چرانا ممکن نہیں ہے کہ ان
خواتین کی قربانیاں رنگ لائیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے طرفدار ،مددگار
مالکان سے اپنے حقوق منوائے اور آج مغربی اور مغرب کی تقلید کرنے والے
ممالک میں خواتین کوجوصنعتی ،انسانی ، سیاسی و معاشی اور معاشرے میں مردوں
کے برابر حقوق حاصل ہیں وہ( یہ تمام حقوق اسلام نے بہت پہلے خواتین کو عطا
کیے ہوئے ہیں) ان کی جدوجہد اور قربانیوں کی ہی مرہون منت ہیں۔ بے شک مغرب
میں اپنے حقوق کے لیے بے مثال جدوجہد کرنے والی خواتین لائق تحسین ہیں ،اور
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ان خواتین کی جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر
ہے کہ آج خواتین ہر فورم پر اپنی بات بلا کسی جھجک اور خوف کے کہ رہی ہیں۔
دنیا کی سیاست میں کلیدی کردار کی حامل ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ
مغربی خواتین نے تو اٹھارویں یا انیسویں صدی میں جدوجہد کی لیکن اسلام نے
خواتین کو آج ملنے والے حقوق چودہ سو سال پہلے عطا کیے ہیں اس لیے ضرورت اس
امر کی ہے کہ مسلم معاشرے اور مسلم ممالک کی حکومتیں عالمی سطح پراپنی
محترم شخصیات کو رول ماڈل کے طور پر اجاگر کریں جن میں سر فہرست ام
المومینین طاہرہ صدیقہ حضرت خدیجہ الکبری سلام اﷲ علیہا کی ذات و شخصیت ہے۔
بطور ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کی حثیت میں ان کا ،ثالی کردار مسلم خواتین
کا مقصود و مطلوب ہونا چاہیے۔آج کے ترقی یافتہ اور روشن خیال معاشرہ خواتین
کے حقوق کے نام پر خواتین کو اپنی پراڈکٹ کی تشہیری مہم کے لیے استعمال کر
رہا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل بڑے سے بڑے لیڈر( چاہے خاتون ہو
یا مرد) کو قریب سے دیکھیں تو خواتین کی آزادی کے ان کے دعوے اور نعرے محض
نعرے اور دعوے ہی ہیں حقیقت بہت بڑی بیانک صورت حال پیش کرتی ہے۔ ہماری بد
قسمتی ہی یہی ہے کہ ہماری جدوجہد اخلاص پر مبنی نہیں ہوتی جو ہماری ترقی
میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ |
|