گلگت: امن و آما ن کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور درمندانہ تجاویز

بسم اللہ الرحمان الرحیم
علماء امت نے مقاصد شریعت بیان کرتے ہوئے حفاظت دین،حفاظت مذہب،انسانی مال و جان، عقل و شعور، نسل و آبرو اور عزت اور مال و متاع کی حفاظت کو مصالحہ ضروریہ قرار دیا ہے۔یعنی لوگو ںکی ضروریات زندگی کی حفاظت کرنا اور ضروریات زندگی وہ اہم امور ہوتے ہیں کہ جن پر انسانی اور معاشرتی زندگی کا دارو مدار ہوتا ہے۔ان ضروریات کی مکمل حفاظت کے بغیر انسانی و معاشرتی زندگی مفلوج ہوکورہ جاتی ہے۔انتشا اور دنگا فساد پھیلتا ہے اور انارکی عروج کو پہنچتی ہے۔آئندہ کے سطور میں ہم ان ضروریات زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کی ناگفتہ بہ صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور گلگت بلتستان بالخصوص مرکزی ایریا گلگت کے لئے تجاویز بھی پیش کریں گے۔

ہم اگر غور سے گلگت بلتستان کی سیاسی و معاشرتی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ گلگت بلتستان میں یہاں کے مسلمانوں کی دین بھی محفوظ ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔ مختلف قسم کے خرافات و بدعات اور اختراعات فی الدین نے یہاں کے مسلمانوں کو سخت قسم کی الجھنوں میں ڈال رکھا ہے۔ا ور اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے ان خرافات دینیہ اوربدعات و سیئات کو باقاعدہ سرکاری تحفظ حاصل ہے۔ اور انتظامیہ کی نگرانی میں یہ سب کچھ کیا جارہا ہے۔مثلا سرکاری ترغیب اور اہتمام بعض کمزور سنیوں کو عزاداری مجالس میں لے جانا اور انہیں غیر شرعی جلوس میں ان کو کھڑے رکھنا۔ علماء امت نے دین کی حفاظت کو ضروریات زندگی میں سب سے اہم اوراول قرار دیا ہے اور تحفظ ایمان اور تحفظ دین کو زندگی کے اہم مقاصد میں ایک مقصد گردانا ہے۔لیکن انتہائی افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے گلگت بلتستان میں سرکاری مشینری کو استعمال کرکے یہ گھناؤنی کو شش کی جاتی ہے کہ غیور مسلمانوں کے ایمان اور دین کو جتنا ہوسکے نقصان پہنچایا جائے۔حالانکہ یہ فطرت انسانی کے خلاف ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ '' ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ'' مگر اسلام اور دین و مذہب بیزار لوگ دین اسلام وایمان کے خلاف صف آراء ہیں۔دین محمدی کے اندر دین کے نام سے اپنی خواہشات پر مبنی باتیں شامل کرکے اور یہودیت کا چربہ لے کردین اور ایمان کو شدید نقصان پہنچانے کی سعی لاحاصل میں لگے ہوئے ہیں۔

