کیا غفلت سے جاگنے کا وقت نہ آیا؟
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
صبح بڑی حسین ہوتی ہے۔ روز
نمودار ہوتی ہے۔ اُمیدوں کی کرنیں ساتھ لاتی ہے۔مصائب وآلام کی سیاہ راتوں
میں اسیرِغم جب صبح کو بیدار ہوتاہے تو امیدوں کے ساتھ۔ کہ شاید غموں کی
تیرگی چھٹ جائے۔بوقت سحر امیدوں کے ہزاروں چراغ روشن ہو اُٹھتے ہیں ۔ ہم سو
رہے ہیں۔ وقت گزرا جا رہا ہے۔ کب جاگیں گے۔ روز صبح آتی ہے، جاتی ہے۔ دل کی
کلیاں کھلانے والی ہوائیں چلتی ہیں۔ لیکن ہم بیدار نہیں ہوتے۔ چمن کی لٹتی
بہاریں ہمیں جگانے کو ناکام رہی ہیں۔
آہ! تیرگی بڑھ رہی ہے۔ ہم سوئے ہیں۔ چمن لٹ رہا ہے۔زمیں سمٹ رہی ہے۔ فکر
تباہ کی جارہی ہے۔ تاریخ مسخ کی جارہی ہے۔ نظریاتی حملوں کی زد پر پوری قوم
ہے۔ فکری حملے چہار جانب سے ہیں۔ گستاخ رسول ہر محاذ پر صف آرا ہیں۔ آخر کب
جاگیں گے۔ کتنے طوفان گزر گئے۔ کیا اور کسی طوفاں کا انتظار ہے؟ کیسی کیسی
آندھیاں آئیں۔ کیسے کیسے حادثات رونما ہوئے۔ توہینِ رسالت مآب صلی اﷲ علیہ
وسلم کی درجنوں وارداتیں ہوئیں۔ مردہ ضمیر لیے ہم غفلت میں پڑے رہے۔ جگانے
والے نے جگایا تھا۔ بیدار کیا تھا۔ فکروں کو جھنجھوڑا تھا۔ متاعِ ایماں کی
سلامتی کے لیے آواز دی تھی۔ کشتِ ایقاں بچانے کو آواز لگائی تھی۔ غداروں کے
نرغے سے قوم کو نکالنے کی تگ ودو کی تھی۔ سنوسنو! یہ کیسی آواز آرہی ہے۔ دل
کے کان سے سنو۔ خوب غور سے سنو!بیداری کا پیام، ہوشیاری کا پیغام!
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے
[رضاؔ]
جس کے پاس مال ہوتا ہے۔ رہزن اُسی کی تاک میں ہوتا ہے۔ ایمان ایسا مال ہے
جو اَن مول ہے۔ گستاخ ایمان کو لوٹنے کی تاک میں ہے۔ گھات لگائے بیٹھاہے۔
ٹوٹ پڑنے کو تیار ہے۔ متاعِ ایماں ہی کُل سرمایہ ہے۔ یہ دولت ایسی ہے کہ یہ
لُٹ گئی تو کچھ باقی نہ رہا۔ یہ تباہ ہوئی تو پھر مسلماں نام کا رہا۔ نہیں
نہیں بلکہ!
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں خاک کا ڈھیر ہے
[اقبالؔ]
بِکنے والے بِک گئے۔ کبھی انگریزوں کے ہاتھوں۔ کبھی مشرکین کے ہاتھوں۔وہ جن
کے ہاتھ مسلمانوں کے لہو کی سودے بازی میں آلودہ تھے۔ وہی بعد کو مجاہدِ
آزادی کہلائے۔ جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ انگریز کی غلامی میں گزرا۔ جنھوں
نے انگریز کے ایما پر مسلمانوں میں نفرتوں کا بیج بویا۔وہ رہبر کہلائے۔
حالاں کہ اُن کی اسلام دشمنی ایسی شدید کہ زمین و آسماں کانپ اُٹھیں۔ اس
لیے کہ انھوں نے جو جرم کیا وہ معمولی نہیں۔ توہینِ رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم۔
گستاخی و جراء ت ایسی کہ محبوبِ خدا کی بے ادبی کی۔اﷲ اکبر! رسول کریم صلی
اﷲ علیہ وسلم کی خوب توہین کی۔ ایک انگریزی ایجنٹ نے ’’تحذیرالناس‘‘ لکھ کر
-ختم نبوت- کے عقیدے پر ڈاکہ ڈالنے کی جسارت کی۔ قادیان کے جھوٹے شخص نے
اسی کی تھیوری کو پریکٹیکل کرنے کی ٹھانی۔ گنگوہ وانبیٹھہ کے فرنگی ریزہ
خواروں نے -اﷲ کریم کے لیے جھوٹ- کا تصور باندھا۔ -تقویۃالایمانی- فتنے کے
کارپردازوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے -اختیارات- کا انکار کیا۔
اور۔انگریز کو -مالک بھی مانا اور مختار -بھی[ملاحظہ ہو:تذکرۃالرشید، طبع
دیوبند]……تھانہ بھون کے مولوی نے تو -علم غیب رسول صلی اﷲ علیہ وسلم- کی
توہین میں وہ جراء ت دکھائی کہ شیطان کا علم تو مان لیا اور محبوبِ خدا کی
