زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
(mohsin shaikh, hyderabad)
اگر کائنات کی وسعتوں پر نگاہ ڈالی جائے تو
آسمان سے زمین تک جو کچھ اس میں ہے۔ ایک خاص قانون اور قاعدے کے تحت سر گرم
عمل ہے۔ فلک گیر و فلک پیما پہاڑ بل کھاتی گنگناتی لہریں ندیاں بادلوں کی
سرمئی گھنگھور گھٹائیں بارشوں کا چھم چھم برسنا سورج کا صبح کے وقت مشرق سے
نمودار ہونا اور شام کو گل و گلزار کوضائی رنگ دے کر مغرب میں غروب ہوجانا۔
چاند کا اپنے مقرر وقت پر اپنی ٹھنڈی اور ترو تازہ چاندنی سے پوری کائنات
کو مستعفید کرنا۔ ستاروں کا اپنی اپنی گزر گاہوں سے گم کردہ راہ مسافروں کی
راہنمائی کرتے کرتے آنکھوں سے اوجھل ہوجانا۔ مختلف رنگوں کے پھولوں کا
مختلف موسموں میں مختلف خوشبوئوں اور اپنی عطریوں سے فضائوں کو معطر کرنا۔
شبنمی ہوائوں کا پھولوں کے دھند لگے چہروں کو نکھارنا۔ پہاڑوں کی بلندیوں
سے پانی کی آبشاروں جھرنوں کا گرنا۔ اور فضائوں میں مترنم ارتعاش پیدا کرنا
ایک بہت بڑے نظم و ضبط کا مظہر ہے۔ کائنات کی یہ خوبصورتی حسن و جمال اور
لطافت و رعنائی اگر ایک ہی لمحے میں ختم ہوجائے تو کائنات کے نظم و ضبط میں
خلل پیدا ہوجائے گا۔ اسی قاعدے اور قانون کا نام حیات زندگی ہے۔ اس نظام و
قاعدے کے ٹوٹ جانے کا نام موت ہے۔
زندگی کیا ہے،عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے، انہی اجزاء کا پریشاں ہونا
آسمان پر چمکتے تاروں کو دیکھ کر انسان رات کے اندھیرے میں بھی اپنی منزل
مقصود کو جانے والے راستوں پر رواں دواں رہتا ہے۔ انسانی ہاتھوں کے بنے
ہوئے راستے گزر گاہوں کے نشانات تو مٹ سکتے ہیں۔ لیکن نظام کائنات میں
انسانی راہنمائی کے لیے بنے موجودہ نشانات ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں۔ قاعدے
اور قانون کا دوسرا نام حیات زندگی ہوتا ہے۔ نظام کائنات ایک بہت بڑے نظم و
ضبط کا مظہر ہے۔ نظام کائنات ایک سبق ہے انسان کے لیے سمجھنے والوں کے لیے
تو اس میں حکمت ہیں۔ زندگی کیا ہے۔ زندگی کا فلسفہ کیا ہے۔ یوں تو اہل
دانشوں نے اپنے اپنے نظریات کی بنا پر زندگی کے فلسفے کو رقم کیا ہے۔ زندگی
تو نام ہے سانسوں احساسات اور جذبات کا۔ زندگی کیا ہے زندگی بنا سرورق کی
کتاب کی مانند ہے۔ سورج نے کہا زندگی تمازت ہے۔ سحر تلے طلوع ہونا اور شام
ڈھیلے ڈوب جانا چاند نے کہا زندگی ٹھنڈی چھائوں کا نام ہے۔ ستاروں نے کہا
زندگی چمکنا اور چمک کے بعد بجھ جانا ہے سمندر نے کہا زندگی چلتی لہروں کا
نام ہے۔ پہاڑوں نے کہا زندگی بلند و بالا کڑا امتحان ہے۔ مسافر نے زندگی
ایک سفر ہے جس میں مسلسل سفر کرنا ہے۔
بادلوں نے کہا ہوائوں میں اڑنا اور بارش کا برسانا ہے، پھولوں نے کہا زندگی
خوشبو ہے جس میں مہکنا ہے مہک کر مرجھا جانا ہے۔ کانٹوں نے کہا زندگی چھبن
ہے، زندگی تخلیق کرنا ہے، زندگی طویل انتظار کرنا ہر گزرتے پل کے ساتھ ایک
نیا امتحان ہے۔ زندگی نغمہ ہے۔ زندگی ایک شمع ہے جسے پگھلتے پگھلتے ختم
ہوجانا ہے۔ زندگی ایک بلبلہ ہے جو لمحے بھر کو ابھرنا اور پھر ختم ہوجانا
ہے۔ زندگی ایک ایسا کھیل ہے جسے بعد از موت سے ہارنا ہے، زندگی ایک تلخ
حقیقت ہے۔ زندگی خوشی اور غم ہے۔ زندگی خواشہات کا نام ہے، زندگی شب روز کے
دھارے پر بہتی نائو کا نام ہے، زندگی خوشی بھی ہے غم بھی ہے۔ زندگی ادھوری
غزل ہے زندگی ان گنت خواشہات کا ڈھیر ہے، زندگی روشنی اور اندھیرا ہے،
