ابنِ آدم ازل سے جنگوں کے ایک
لا متانا ہی سلسلے کی صورت میں اپنے ہی خلا ف بر سرِ پیکار ہے۔ انسان کی
دوسرے انسان پر بالا دستی قائم کرنے کی کوشش اسکی جبلت ہے اور شاید یہی وہ
قوت ہے جو جنگوں کی پشت پر کار فرما رہتی ہے۔ اگرچہ موت انسان کا سب سے بڑا
خوف ہے اورطبلِ جنگ موت کا پیغا م لیکن یہ خوف بھی اس جنگی جنون کو مات
دینے میں ناکام رہا اور کروڑوں انسان اسکی بھینٹ چڑھتے رہے۔ چنگیز خان ہو
یا کہ ہٹلر محض نام بدلتے رہے اور انسانی تاریخ کے ہر ایک باب پر لہو رنگ
چڑہا یا جاتا رہا۔ جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ انسانیت کو جنگ کاخاتمہ کر
دینا چا ہئے اس سے قبل کہ جنگ انسانیت کا خاتمہ کر دے ۔ کیا جنگوں کا یہ
تسلسل کبھی اختتام کو پہنچ پائے گا اور اگر نہیں تو اسکا انجام کیا ہوگا
اور اگر تیسری جنگِ عظیم وقوع پزیر ہوئی تو کس قدر ہولناک نتائج بر آمد
ہونگے؟ اس بات کا اندازہ انسانی تاریخ کی مہلک ترین جنگِ عظیم دوم کے
اعدادوشمار سے لگایا جا سکتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق 1939سے1945تک جاری رہنے والی یہ جنگ چھ کروڑ
انسان نگل گئی۔ یہ تعداد اُس وقت کی دنیا کی کل آبادی یعنی2 ارب کا
تقریباً تین فیصد سے زائد ہے جس میں فوجی ہلاکتوں کا تناسب 33 فیصد اور عام
شہریوں کی ہلاکتوں کا تناسب 67فیصد ہے۔ عصرِ حاضر کے مہلِک ترین ہتھیاروں
میں سے ایک ایٹم بم کا پہلی بار استعمال اسی جنگ میں ہوا۔ 6اگست 1945کی صبح
جاپان کے شہر ہیرو شیما پر قہر بن کر نا زل ہوئی۔اُس وقت کے امریکی صدر
ہیری ٹرو مین کے احکامات پر لٹل بوائے نامی ایٹم بم اس شہر پر گرایا گیا۔
پیرا شوٹ کے ذریعے گرایا جانے والا یہ بم سطح زمین سے1900فِٹ کی بلندی پر
پھٹا جس کے نتیجے میں فوری طور پر کم از کم 66,000ہلاکتیں ہویئں اور
34,000زخمی ہوئے۔ اُس وقت شہر کی کُل آبادی 2لاکھ55ہزار تھی۔ 3روز بعد
2اگست1945کو امریکہ نے جاپان پر ایک اور حملہ کردیا جس میں فیٹ بوائے نامی
ایٹم بم ناگا ساکی پر گرایا گیا۔ اس حملہ میں کم از کم 39ہزار ہلاکتیں
ہوئیں اور 25ہزار زخمی ہوے جبکہ اُس وقت شہر کی کُل آبادی1لاکھ95ہزار تھی
۔
ان عبرت ناک اعدادو شمار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئندہ رونما ء ہونے والی
کسی عالمی جنگ کے نتیجے میں برپا ہونے والی تباہ کا ریوں کا اندازہ با
آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ جنگِ عظیم اول (1914تا1918) کے بعد یہ عمومی خیال
پایا جاتا تھا کہ اس جنگ کی بدولت دنیا تباہی اور بربادی کے جس حولناک
تجربے سے گزری ہے اس کو مدِ نظر رکھتے ہوے آئند ہ اس شدت کی کسی عالمی جنگ
کا امکا ن نہیں مگر جنگِ عظیم دوئم نے اس خیال کو یکسر غلط ثابت کردیا ۔
لحاظہ جنگِ عظیم دوئم کے بعد تیسری جنگ عظیم کے امکان کو بھی رد نہیں کیا
جا سکتا۔ اگر تیسری جنگِ عظیم وقوع پزیر ہوئی تو اس میں یقینی طور پر
نیوکلیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے گا جس کا مطلب موجودہ تہزیب کی
مکمل طور پر تباہی و بربادی بھی ہوسکتا ہے کیونکہ نیوکلیائی ہتھیار روایتی
ہتھیاروں کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ تباہ کُن ہیں۔ یہ انتہائی مختصر وقت
میں وسیع پیمانے پر ہلاکتوں اور تباہی کاباعث بننے کی حد درجہ صلاحیت کے
حامل ہیں۔ان کے استعمال کے نتیجہ میں پھیلنے والے تابکاری اثرات صدیوں پر
محیت ہوسکتے ہیں۔
جدید نیوکلیائی ہتھیار جاپان پہ گرائے جانے والے ایٹم بموں سے اس قدر زیادہ
خطرناک اور مہلک ہیں کہ اگران میں سے محظ 50 ہتھیاروں کا استعمال کردیا
جائے تو 2ارب کے قریب انسان ہلاک ہو جائیں گے۔اس وقت دنیا بھر میں 27ہزار
سے زائد نیوکلیائی ہتھیار موجود ہیں جن میں سے 80420روس کے پاس ہیں ۔ یہ
دنیا میں کسی بھی ملک کے پاس موجود نیوکلیائی ہتھیاروں کی سب سے بڑی تعداد
ہے۔ امریکہ 7650ہتھیاروں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ فرانس کے پاس 300،چائنہ
240،برطانیہ 225، پاکستان 90تا110،بھارت80تا100اور شمالی کوریا کے پاس 10سے
کم نیوکلیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ کئی ممالک ایسے
بھی ہیں جنہوں نے تاحال نیوکلیائی تجربات نہیں کیے لیکن یا تو وہ نیوکلیائی
طاقت کے حامل ہیں یا پھر یہ صلاحیت حاصل کرنے کے قریب ہیں۔اگرچہ اسرائیل
اعلانیہ طور پر نیوکلیائی طاقت کی حامل ریاست نہیں مگر اُس کے پاس بھی 80تک
نیوکلیائی ہتھیار موجود ہوسکتے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد ایک صحافی نے آئن سٹائین سے سوال پوچھا
کہ جنکِ عظیم سوئم میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کی نوعیت کیا ہوگی؟ آئن
سٹائین نے مسکراتے ہوے جواب دیا کہ میں جنگ عظیم سوئم کے بارے میں تو نہیں
جانتا البتہ اگر چوتھی جنگِ عظیم ہوئی تو وہ یقینی طور پر ڈنڈوں اور پتھروں
سے لڑی جائے گی۔ بات واضع ہے کے اگر تیسری جنگِ عظیم ہوئی تو وہ اس قدر
مہلک اور تباہ کُن ثابت ہوگی کہ انسان پتھر کے دور میں پلٹ جائے گا۔ موجودہ
بین الاقوامی صورتِ حال میں تیزی سے رونماء ہونے والی سیاسی و عسکری
تبدیلیاں اور عالمی قوتوں کے مابین سرد جنگ کی صورتِ حال کہیں عالمی جنگ کا
آغاز تو نہیں؟اگر ایسا ہے تو دنیا تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔
جبران عالم خان |