احکام ِقرآن اور تعلیماتِ نبوی ۖ میں انسانی جان کی حرمت کا ذکر مختلف طریقوں سے آیا ہے۔ بے گناہ انسانوں کے قتل کے متعلق سورة المائدہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ '' من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فی الارض فکأنما قتل الناس جمیعا، ومن احیاھا فکأنما احیاالناس جمیعا''۔ اس آیت کریمہ کی روشنی میں انسانی جان کی اہمیت کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے قتلِ انسان اور فساد فی الارض کو انتہائی قبیح عمل قرار دیا ہے۔ان دونوں اعمال قبیحہ میں ملوث لوگوں کوپوری انسانیت کا قاتل بتا یا ہے۔ اور انسانی جان کی حفاظت کرنے اور فساد فی الارض سے بچنا اور بچانے کی تدبیر کرنے کو ''احیا'' سے تعبیر کیا ہے جس کے معنی ومفہوم زندہ کرنا کے ہیں یعنی پورے معاشرے کوزندہ وجاوید رکھنا۔ ہمارے ہاں تو انسانی جان بہت ارزاں ہوچکی ہے۔ فساد فی الارض کو عبادت کا درجہ دیا جانے لگا ہے۔ من مانی خواہشات اور اھواء نفسی کو دینی تعبیرات سے مزین کرکے اسلام بیزاری کاد رس عام کیا جاچکا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں معاشرہ قتل گاہ بن جاتا ہے اور مقاصد شریعہ معدوم ہوجاتے ہیں۔ انسان کی ایمان کے ساتھ جان و مال بھی ضائع ہوجاتے ہیں۔معاشی ناہمواریاں اور پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔یہ ایک بین الاقوامی قانون ہے کہ بھوکے انسان کو ہر حال میں کھانا دیا جائے مگر ہمارے ارباب اقتدار غریبوں کے منہ سے نوالا بھی چھین لیتے ہیں وہ بھی مذہب کی آڑ میں۔ یعنی غریبوں کا ناطقہ بندی کرکے وہ بذعم خویش مذہبی خدمات انجام دیتے ہیں۔غریب کے گھر کا شعلہ بجھانا ان کا خصوصی مشغلہ بن چکا ہوتا ہے۔عدل و انصاف کا جنازہ نکل چکا ہے۔قرآن کا اٹل فیصلہ ہے کہ''اعدلو ا ھو اقرب للتقویٰ'' مگر یہاں تو مسلکی عبادت گاہوں میں ہی عدل و انصاف کا جنازہ ہی پڑھایا جاتا ہے۔برابر کے دو جان قتل ہوجاتے ہیں۔ ایک کی اشک جوئی کے لیے پوری حکومتی مشینری پہنچ جاتی ہے، بیس لاکھ فی کس کے اعتبار سے اعلانات ہوجاتے ہیں ،چیک تقسیم ہوتے ہیں۔ ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلانات کیے جاتے ہیں اورآہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی خوشخبریاں سنائی جاتی ہیں اور دوسرے مقتول کی اشک جوئی بھی نہیں کی جاتی ۔انتہائی تگ و دو کے بعد تین لاکھ فی کس کا اعلان ہوتا ہے اور اس پر بھی احسان جتلایا جاتا ہے۔ ان کے ورثہ کے لیے کوئی خاص مالی گرانٹ کا اعلان نہیں کیا وجاتا ہے اور نہ ہی ان کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پریس کانفرنسیں کی جاتی ہیں۔جب ارباب اختیار کی توجہ اس ناانصافی کی طرف دلوائی جاتی ہے تو الٹا توجہ مبذول کروانے والوں کو موردِالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ان کا صرف ایک قصور ہوتا ہے کہ ان کا تعلق اہل سنت سے ہوتا ہے۔اور اہل سنت طائفہ منصورہ ہے جس کی سز ا طائفہ ضالہ کے پیرو دے رہے ہیں۔ عدالتوں سے انصاف بکتا نظر آتا ہے۔جج صاحبان سے طاقت کے زور سے فیصلے بدلوائے جاتے ہیں۔ اشتہاری ملزموں کو بڑی آسانی کے ساتھ باعزت بری کروایا جاتا ہے۔پھر انہی ججوں سے ظالم کو مظلوم اور مظلوم کا ظالم ڈکلیئر کروایا جاتا ہے۔ اور پھر ان کے عدل و انصاف کے قصے میڈیا کے ذریعے پورے علاقے میں پھیلائے جاتے ہیں۔غریب لوگوں پر مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور ایک منظم لابی ان کو مجرم قرار دینے کے لئے تعاون و وکالت پر کمر کَس لیتی ہے، یوں معاشرے سچ اور جھوٹ کا تمیز ختم ہوجاتا ہے بلکہ سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ ثابت ہونے لگتا ہے۔ معاشرے میں قیام امن کے لیے تحفظِ دین، تحفظِ نسل انسانی اور تحفظِ جان و مال کا ہر قیمت پر خیال رکھا جانا چاہیے۔جب تک انصاف کا فروغ نہیں ہوگا، جب تک نوکریاں میرٹ پر نہیں دی جائیں گی، جب تک تمام اداروں میں مساوات کا کلچر متعارف نہیں کروایاجائے گا، جب تک معاشی پیچیدگیاں ختم نہیں کی جائیں گی ،معاشرے میں امن وآمان اور حالات کی درستگی محال ہے۔ ہم نے بار بار حکومتی مشینری اورحساس اداروں کی توجہ ان معاشرتی مسائل اور دُکھتے ہوئے ناسوروں کی طرف مبذول کروائی ہے مگر کہیں سے بھی شنوائی نہیں۔اللہم انصر الاسلام والمسلمین۔

