اسکول وکالج کی سالانہ گیدرنگ میں شرعی احتیاط کی ضرورت

کہیں اساتذہ اور والدین اپنی ذمہ داریاں بھول تو نہیں گئے۔۔۔۔؟؟

آج دنیامیں گانے باجے کا شوروغل ہے۔شہر،بازار،گلی،کوچے اس فتنۂ عظیم سے دوچار ہے۔ناچنے،گانے والے اب گلوکار،اداکار،موسیقار، فنکار اورفلمی اسٹار جیسے دل فریب ناموں سے یاد کئے جاتے ہیں۔مردوزن کی مخلوط محفلوں کاانعقاد عروج پر ہے۔بڑے بڑے شادی ہال،کلب،بازار،نیشنل وانٹرنیشنل ہوٹل اور دیگر مقامات ان بے ہودہ کاموں کے لیے بُک کردیئے جاتے ہیں جس کے لیے بھاری معاوضے اداکئے جاتے اور شو کے لیے خصوصی ٹکٹ جاری ہوتے ہیں۔چست وباریک لباس،میک آپ سے آراستہ لڑکیاں مجرے کرتی ہیں،جسے ثقافت وکلچرکانام دیاجاتاہے۔عاشقانہ اشعار،ڈانس میں مہارت،جسم کی تھرتھراہٹ،آواز کی گڑگڑاہٹ،ڈھول باجوں اور موسیقی کی دھن میں کمال دکھانے والوں اور جنسی جذبات کواُبھارنے والوں کو خصوصی ایوارڈ سے نوازا جاتاہے۔غیرمسلم آبادی سے اٹھ کر یہ مرض مسلم سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکاہے۔سفرہویاحضر،جلوت ہویاخلوت،گھرہویادفترہرجگہ فلمی نغموں کی رسائی ہے حتیٰ کہ اب کھانابھی بغیرگاناسنے نہیں بنتا۔ہماری قوم تباہی کے دہانے پر خوشی خوشی آرہی ہے اور اسے اس کے نقصانات کااحساس تک نہیںہے۔ایک کم عمر لڑکا باپ کے موبائل پر جب خود سے ویڈیو دیکھتااور گانے سنتاہے توباپ کی مسرت کی انتہانہیں ہوتی ہے اور وہ یارانِ محفل میں اس بات کاذکر فخریہ انداز میں کرتاہے کہ میرابیٹاخودسے موبائل آپریٹ کرلیتاہے۔تُف ہے ایسے باپ پر جوبچے کوگناہ کے راستے پر جاتاہوادیکھ کرروکنے کی بجائے خوشی وانبساط محسوس کرتاہے۔ اب ہماری اسکول وکالج کا یہ حال ہوچکاہے کہ اللہ کی پناہ۔جو جگہ قوم کے نونہالوںکی تربیت گاہ تھی اب وہ ناچ گانوں کی پریکٹس کااڈابنتی جارہی ہے۔یوم آزادی ہویا اسکول وکالج کی سالانہ گیدرنگ۔اسلامی تعلیمات اور شریعت مطہرہ کے احکام کوکس طرح پیروں تلے رونداجاتاہے یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ان مجلسوں کاآغازتلاوت قرآن سے ہوتاہے،؟حمدونعت کانذرانہ پیش کیاجاتاہے،پھر اس کے بعد جوہوتاہے اسے جان بوجھ کرشریعت سے کھلواڑکہہ لیجئے یا دین سے دوری۔ہفتے دوہفتے بلکہ مہینے بھرپہلے سے ان محفلوں میں جو ناچ گانے اوررقص وسرورکے نمونے پیش کیے جانے والے ہوتے ہیں باضابطہ اساتذہ طلباء وطالبات کواس کی پریکٹس کرواتے ہیں۔جو اساتذہ قوم کے رہبرورہنماہیں،ترقی کے ضامن ہیں،وہی حضرات تعلیم وتربیت پر ناچ گانوں کوترجیح دیتے ہوئے ایسے پروگراموں کی تیاری میں مصروف نظرآتے ہیں۔پھریہ گلہ وشکوہ کیامعنی رکھتاہے کہ آخر معیار تعلیم کیوں گھٹ رہاہے؟اساتذہ کی عزت واہمیت موجودہ دور میں کیوں کم ہوتی جارہی ہیں؟ہماری قوم کے نونہال کیوں اونچی پوسٹ پرنہیں پہنچ پاتے؟جب قوم کے رہبرورہنماہی اپنے شاگردوںکواخلاقی گراوٹ کی تعلیم دینگے،سرمحفل ان سے ڈانس کروائینگے،پھر یہ امیدکیوں کی جارہی ہے کہ وقار مسلم بحال ہوگا۔

سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیااساتذہ کرام کودینی احکام نہیں معلوم؟کیامنیجمینٹ باڈی کوشریعت کاپاس وخیال نہیں ہے؟کیابطور مہمان خصوصی ایسے پروگرامات میں شرکت کرنے والوں کوفرمان خداورفرمان سول ﷺکاذرہ برابر احساس نہیں ؟گانوں باجوں کے متعلق قرآن وحدیث کی کیاتعلیم ہے؟صحابۂ کرام واکابرین امت کی کیارائے ہے؟کیاایسی محافل ومجالس میں شرکت جائزہے؟گاناباجاکن لوگوں کامشغلہ ہے؟کیامسلمانوں کی روحانی غذاہے یہ؟اسلام تو ہم سے یہ کہتاہے کہ مخلوط مجالس کاانعقاد ناجائزہے،ان مجالس میں عورت نہ ہی گاسکتی ہے اور نہ ہی اپنے بنائو سنگھار کااظہار کرسکتی ہے،جنھیںاسلام نے پردہ کی تعلیم دے کر باعزت ومکرم بنایاتھاآج کے سرسید کہلانے والے نام نہاد اساتذہ نے انھیںاسٹیج کی زینت بنادیا؟کیا یہی لوگ اپنی بیٹیوں کو اسٹیج پر نیم عریاں لباس میں رقص کرنے کی اجازت دینگے؟حضرت عبدالرحمن بن ثابت فرماتے ہیکہ رسول گرامی وقارﷺنے فرمایاکہ ایک وقت آئے گاکہ میری امت کے کچھ لوگ زمین میں دب جائیں گے،شکلیں بدل جائیں گی اور آسمان سے پتھروں کی بارش کانزول ہوگا ،عرض کیا،کیاوہ کلمہ گوہوں گے؟فرمایا:ہاں!جب گانے باجے اور شراب عام ہوجائے گی اور ریشم پہناجائے گا۔(ترمذی)پیغمبراسلام ﷺتوبانسری کی آواز سن کر کانوں میں انگلیاں رکھ لیتے تھے،آپﷺنے جنگ بدر کے موقع پر اونٹوں کی گردنوں سے گھنٹیاں علاحدہ کردینے کاحکم فرمایاکہ گھنٹیاں شیطانی سازہیں(مسلم)جس گھرمیں جھانجھن یاگھنٹی ہواس میں فرشتے نہیں آتے ـ(نسائی)حضرت انس بن مالک فرماتے ہیکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جو شخص کسی گلوکارہ کی مجلس میں بیٹھااور اس نے گاناسنا،قیامت کے دن اس کے کان میں سیسہ پگھلاکرڈالاجائے گا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیکہ جوشخص اس حالت میں فوت ہواکہ اس کے پاس گلوکارہ ہے،اس کاجنازہ مت پڑھو۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے ایک عورت کوگھرمیں دیکھاجوگارہی تھی اور خوشی میں اپنے سرکوگھمارہی تھی،آپ نے فرمایا:اُف!یہ توشیطان ہے ،اس کونکالو،اس کونکالو،اس کونکالو(بخاری)حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیکہ راگ (گانا)دل میں نفاق پیداکرتاہے۔

اگر واقعی تعلیمی بورڈ ایسے پروگرامات کاتقاضاکرتاہے تو ایساشیڈول بنایاجائے جس میں اسلامی احکام کی خلاف ورزی نہ ہو،اور والدین کو بھی چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دیں،اگر وہ ایسی محافل میں شرکت کی اجازت طلب کریں جو شریعت کے مخالف ہوتوانھیں منع کریں اگر چہ وہ محفل ان کی کالج میں ہی کیوں کر نہ منعقد کی گئی ہو۔اللہ پاک عقل سلیم عطافرمائے۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731702 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More