حیات آباد رنگ روڈ پر واقع ایک پولیس چوکی
(Rizwan Peshawari, Peshawar)
حیات آباد،پشاور میں ایک ایسی
جگہ ہے کہ جہاں پر اکثر وبیشتر سیاسی وسرکاری لوگ متمکن ہیں تو اس وجہ سے
یہاں کی پولیس بھی سختی سے اپنا کام سرانجام دے رہی ہے،جمعہ کے دن سے پولیس
چوکیوں نے اور بھی سختی شروع کر رکھی ہے اسی سختی کی وجہ سے عوام کو بہت
مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب گھر سے کسی ضروری کام کے لیے نکلتے ہیں تو
گھنٹوں گھنٹوں میں اپنی مقررہ ہدف تک نہیں پہونچتے،کھبی ایک گاڑی کو روک کر
تفتیش کرتے رہتے ہیں تو کھبی دوسری گاڑی کو،گھنٹوں گھنٹوں مسافرین کو اسی
جگہ پر روک لیتے ہیں بعض دفعہ تو مسافرین کو گاڑی سے اُتار کر اپنے ساتھ
رہنے دیتے ہیں کچھ وقت گزارنے کے بعد چھوڑ دیتے ہیں ۔میں ان پولیس کی
مخالفت ہر گز نہین کرتا کیونکہ یہی لوگ تو ہمارے ہی حفاظت کے لیے ایسا کرتے
ہیں مگر میں ان کو ایک اور بات بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر یہ لوگ اس پر بھی
عمل کریں تو اس سے ہمارے یہ پولیس حضرات اور بھی خراج تحسین کے لائق ہو
جائیں گے ۔بعض اوقات یہ لوگ صرف داڑھی ،پگڑی اور سفید کرتہ پہننے والوں کو
نشانہ بنا دیتے ہیں ،صرف انہی سے شناختی کارڈ طلب کی جاتی ہے ،ان کو اس
پورے بس اور اس پوری گاڑی میں صرف یہی لوگ دہشت گرد نظر آتے ہیں ان کی نظر
میں غلطی ہے میں ان کی غلطی دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں اس طور پر کہ آپ لوگ
صرف داڑھی،پگڑی اور سفید کرتہ پہننے والوں کو نشانہ نہ بنائے۔ہو اکچھ یوں
تھا کہ پچھلے جمعہ کو ہمارے دوست مدرسہ جارہے تھے کہ جب حیات آباد باغ
ناران کی طرف سے رنگ روڈ کو داخل ہوگئے تو رنگ روڈ کے ٹول پلازہ میں ایک
پولیس گاڑی کھڑی تھی اور اپنی تفتیش میں مصروف عمل تھے ۔جب یہ لوگ کسی بھی
سوزوکی کو روک لیتے تھے تو اگر اس میں کوئی داڑھی یا پگڑی والا ہوتا تھا تو
ان سے کہہ دیتے تھے کہ شناختی کارڈ دکھاؤ،شناختی کارڈ دکھانے کے باوجود بھی
ان کو یک طرف کر دیا جاتا تھا اور مزید پوچھ گچھ شروع کر دیتے تھے حتیٰ کہ
ان سے یہ بھی پوچھا جاتا تھا کہ کہاں جانا ہے؟کہاں سے آگئے؟کیا کرتے ہو؟کون
سے مدرسہ میں پڑھتے ہو؟مدرسہ میں کتنے اساتذہ ہیں؟مدرسہ میں کتنے طلبائے
کرام پڑھتے ہیں؟ایک دوست نے یہ ماجرا بھی سنایا کہ مجھے بھی اسی طرح یک طرف
کر دیا گیا اور بہت سارے سوالات کا انبار میرے سامنے لا کھڑا کر دیا میں نے
اپنے معصومانہ لہجے میں کہا کہ دیکھو میں ایک دینی مدرسے کا طالب علم ہوں
یہ میرا شناختی کارڈ اور یہ میرے مدرسے کا کارڈ ہے،مگر وہ پھر بھی اپنی ہی
بات پر ڈہٹا رہا اور مجھے گاڑی سے اُتار کر گاڑی کو چلے جانے کا کہا،اب
میرے پاس اور کرایہ بھی نہیں تھا کہ میں دوسرے گاڑی میں چلا جاتا،اس لیے
تمہارے تمہارے ہاں آیا ہوں کہ یہاں پر رات گزار کر اور کچھ لے دے کر صبح