زندگی نت نئی تبدیلیوں کا نام بھی ہے زندگی ایک شکوہ بھی ہے شکر بھی ہے
سانحہ بھی ہے اور مذاق بھی ہے۔
زندگی عہد وفا کرنے کا نام بھی ہے۔ گھائل کرنے والا نشتر بھی ہے، زندگی کڑا
امتحان بھی ہے، آزمائش بھی ہے، آسانیاں بھی ہے۔ مشکلات بھی ہے۔ زندگی کی
جنگ میں جیت بھی اپنی اور ہار بھی اپنی ہوتی ہے۔ زندگی درد کا سمندر زمین
کی گہرائی اور آسمان کی وسعتیں بھی ہیں۔ زندگی نشیب و فراز کا نام بھی ہے،
چار دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات ہے، کچھ پانے کا تجسس و ذمہ داریوں
کو نبھانے کا نام بھی ہے، لفظ زندگی کا مہفوم بظاہر تو دو لفظوں پر مشتعمل
ہیں۔ مگر زندگی کا مقصد حیات کیا ہے، یہ ہم نے بھلا دیا ہے، زندگی عطیہ خدا
وندی ہے۔ زندگی قدرت کا حسین شاہکار ہے، اس لیے ہمیں زندگی میں رب کی
خوشنودی کی فکر کرنی چاہیے، جو ہمارا قادر و مطلق ہے۔ جو ہمیشہ سے ہے اور
ہمیشہ رہے گا، ہر وقت ہر لمحے میں ہے اس کے حال میں جینا اس کے حال میں
رہنا اس کے رنگ کو اختیار کرنا صبغت اللہ کا چولاوا پہننا۔
یہ صاحب حال ہوتا کیا ہے۔ صاحب حال صوفی ماں کی مانند ہے، قادر مطلق کے بعد
کائنات میں سب سے بڑا دل ماں کا ہوتا ہے ماں بچے کو اپنے جسم کا حصہ بنا کر
جنم دیتی ہے، مادر شکم میں ہی اپنے لخت جگر کو رزق دیتی ہے پھر اسے اپنی
شبوں کا گداز اور صبحوں کا سوز دیتی ہے، اپنے بچے کی غلاظت کو فریضہ سمجھ
کر معطر کرتی ہے، اس کی ناز برداریاں کرتی ہے، خطائیں معاف کرتی ہے، ستانے
پر کبھی روٹھتی نہیں، اور بچہ روٹھ جائے تو منانے میں اپنی ہستی مٹا دیتی
ہے، نا فرمانی کریں تو معاف کر دیتی ہے، صوفی اور ماں زمین کی طرح ہوتے ہیں۔
مگر ہم نا دان اس زمین پر اکٹر کر چلتے ہیں، اس پر فساد بپا کرتے ہیں، اس
پر محلات بناتے ہیں، اس کا سینہ چیرتے ہیں، اسکو بوجھل کرتے ہیں، اس پر
اپنے ہی لوگوں کا نا حق خون بہاتے ہیں، مگر یہ زمین اف تک بھی نہیں کرتی اے
انسان تو زمین کی طرح بن جا آج ہم عدم برداشت کی باتیں کرتے ہیں۔ مگر عدم
برداشت کا ہم میں مادہ نہیں ہے، ہم عدم بر داشت زمین سے کیوں نہیں سیکھتے۔
جو اپنے اندر سیاہ کار نیکو کار حتی سب کو اپنی آغوش میں سمیٹھے ہوئے ہیں۔
مزارات کے احاطے دیکھ لو جس میں چرسی نشئی ایسے بھیٹے رہتے ہیں جیسے انہیں
کچھ ہوا ہی نہیں، غور تو کرو صوفی میں بر داشت زمین میں برداشت طبعیت میں
برداشت ہوجائے تو دین و دنیا دونوں سنوار جائے۔
قرآن پاک میں قادر مطلق نے فرمایا کہ اگر میں چاہتا تو ساری دنیا ایک دین
پر ہی پیدا کر دیتا مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے مذہب کو ورائٹی میں
رکھا تاکہ تم ایک دوسرے کے مذہب کو دیکھو عادات و اطوار کو دیکھو رہن سہن
دیکھو اور احترام کرنا سیکھو سلام میں پہل کرو۔ اللہ نے ایک لاکھ چوبیس
ہزار پیغمبروں کو ایک ہی پیغام دے کر بھیجھا تھا کہ تم خلقت کو میری طرف
بلائو ہدایت میں دو گا۔ مگر ہدایت دینے کا عمل تمہیں کب سونپا گیا تھا۔
یہاں کچھ لوگ اٹھے اور دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرنا شروع کردی آج جیسے
دیکھو اپنا دین اپنی شریعت بنا بیٹھا ہے۔ کوئي تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ کوئی
انقلاب لانا چاہتا ہے۔ اللہ کا ایک نام مومن ہے امن دینے والا تم امن قائم
نہیں کرتے۔ امن عدل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ معاف کرنا دوسروں کا حق تسلیم کرنا
سیکھوں انقلاب تبدیلی خو بخود آجائے گی۔ |
|