عظمتِ علم کا یکسر انکار کردیا۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات تھے۔ ہندوستان کی فضا مکدر تھی۔ مشرکین کی مدح کی
جارہی تھی۔ مسلمانوں کو مشرک وبدعتی قرار دینے والے اہلِ شرک سے ایسی محبت
رکھ رہے تھے؛ کہ مشرکین کی ہر ادا پہ قربان اور ان کے جاں نثار۔
ایک طبقہ توہین پرتوہین کر رہا تھا۔ توہین کو توحید سمجھ رہا تھا۔ اور
توحید کے تقاضوں کو فراموش کررہا تھا۔ اﷲ کی عظمت کا اقرار اور رسول کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان کا انکار۔ الامان والحفیظ۔ جب کہ اﷲ کی رضا وخوشی
محبوب کی خوشی میں ہے۔ محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کو راضی کرنے والوں نے زمانے
کو روشن کیا۔ فکروں کو منور کیا۔ نظریات کو سنوارا۔ کردار کو بنایا۔ دُنیا
کوآراستہ کیا۔آخرت کی تعمیر کی۔ قوم کو راستہ دکھایا۔ نجات کا راستہ۔ اخلاص
کا ضابطہ۔ انصاف کا جوہر۔ ہر ہر پہلو سے انسانیت کو بلندی عطا کی۔ اﷲ اﷲ!
محبوب راضی تو رب راضی۔ کیسا عظیم وپیارا، اچھوتا ونِرالا فلسفہ ہے!
خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمدﷺ
آج علم ہے تعظیم نہیں۔زبان ہے پاس نہیں۔ظاہر اُجلا اور باطن اندھیرا۔
نمازوں کی پابندی لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عداوت۔ تعظیم؛ شرک
اور احترام؛ توحید کے منافی۔ جب یہ نظریات ہوں تو کیوں کر بارگاہِ رسالت سے
وابستگی ہوگی! ہزاروں بدعات وضلالت میں غرقاب افراد- احترامِ نبوی صلی اﷲ
علیہ وسلم- کے معاملات کو بدعت ہی بدعت قرار دیتے ہیں۔ جہالت کے شکار ’’علم
غیبِ نبوی‘‘ پر زبان دراز کرتے۔معاذاﷲ!توہین کو عینِ توحید سمجھ بیٹھے۔ خرد
کا نام جنوں اور جنوں کا خرد۔ یہ کہاں کا انصاف؟
دعویٰ ایمان کا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت والی باتوں سے
چِڑھ۔ یہ رمزِ مسلمانی نہیں۔ یہ فعلِ شیطانی ہے۔ کلمے کا دعویٰ، اسلامی
نام، اسلامی حلیہ، نمازوں کی پابندی، عبادتوں کی قطاریں اسی وقت کام دیں گی
جب-دلوں کے طاق پر محبت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شمع فروزاں ہوگی-منکرینِ
فضائل رسالت بھی آج عاشقِ رسول ہونے کے دعوے دار ہیں۔ جب کہ اُجالے اندھیرے
متحد نہیں ہوتے۔ کفروایمان نہیں ملا کرتے۔ علم وجہل ایک نہیں ہوتے۔ان میں
بُعدالمشرقین ہے۔ اگر دعویٰ محبت کا ہے تو نفرتوں سے باز آؤ۔ دعویٰ عشق کا
ہے تو عشق کو شرک کہنے والوں سے علاحدہ ہورہو۔ ورنہع
دعویٰ بے اصل ہے جھوٹی ہے محبت تیری
ایک عاشقِ رسالت نے جگایا تھا۔ بیداری کی راہ دکھائی تھی۔ شعورِ محبت سے
واقفیت کرائی تھی۔ بات سمجھائی تھی۔ قرینۂ وفاداری بتایا تھا۔ روشنی دی
تھی۔ خیالات کی اصلاح کی تھی۔ ہم نے دھیان نہ دیا۔کان نہ دھرا ۔ ہماری بے
مایگی نے یہ دن دکھایا کہ طوفان چَڑھ آیا۔ راہ مسدود ہوگئی۔ مسافتیں طویل
ہوگئیں۔ عزمِ محکم ہو تو آج بھی انقلاب رونما ہوسکتا ہے۔ دیکھودیکھو! کیسا
پیغام ہے۔ جس میں زندگی کا پیام ہے۔ ایمان کا وقار ہے۔ عقیدے کی بہار ہے۔
جان کاقرار ہے۔شفاعت کا بیان ہے!
حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجئے
نار سے بچنے کی صورت کیجئے
کیجئے چرچا اُنھیں کا صبح وشام
جانِ کافر پرقیامت کیجئے
جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضاؔ
یاد اُس کی اپنی عادت کیجئے |
|