موہن بھاگوت کی مونچھوں کی
اسٹائل ان کی اپنی پہچان ہے۔یہ اسٹائل بھلے ہی اُسترا و قینچی کی ایجاد سے
پہلے کی ہو پھر بھی اس کو سائنٹفک مونچھ کہا جائے تو زیادہ بُری بات نہیں
ہوگی۔ اس اسٹائل کے دو فائدے میری سمجھ میں آرہے ہیں، ایک تو یہ کہ اس طرح
کی مونچھوں والوں کو پانی چھاننے یا نتھارنے کی ضرورت نہیں ہوتی، پانی چاہے
جیسا ہو پیتے وقت وہ چھن کر ہی پیٹ میں جائے گا۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ
اس طرح کی مونچھوں والوں کے بات کرتے وقت منہ سے نکلنے والا تھوک مونچھوں
سے ہی چمٹ کر رہ جائے گا، سامنے والے کے منہ پر نہیں پڑیگا۔ان دو باتوں کے
علاوہ اور کوئی فائدہ نظر نہیں آرہاہے۔یہ مونچھیں اس طرح کی بھی نہیں ہیں
جن کو چُٹکی میں پکڑ کر مردانگی والی بات کہی جا سکے۔ اس لیے اس طرح کی
مونچھوں کی سفارش نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ مونچھیں منہ سے نکلنے والے برے
الفاظ کو چھان بین نہیں کر پاتیں اور مدر ٹریسا جیسی شخصیت پربے لاگ تبصرے
کی بوچھاڑ کر ڈالتی ہیں۔
سسٹر ٹریسا ۱۹؍سال کی عمر میں تین دوسری سسٹروں کے ساتھ آئیرلینڈ سے کلکتہ
۱۹۲۹ء میں پہنچی تھیں۔ اپنی عمر کے۸۷؍سال تک ’مدر ٹریسانے اپنے پوری زندگی
خدمتِ خلق میں لگا دی۔انھوں نے بیماروں کی تیمارداری اور سڑک کے کنارے ڈال
دیے جانے والے یتیم بچوں کی پرورش ایک سگی ماں کی طرح کی۔ ساری دنیا ان کی
خدمت کی معترف رہی ہے۔آر․ایس․ایس․ کے بھائی لوگوں کو تعصب کے چشمے سے بھلے
ہی ان کی خدمات نہ دکھائی پڑی ہوں لیکن حقیقتاً پوری دنیا نے ان کی بے لوث
خدمات کو دیکھا اور سراہا اور ’نوبل انعام‘ سے سرفراز کیا۔’انڈیا‘ بھی
پیچھے نہیں رہا اور ’پدم شری‘ اور’بھارت رتن‘ جو ملک کا سب سے بڑا غیر فوجی
انعام ہے اس سے سرفراز کیا گیا۔ ان کی خدمات کے مقابلے میں ان کو ملنے والے
انعامات و اعزازات بہت کم ہیں۔پھر بھی یہ انعامات ایسے ہیں جن کو حاصل کرنے
والے پر انسانیت فخر کر سکتی ہے۔لیکن موہن بھاگوت نے مدر ٹریسا کی خدمات کو
نہ صرف نکارا بلکہ ان کی بے لوث خدمات کوشک کی نظروں سے دیکھا ہی نہیں بلکہ
یہ الزام بھی عائد کیا کہ خدمت خلق کے پیچھے ان کا مقصد تبدیلیٔ مذہب تھا۔
یہی نہیں انھوں نے ملک کا نیا جغرافیہ بھی تیار کر دیا ہے۔ان کی نظر میں
شہری علاقہ ’انڈیا ہے‘ جہاں ’ریپ و گینگ ریپ‘ جیسے جرائم ہوتے ہیں اور
’بھارت‘ جو دیہی اور جنگلی علاقہ ہے وہاں اس طرح کے جرائم نہیں ہوتے ۔یہ
بات انہوں نے آسام میں سلچر کے مقام پر ایک جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہی۔
ا سکے بعد میں لکھنا چاہتا تھا کہ’’بیلوں کے ناک میں نکیل ڈال کر قابو میں
کیا جا سکتا ہے لیکن۔۔۔۔۔‘ ‘ لیکن اسی جگہ پر ہمارے دوست مانک لال نے روک
دیا اور کہا ’’ یہ سب مت لکھو، بیلوں کی فطرت سے تم واقف نہیں ہو، یہ مرکہے
ہوتے ہیں، ان کی اگاڑی اور پچھاڑی دونوں سے بچنا چاہئے ، بے بات کے یہ سینگ
بھی مارتے ہیں اور لتیاتے بھی ہیں‘‘۔ |