ضلع دیامر ایک پرامن علاقہ ہے،یہاں کے لوگ سادہ لوح ہیں مگر گزشتہ ایک عرصے سے کچھ نادیدہ قوتیں وہاں ایسے حالات پیدا کررہی ہیںجن سے وہاں کے غریب اور مفلوک الحال لوگ ظالم اور گنوار ٹھہرتے ہیں۔میڈیائی طبقات دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ان نادیدہ قوتوں کا آلہ کاربن جاتی ہیں، اور ایسے ایسے شگوفے چھوڑ دیے جاتے ہیں کہ الامان والحفیظ، وہاں کے لوگ پرامن رہنا چاہتے ہیں مگر جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ لوگوں میں بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔کبھی کسی علاقے میں کوئی حادثہ اور واقعہ رونما کروایاجاتا ہے اور اس کی آڑ میں پورے دیامر کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے۔ وہاں کی گرینڈ جرگہ انتظامیہ اور حساس اداروں سے مکمل تعاون کرتی ہے مگر اس کو تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتاہے۔ وہ معاشرتی بگاڑ سے بچنے کے لیے بعض دفعہ بے قصور لوگوں حتیٰ کہ علماء کرام تک کو بھی حکومت کی ضد اور ہٹ دھڑمی کی وجہ سے انتظامیہ کے حوالے کرنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر صدافسوس اس بات پر ہے کہ پھر بھی اہل دیامر والے قصور وار ہیں۔ہماری دانست کے مطابق پورے گلگت بلتستان سے ابھی تک ایسی مثال نہیں ملتی کہ از خود کسی نے اپنے بے قصور لوگوں کو انتظامیہ کے حوالہ کیا ہو۔یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔ نومل کے مقام پرفورسز کے آفیسر اعلیٰ آئی جی عثمان زکریاکو یرغمال بنانے کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے موسم گرما میں گرم چوغے پہن کر ان کے سامنے سرجھکایا۔ حکومت ان کو کچھ نہیں کہہ پائی، اور وزیراعلیٰ اس کو ضیافت کا نام دیتا ہے۔مقام افسوس یہ ہے کہ مقتدر قوتیں اس پورے ڈرامے میں شریک رہی۔ ان دہشت گردوں اور فتنہ سازوں پر کوئی ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے مگر پھر بھی علاقے میں امن کا ڈھونڈورا پیٹا جاتا ہے۔کیا ان کشیدہ اور ستم زدہ حالات میں امن ممکن ہے؟ ایسی نرالی منطق تو ہم سمجھنے سے رہے قاصر۔ اگر انتظامیہ اور حساس ادارے واقعتا امن کے لیے مخلص ہیں تو ان تمام ملزموں اور مجرموں کے ساتھ یکساں سلوک کرنا ہوگا۔ ظالم کو کیفرکردار تک پہنچانا ہوگا اور مظلوم کی دادِرسی کی جانی چاہیے وگرنہ کبھی بھی امن نہیں ہوسکتا۔
ظلم بھی رہے اور امن بھی ہو
تم ہی بتاؤ کیا ممکن ہے

امن کے قیام کے لیے عدلیہ کا آزاد ہونا اور اسلامی خطوط پر استوار ہونا ازحد ضروری ہے۔ ہم ارباب اقتدار اور حساس اداروں سے پرزور گزارش کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی تمام عدالتوں کو بالفعل آزاد کیا جائے عدلیہ یعنی(سول کورٹ سے سپریم اپلیٹ کورٹ) کی آزادی کو بالفعل یقینی بنایاجائے۔انصاف اور میرٹ پر فیصلے کرنے والے ججوں کی حوصلہ افزائی کی جائے نہ کہ ان کو ڈرا دھمکا کر، خفیہ طریقے سے ان پر دباؤ ڈال کر، ان کی پروموشن روک کر اور ان کی پروفیشنل زندگی میں رکاوٹیں پیداکرکے انہیں حراساں کیا جائے۔عدالتی معاملات کو انتظامیہ سے بالکل الگ رکھا جائے، عدالتی فیصلوں پر کوئی ادارہ اثر انداز نہ ہو۔ جب تک ہمارے ارباب اقتدار اور انتظامیہ والے عدالتوں کی مکمل آزادی کو یقینی نہیں بنائیں گے تب تک امن ممکن ہی نہیں۔باوثوق ذرائع سے اطلاعات ملتی ہیں کہ مجرموں،ڈاکوؤں اور اشتہاری دھشت گردوں کو بھگانے میں اعلیٰ حکومتی ذمہ دار مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں معاشرتی اورتمدنی زندگی میں کس طرح بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔بہر صورت فوری اور سستا انصاف ملنا چاہیے جس کے بغیر امن کا خواب کبھی بھی تعبیر نہیں ہوسکتا۔