سویرے مدرسے چلا جاؤں گا۔میں اس کے قصہ وماجرا کو خاموشی سے سنتا رہا جب وہ
اپنی بات کر چکا تو میں نے کہا کہ ان کو تو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ آپ
سے پوچھے کہ اپنا شناخت کرائیں،اور ان کو یہ بھی پوچھنے کا مجاز ہے کہ کہاں
سے آئے ہواور کہاں جارہے ہو؟مگر ان کو یہ پوچھنے کا مجاز کہاں سے حاصل ہے
کہ کون سے مدرسہ میں پڑھتے ہو؟مدرسہ میں کتنے اساتذہ پڑھاتے ہیں؟مدرسہ میں
کتنے طلبائے کرام پڑھتے ہیں؟خدارا! اے ہمارے اس مملکت خداداد کے محافظوں ان
علمائے کرام کو تنگ نہ کرو۔بس جس چیز کے ساتھ آپ کا کام ہے وہ کرتے رہواور
جس چیز کے آپ کو مجاز نہیں ان سے صرف نظر کرتے رہو۔
قائین کرام آمدم برسرمقصد:میں عوام کو عمومی طور پر اور علمائے کرم وطلبائے
کرام کو خصوصی طور پر یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ پولیس وغیرہ تو
ہمارے اس مملکت خداداد کے محافظین ہیں یہ آپ سے جو کچھ بھی کہے ان کے کہے
کو مانا کرو ،اور ان کے سوالات کے ٹھیک ٹھیک جوابات دیا کرو،کیونکہ یہ لوگ
تو ہمارے اس مملکت خداداد کے حفاظت کے خاطر یہاں پر کھڑے اپنی ڈیوٹی
سرانجام دے رہے ہیں،یہاں پر آپ جب اپنے گھر میں نرم بستر پر آرام سے آرام
فرما رہے ہوتے ہیں تو اس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ مملکت خداداد کے بارڈر
پر یہی ہمارے مملکت پاکستان کے محافظین اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔اگر
یہ پولیس والے کسی ایک دن بھی ہڑتال کریں کہ ہم اپنی ڈیوٹی نہیں کرینگیں تو
پھر آپ دیکھیں گے کہ اس ایک دن میں فحاشی وعریانی کتنی بھڑتی ہے؟ہمیں چاہئے
کہ ہم ان کے ساتھ بھرپور تعاون کریں مگر آخر میں ان پولیس اہلکار سے بھی
ایک دردمندانہ گذارش کرتا ہوں کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمارے مدارس
میں کم عمر طلبائے کرام بھی پڑھتے ہیں ان کے شناختی کارڈ نہیں بنے ہوتے ،تو
مدارس والے بلکہ ہر مدرسہ اور ہر تعلیمی ادارے والے اپنے ہاں پڑھنے والوں
کو ایک کارڈ جاری کر دیتے ہیں ،وہ کارڈ اس کی شناخت ہوتی ہے اس کارڈپر طالب
علم کانام،ولدیت،عارضی پتہ،مستقل پتہ اور زیر تعلیم مدرسے کامکمل ایڈریس ہو
اکرتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس کارڈ پر تاریخ اجراء اور تاریخ تنسیخ بھی درج
ہوتی ہے ،تو یہ پولیس اہلکار بھی ہمارے ان طلبائے کرام کے ساتھ(جن کے ساتھ
شناختی کارڈ نہیں ہوتے اور ان کے ساتھ مدرسے کا سٹوڈنٹ کارڈ ہوتا ہے)بھی
ذرا نرمی کریں اور ان کو بے جا غمگین نہ کرے،اگر آپ اس مملکت خداداد کے
آزادی کی تاریخ پر نظر دہوڑائینگیں تو آپ پر یہ بھی واضح ہوتا جائے گا کہ
اس مملکت خداداد کے آزادی میں ان علمائے کرام نے کتنی کوشش کی ہے اور کتنی
سختی برداشت کر رکھی ہیں،دراصل تو یہی علمائے کرام اس مملکت خداداد کے
محبین و محافظ ہیں اﷲ تعالیٰ ہم کو فہم کامل عطاء فرمائے(آمین) |
|