میڈیا کی ضرورت کیوں ہے؟اور اس
کے استعمال سے فوائد ہیں اور ا سے نظر انداز کرنے سے کیا نقصانات ہیں؟یہ سب
ہمیں محسوس ہورہا ہے۔ایک طرف عیسائی اور یہودی میڈیا مسلمانوں کو ذلیل و
خوار کررہا ہے تو دوسری جانب ہندو فرقہ پرست کے ماتحت کام کررہا میڈیا
باقاعدہ اپنی سازشوں کو انجام دینے میں کامیاب ہورہا ہے۔ہم بار بار یہی
کہیں گے کہ جب تک مسلمان اپنا میڈیا ہاؤز یا میڈیا کے وسائل نہیں بناتے جب
تک ہمیں ان سازشوں کا جواب دینے کیلئے کوئی ہتھیار نہیں ہوگا۔وہ ہم پر حملے
کرتے رہے گیں اور ہم ان حملوں کو جواب دینے سے محروم رہ جائینگے۔تاریخ یہ
بتاتی ہے کہ جب تک ہم اپنے تحفظ کیلئے خود آواز بلندنہیں کرتے اس وقت تک
کوئی طاقت ہمیں محفوظ نہیں کرسکتی۔لیکن آج ہم اپنے اوپر ہورہے ظلم وستم کا
جواب دینے کیلئے دوسروں سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جو سراسر بے وقوفی کے
سواء کچھ نہیں ہے۔ہماری مسجدوں سے ہمیشہ حق کی آواز بلند ہوتی رہی ہے،ان
مساجد میں خطاب دینے والے علمائے کرام ہمیں اس بات سے تو واقف کراتے ہیں کہ
یہ چیز حرام ہے اور یہ چیز حلال ہے ،حرام اور حلال کی پہچان تو ہمیں ہمارے
علماء نے کرادی ہے لیکن اس کے متبادل وسائل کیا ہوں اس تعلق سے عام لوگوں
کو بتانے سے گریز کیا جارہا ہے،جس کی وجہ سے مسلمان شدید کشمکش میں ہیں کہ
آخر کریں تو کیا کریں؟۔اکثر ہم نے مساجد میں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میڈیا
مغرب و فرقہ پرستوں میں چلاگیا ہے،اس لئے میڈیا کی باتوں پر توجہ نہیں دینی
چاہیے۔ہم ہمارے علما سے یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے یہ حکم تو صادر
کردیا کہ ہمیں مغربی و فرقہ پرستوں کے میڈیا پر توجہ نہیں دینا چاہیے ،لیکن
ہم ہمارے علماء سے یہ سوال کرنا چاہیں گے کہ کیونکر آپ اس کے متبادل میڈیا
کے قیام کیلئے مسلمانوں کی توجہ مرکوز نہیں کروائی۔ہندوستان میں نامی گرامی
تنظیمیں ہیں جو مسلمانوں کی قیادت کا علَم اٹھائی ہوئی ہیں۔بات جمعیت
علمائے ہند کی ہو یا پھرجماعت اسلامی کی یا پھر سُنی دعوت اسلامی کی۔یہ
تنظیمیں اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کی فلاح وبہبود ی اور مسلمانوں میں
بیداری لانے کیلئے ہمہ وقت کوشاں ہیں اور ان کے جلسے میں لاکھوں کروڑ وں
لوگ جمع ہوتے ہیں۔مگر ان اجلا س کی براہ راست نشریات(لائیو ٹیلی کاسٹ) نہ
تو کسی ٹی وی چینل میں دکھائی جاتی ہے نہ کسی انگریز اخبار میں یہ سرخیاں
پیش ہوتی ہیں۔ہمارے مذہبی قائدین کے بیانات شاید ہی کسی ٹی وی چینل کی رونق
ہو۔ہمارے یہ علماء اگر ایک آواز دیں توراتوں رات مسجدوں مدرسوں کی تعمیر
کیلئے لاکھوں روپئے جمع کرلیتے ہیں۔ہمارے مذہبی رہنماؤں کی ایک آواز پر عرس
اور جلوس کیلئے کروڑوں روپئے جمع ہوجاتے ہیں،ایک آواز پر ہزاروں کے مجموعے
کے اجتماع کیلئے مالی قربانی دیکر ضلعی سطح سے لیکر قومی سطح کے اجتماع
انجام دئیے جاتے ہیں۔لیکن کسی بھی تنظیم یا ادارے کے ساتھ کوئی عالم دین اس
بات پر غور نہیں کررہے ہیں کہ ہمارا بھی قومی میڈیا ہو،ہمارے بھی ٹی وی
چینل ہو اور ہم پر جو ظلم ہورہے ہیں اس کی خبریں بھی دنیا کے سامنے
آسکیں۔افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس سرمایہ داروں اور مالداروں کی کمی نہیں
ہے،لیکن ہم نے ان مالداروں وسرمایہ داروں کااستعمال کرنے کے بجائے انہیں
کسی مخصوص جلسے یا اجلاس کیلئے محدود کررکھا ہے۔ہمیں آج ہر حال میں اورہر
لحاظ میں میڈیا کی اشد ضرورت ہے اور اس ضرورت پورا کرنے کیلئے مسلمان متحد
ہوکر کام کرسکتے ہیں۔اندازہ لگائیے کہ ایک آواز پر لاکھوں کا چندہ کرنے
والے میڈیا کے قیام کیلئے تھوڑی محنت کرلیں تو کتنا بڑا کام انجام دیا
جاسکتا ہے۔ہم ٹیلی ویژن چینلوں پر دیکھتے ہیں کہ کتنے ہی ٹی وی چینل ایسے
ہیں جو باقاعدہ فرقہ پرستوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔کسی مذہب کا سوامی یا سنتھ
کسی معمولی تقریب میں شرکت کرتا ہے تو اس کیلئے ٹی وی چینل کا گھنٹوں
پروگرام نشر کیا جاتا ہے ،وہی ہمارے اجتماعات،جلسے،جلوس،عرس اورپروگراموں
کی ایک ایک جھلک دکھلانے کیلئے بھی ہمیں غیروں کے پیر پکڑنا پڑرہا ہے۔اس
لئے ہمارے علماء کو چاہیے کہ وہ اب اپنے خیالات میں تبدیلی لائیں اور میڈیا
کے قیام کیلئے لوگوں میں بیداری لائیں۔صرف علماء ہی نہیں دیگر عمائدین اور
سربراہان تنظیموں سے بھی یہی بات کہی جائیگی کے ا س سلسلے میں غور کریں اور
قوم وملت کیلئے ایک آزاد میڈیا کے قیام کیلئے حکمت عملی تیار کریں۔ |