ایک اہم بات یہ بھی قیام امن میں رکاوٹ بنتی جارہی ہے کہ گلگت بلتستان میں ''ابلاغی دہشت گردی'' عام ہوچکی ہے۔یہاں کا پرنٹ میڈیا حددرجہ حدود کا پامال کرتا ہے۔اپنے ابلاغی وظائف سے کوسوں دور ہیں۔اپنے من پسند افراد، اداروں اور مسالک کی خبریں سپر لیڈ لگادی جاتی ہیں۔رائی کا پہاڑ اور پہاڑ کا رائی بنانا معلوم بن چکا ہے۔ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت کچھ اضلاع بالخصوص ضلع دیامر کے خلاف اخباری مہم شروع کی گئی ہے۔ایسے اداریے اور مضامین و کالم لکھوائے جاتے ہیں جن سے پورے علاقے میں نفرت کی آگ پھیل جاتی ہے۔صحافت کی یہ کالی بھڑیوں کو جب تک بیڑیاں نہیں ڈالی جاتی ہیں یہ سفید کو کالااور کالا کو سفید بتلاتی رہیں گی۔کچھ لوگ ایک سازش کے تحت گلگت بلتستان میں طالبان کا ڈھونڈورا پیٹتے ہیں۔کیا ان کو معلوم نہیں ہے کہ جہاں طالبان ہوتے ہیں وہاں ڈرون حملے کیے جاتے ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آبیل مجھے مار، یعنی آ امریکہ ہمیں مار۔خاکم بدہن!ا گر یہاں ڈرون حملے شروع ہوئے تو کیاوہ مخصوص لوگوں کے گھر جلاکر راکھ کردیں گے۔یقینا نہیں۔ڈرون حملے ہرگز یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ اس علاقے میں کس مکتب فکر اور مسلک کے لوگ رہتے ہیں بلکہ وہ تو تمام کھیت وکھلیان کو بھسم کرکے رکھ دیتے ہیں۔ہم واضح طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ جو لوگ گلگت بلتستان میں طالبان کو باور کروا کے مخصوص مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں اور طالبان کی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتے ہیں او ر اس آڑ میں بعض شریف لوگوں اور مخصوص ایریاز میں آپریشن کروانا چاہتے ہیں وہ مغربی اور امریکی آلہ کار ہیں۔آج تک حساس اداروں نے نہیںکہا کہ گلگت بلتستان میں طالبان پہنچ چکے ہیں مگر ایک اخباری ٹولہ اس بات پر پوری قوت لگارہا ہے کہ یہاں طالبان ہیں اپریشن کیا جائے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا کو بھی انتشار و نفرت پھیلانے کے لیے خوب استعمال کرے ہیں۔اور ویسے بھی جھوٹ مسلمہ طور پر ایک قبیح عمل ہے۔جھوٹوں پر اللہ کی پھٹکار ہے مگر ایک مخصوص اخباری طبقہ اور انہیں مدد کرنے والے زہریلے سا نپ جھوت اتنا بولتے ہیں جھوٹ سچ دکھائی دینے لگتا ہے۔مقتدر اداروں کو چاہیے کہ ایسی رذیل بھیڑوں کو کالی بھیڑیاں بننے سے روکیں، ورنہ کل یہ لفافہ جرنلزم کی پیداوار ناتواں بھیڑ خون چوسنے والے خوانخوار بھیڑیاں بن سکتے ہیں۔جب تک یہاں کے اخبارات کو اسلامی حدود و قیود اور اخلاقیات،صحافتی اصول وضوابط کا پابند نہیں بنایاجاتا ہے تب تک یہ یہاں قیام امن کی راہ میں کانٹے بچھانے سے کوئی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔

گلگت بلتستان میںا من کو برباد کرنے کے لیے وقتا فوقتا ایسے لوگوں کو یہاں دعوت دی جاتی ہے جن کی شہرت انتہائی متنازعہ ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں فیصل رضاعابدی نام کے ایک متعفن زدہ شخص کو گلگت میں انتہائی کھلی چھوٹ دی گئی۔یہ شخص گلگت بلتستان میں ایک بہترین سانحہ کی کوشش کرکے گیا مگر اللہ کا کرم ہوا اور انہیں اپنے مذموم عزائم میں ناکامی ہوئی۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق سانحہ جامعہ تعلیم القرآن بھی اس دہشت گرد کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔اس نے یہاں اہل سنت و الجماعت، تمام گلگت کی سیاسی قیادت کے بارے میں جو غلیظ بکواس کی وہ سب پر عیاں ہے۔ایسے خُبثِ باطن رکھنے والے لوگوں کو قوت کے ساتھ روکنا ہوگا۔ ورنہ یہی لوگ کل کسی اور مصیبت کاراگ نہ الاپے۔ہمیں حیرت ہوئی ان لوگوں پر کہ جب اہل سنت کا کوئی لیڈر یا عالم دین یہاں آتا ہے تو ان کی لمبی لمبی زبانیں باہر نکلتی ہیں اور زہر اگلتی ہیں مگر اس بدبخت،زبان درا زکے بارے میں سب کی زبانیں گنگ تھیں۔ نجی محفلوں میں سب اس کو برا بھلا کہتے نظرآئے مگر کمال ہو کسی نے اس زبان دراز کی مذمت کی ہو۔ دفاع وطن کنونشن کے عنوانات سے جلسے کیے جاتے ہیں اور ان جلسوں میں وطن اور وطن میں بھاری اکثریت سے رہائشی پذیر اہل سنت شہریوں کے خلاف اول فول بَکا جاتا ہے۔ وہ لوگ خاک وطن کی دفاع کریں گے جو بارہاوطن کا سبز ہلالی پرچم جلاچکے ہیں اور انڈیا کی طرف مارچ کرنے کی دھمکیاں تھوک کے حساب سے دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگ امن کی راہ میں سب سے بڑے رکاوٹ ہوہیں۔اس طرح کئی ایک لوگوں کو یہاں بڑے دھوم دھام سے بلایا جاتا ہے اوران کو امن کے سفیر قرار دینے کی اخباری مہم شروع کی جاتی ہے مگر حقیقت میں یہ لوگ امن کے دشمن ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چند اور لوگوں نے بھی یہاں آکر بالخصوص سنی علاقوں میں جاکر ایسی بودی اور کمزور حرکتیں کی ہے کہ اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے کچھ لوگ بھی ان غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی مذمت کرنے کے بجائے ان پر لٹو ہوجاتے ہیں۔

قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان کا ایک اجتماعی اثاثہ ہے۔یہ کسی مسلک، علاقہ یا فرد واحد کی ملکیت اورآماجگاہ نہیں مگر دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں نے اس قومی اثاثے کو اپنی جاگیر سمجھا ہوا ہے۔وہاں اہل سنت طلباء کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔اہل سنت ملازمین بھی مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں۔جان بوجھ کر ان کی پرموشن روکی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کی کابینہ اور لوکل انتظامیہ بھی یونیورسٹی میں گٹھیا کردار ادا کررہی ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ بھی اپنے قول و فعل سے یہ ثابت کرہی ہے کہ یہ کسی خاص طبقے کی جاگیر ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ سنڈیکیٹ کے فیصلے اگر ایک بار ہوجائے تو پھر ان کو کسی مخصوص گروہ کی ایماء پر کیوں تبدیل کیے جاتے ہیں۔یہ ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ اس کو تعلیمی ادارہ ہی رہنے دیا جائے تو مناسب ہے۔ یہاں فحاشی پرمبنی فیسٹول اور متنازعہ مسلکی پروگرام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔کیا ہم یونیوسٹی ا نتظامیہ، لوکل گورنمنٹ اور مذہب کے نام پرمذہب کو بدنام کرنے والے ٹولوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ جس پروگرام کی وجہ سے کئی انسانوں کی جانیں ضیاع ہوجائے اس کی شرعی حیثیت کیا ہوتی ہے۔کیا ایک مخصوص گروہ کی ایماء پر مسلکی پروگرام اتنا ضروری ہے کہ پورے گلگت بلتستان کا امن برباد ہو، یونیورسٹی تین تین مہینے کے لیے بند ہوجائے۔ کیا یہ حرکتیں امن کی راہ میںسب سے بڑی رکاوٹیں نہیں ہیں اور تعلیم کا جنازہ نہیں نکل رہا ہے۔ان نازیباحرکتوں کی وجہ سے طلبہ و طالبات کا ایک پورا سمسٹر ضائع ہوا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔ اس پر مستزاد پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ پر مخصو ص گروہ پولیس کے ذریعے طلبہ پر گولیاں برسائی گئی۔ کیا عوام کی محافظ پولیس عوام پر دن دھاڑے گولیاں برساتی ہے؟ کیا لاء اینڈ آرڈر اسی کا نام ہے کہ بے گناہ لوگو ں پر گولیوں کی برسات کی جائے۔ پولیس اپنے فرائض منصبی سے رہے قاصر اور چلے نہتے لوگوںپر ظلم کرنے۔ اگر ان میں اتنی اخلاقی جرأت ہوتی تو انتظامیہ اور یونیورسٹی کے منع کرنے کے باوجود یونیورسٹی میں دہشت گردانہ طورپر پروگرام کرنے اور قانون کی دھجیاں اڑانے والوں کو روکتی ، ان کو قانون کے کٹہرے پر لاتی مگر اے کاش ایسا نہیں ہوا ،الٹا مظلوم کو نشانہ بنایا گیا۔

محرم الحرام کے دوران سبیل کے نام پر نئے فتنوں کا آغاز کرکے امن معاہدے کو رسوا کیا گیا۔بدامنی پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ اہل سنت کے احتجاج پر وقتی طور پر پابندی لگانے کے احکامات جاری ہونے کے باوجود وزراء کی سرپرستی میں سرکاری آفیسران اور ملازمین کی خرمستیاں قابل افسوس ہیں۔ان انتظامی خلاف ورزیوں کے آج تک کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔چہلم کے موقع پر کفر اور تبرا کی حد کردی گئی۔الامان والحفیظ۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ فوری طو ر پر قانونی مواخذہ میں لائے۔بصورت دیگر گلگت کے حالات ماضی سے بھی زیادہ تلخ ہونگے۔وزیر اعلیٰ ایسے گھناؤنے افعال میں ملوث لوگوں کو تحفظ دینے سے باز رہے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے۔

قیام امن کے لیے سب سے بہتر تجویز یہ ہے کہ امن معاہدہ2005ء اور مساجد ایکٹ 2012ء کو من وعن نافذ کیا جائے توکوئی بات نہیں کہ امن قائم نہ ہوسکے۔ ہم نے ماقبل کی سطور می بہت سی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے ان تمام خرابیوں کو بھی دور کیا جانا چاہیے۔امن معاہدہ اور مساجد ایکٹ کو نافذالعمل بنانے کے لیے وفاقی انتظامیہ،مقامی انتظامیہ ، تمام سیاسی و مذہبی پارٹیاں، حساس ادارے، عدلیہ، وکلائ، صحافی،بارایسوسی ایشنز، سول سوسائٹی، طلبہ و اساتذہ،تاجربرادری غرض سب میں اخلاقی و اختیاری جرأت ہونی چاہئے۔اگرا ج بھی اس جرأت کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو حالات ہمارے ہاتھ میں نہیں رہیںگے۔ ہم مزید چند ایک تجاویز مکمل خلوص اور درمندی کے ساتھ پیش کرتے ہیں،

١....کراچی ایم اے جناح اور دیگرسانحات کے تناظر میں اب ضروری ہوگیا ہے کہ ماتمی جلوسوں پر کھلے عام راستوں، شاہراہوں، عوامی مقامات اور بازاروں میں پابندی عائد کرکے عبادت گاہوں اور رسوم خانوں تک محدود کیا جائے۔
٢....ماتمی جلوسوں کی طرح دیگر وہ تمام جلوس ، اجتماعات ومجالس جن سے بدامنی، خوف وہراس،فرقہ وارانہ تصادم اور دیگر نقصانات وقوع پذیر ہوتے ہوں کو عبادتوں گاہوں اورمخصوص جگووں تک محدود کیا جائے۔ کھلے مقامات پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
٣...محرم الحرام کے مبارک مہینے میں سکیورٹی کے نام پر پورا مہینہ کروڈوں روپے خرچ کرنے سے گریز کیا جائے ، اور پورا مہینہ انسانی معاشرتی زندگی معطل کرنے اور انتظامیہ کو غیر فعال کرنے سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
٤۔....شاہراہ قراقرم کی سکیورٹی انتہائی لازمی ہے مگر اس کے لیے گلگت، ہنزہ نگر،اور جگلوٹ سے اسکردو خپلو تک کی سڑکوں کو محفوظ بنانا از حد ضروری ہے۔ ہر علاقے کی شاہروں کی حفاظت کے لیے انہی علاقوں کے لوگوں کو فورسز میں بھرتی کیا جائے۔اور ان کو فوجی طرز کی ٹریننگ دی جائے۔اگر وہ غفلت کا مظاہرہ کریں تو ان کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے۔نیزشاہراہ قراقرم میں سکیورٹی کے نام پر بسوں کو گھنٹوں گھنٹوں روک کر مسافروں کو اذیت ناک سزا کے تسلسل کا خاتمہ کیا جائے۔
٥۔....قراقرم یونیورسٹی ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ اس کو تعلیمی و تحقیقی ادارہ ہی رہنے دیا جائے۔کسی بھی قسم کے مسلکی، بے حیائی اوراسلام و علاقہ دشمنی پر مبنی پروگرامات کا انعقاد قطعی ممنوع ہوں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔لوکل انتظامیہ کے بعض مخصوص لوگوں اور عدلیہ کے کچھ ججوں کویونیورسٹی کے معاملات میں دخل اندازی سے روکا جائے۔
٦۔....قراقرم یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی فوجی جرنیل کو بنایا جائے بصورت دیکر یونیورسٹی میں پاک آرمی کی باقاعدہ پوسٹ قائم کی جائے تاکہ ہر ایراغیرا کو یونیورسٹی کے معاملات کو دخل اندازی سے روکا جا سکے۔
٧۔....گلگت بلتستان میں رہائش پذیر تمام مسا لک و مکاتب کے متنازعہ کتب، سی ڈیز اور دیگر مواد پر پابندی عائد کیا جائے جو گلگت بلتستان بالخصوص گلگت ایریا میںلڑائی جھگڑے کا سبب بن رہے ہیں۔
٨۔....مقامی اور غیر مقامی ایسے تمام علمائ، ذاکرین،واعظین،مجتہدین پر گلگت بلتستان کے کسی بھی علاقے میں کسی بھی قسم کا پروگرام میں شرکت کرنے، تقریر و خطبہ دینے اور مجلس پڑھنے پر پابندی لگا دی جائے جن کی باتوں، تقاریر اور مجلسوں سے عوام میں ہیجان اورمنافرت پھیلتی ہوں۔پبلک مقامات پر ایسے جلسوں کا انعقاد قانونی جرم قرار دیا جائے۔
٩۔....گلگت بلتستان میں میڈیا یک طرفہ ٹریفک چلاتا ہے۔ اس کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے اور میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق تیار کیاجائے کہ وہ منافرت، بدامنی،انتشار اورکسی کی طرف داری کے بجائے حقائق سامنے لائے اور معاشرتی اتحاد و اتفاق کی سرگرمیوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکے۔شوشل میڈیا میں بھی اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔
١٠۔..تمام مسلکی عبادات و رسومات کو معبدخانوں اور رسوم خانوںتک محدود کیا جائے۔اگر کوئی اصرار کرتا ہے کہ اپنے خود ساختہ رسومات عبادات ہیں تو عبادت خانوں میں عبادات بجا لائے جائے۔عبادات روڈ اور تعلیمی اداروں پر ادا نہیں کیے جاتے ہیں۔اور ساتھ ساتھ مقررین کی سخت نگرانی جانی چاہیے تاکہ وہ متنازعہ تقاریر اور ہزلیات سے باز رہے۔بصورت دیگر قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

٭..سہ ماہی نصرة الاسلام کے اسی شمارے میں 2005ء کا امن معاہدہ بھی مختصر تبصرے کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے تاکہ امن کے نام نہاد علمبرداروں کا مکروہ چہرہ ان کے آئینے میں دکھایا جاسکے۔اگرقیام امن کے لیے اس امن معاہدے پر بھی عمل کیا جائے تو کسی حد تک معاشرتی بگاڑ ختم ہوسکتی ہے۔ ہمارے ہاں تو امن معاہدے اور ضوابطِ اخلا ق دھوم دھام اور شور و شغف میں تیار ہوتے ہیں اور پھر ان کو اس بے دردی سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے جاتے ہیں کہ انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ یا اللہ یہ کیا ماجراہے کہ کل تو جو لوگ ان معاہدوں اورضوابط کے لیے اخباری بھڑکیں ماررہے تھے آج وہ اپنے تیارکردہ امن ڈرافٹوں سے کیوں دور بھاگ رہے ہیں۔اور علی الاعلان کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے کسی امن معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔اور وہ لوگ بھی قابل افسوس ہیں جو ان معاہدوں اور ضوابط کے حوالے سے اپنی سیاست چمکانے کے لیے ڈھٹائی سے جھوٹ بولتے ہیں اور یہ جھوٹ مساجد اور اپنی جماعت کے اہم اجلاسات میں بولا جاتا ہے۔جس قوم میں معاہدوں کی پامالی اورجھوٹ بولنا اتنا رواج پکڑے کہ وہ مثال بن جائے تو ایسی قومیں عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکتیں۔ وہی لوگ آ ج ذاتی مفادات اور عہدوں کے حصول کے لیے گلگت بلتستان کو صوبہ بنا نے کی مشق بے جا میں لگے ہوئے ہیں یا بنانے والوں کی لَے میں لَے اور کندھے کے ساتھ کندھا ملانے میں مصروف ہیں۔حالانکہ عوام میں ان کی ساکھ بری طرح مجروح ہے۔ ہم نے اپنے ذمہ دار ساتھیوں کے ساتھ گلگت بلتستان کی آئینی صورت حال کے حوالے سے درپیش مشکلات کا تذکرہ جب حضرت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم کے پاس کیا تو حضرت نے زور دیکر کہا کہ آپ کا بقائ، گلگت بلتستان کابقاء کشمیرکے ساتھ وحدت میں ہے ،آپ اس کے لیے ہرفورم میں کوشش کریں اور ہمارا تعاون بھی آپ کے ساتھ رہے گا۔اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے ذمہ داروں کو بھی ڈانٹ کر کہا کہ آپ لوگ بھی جماعت کے موقف پر گلگت بلتستان میں سختی کے ساتھ ڈٹے رہو مگر آج بھی مولانا صاحب کی جماعت کے گلگت بلتستان کے کچھ ذمہ دار لوگ اپنے جماعتی مؤقف اور قائد کی ہدایات کے خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے ساتھ کندھے ملاتے چلتے ہیں جو کسی بھی صورت مملکت پاکستان اور گلگت بلتستان کے ساتھ، اہل سنت عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ انہیں اپنی اداؤں پر جلد نہیں تو دیر سے ضرور افسوس ہوگا۔ اب بھی وقت نہیں گیا ہے، انہیں سنجیدگی سے اپنی حرکتوں پر غور کرنا چاہیے۔

نوٹ: گلگت بلتستان میں موجودہ دنوں وجود پذیر آنے والی عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ تنظیم اہل سنت والجماعت مضبوطی سے کھڑی ہوئی۔تنظیم کے جنرل سیکرٹری محمدنواز خان اور رہنماء مولانا رئیس کو ایکشن کمیٹی کی مکمل معاونت کرنے کا کام سونپا گیا اور انہوں نے آخری دم میدان میں اعلی کردار کا مظاہرہ کیا۔ اورانہوں نے نگرانی کا عمل جاری رکھا تاکہ کوئی ملک و ملت دشمنی پر مبنی کو ئی واقعہ نہ ہو۔اس موضوع پر کسی اور موقعے پر گفتگو کی جائے گی۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔آمین

نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ نصرة الاسلام کے شمارہ نمبر ٨،٩، 2014 کے لیے بطور اداریہ لکھا گیا ہے۔ قاضی
 
Qazi Nisar Ahmad
About the Author: Qazi Nisar Ahmad Read More Articles by Qazi Nisar Ahmad: 16 Articles with 13518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.