چیرمین سینٹ کا انتخاب اور صولت مرزا کی سزا

اخبار میں ایک اہم خبر شائع ہوئی ہے "کہ وفاقی حکومت نے حکومت سندھ کو بذریعہ خط ہدایت کی ہے کہ صولت مرزا سمیت سزائے موت کے منتظر تمام قیدیوں کو پھانسی دینے کی نئی پالیسی پر عملدرآمد کرایا جائے ۔وفاقی وزارت داخلہ کے ایک افسر نے اس نما ئندے کو بتایا کہ ہم نے حکومت سندھ کو خط لکھ دیا ہے اور انھیں کہا ہے کہ کہ سزائے موت پر عائد پابندی کے خاتمے کی پالیسی کا اطلاق صولت مرزا سمیت تمام قیدیوں پر ہوتا ہے ۔صولت مرزا کو 1999میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی ۔وفاقی حکومت نے جنوری 2015میں خاموشی سے صولت مرزا کی موت کی سزا پر عملدرامد روک دیا تھا ۔صولت مرزا کی سزائے موت پر عملدرامد رکوانے کے لیے خصوصی طور پر ایک خط لکھا گیا تھا ۔لیکن حکومت کے نئے اقدام نے سابقہ صورتحال کو تبدیل کردیا ۔اب وفاقی حکومت نے ایک اور موقف اختیار کرتے ہوئے ایک صفحے پر مشتمل خط سندھ کی محکمہ داخلہ کو بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کے صولت مرزا کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جاسکتا ہے ۔قبل ازیں 3مارچ2015کو چاروں صوبوں ،آزادکشمیر اور بلتستان کے سکریٹری داخلہ کو بھی ایک خط لکھا گیا جس میں تمام قیدیوں کے لیے سزائے موت پر عملدرامد کی پابندی کے خاتمے کے بارے میں بتایا گیا تھا ۔"

درج بالا خبر اس بات کی غمازی کررہی ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت صولت مرزا کی سزا کو ایک پریشر لیور کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے ۔اسے کراچی کے امن سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ اپنے سیاسی مفاد سے دلچسپی ہے ۔پشاور سانحے کے بعد جب ایک مشترکہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ سزائے موت کے تمام قیدیوں کی سزاؤں پر عملدرامد کیا جائے ۔اور جب اس حوالے سے عملی کارروائی کا آغاذ ہوا تو یورپی یونین سمیت تمام مغربی ممالک سے اس کی مخالفت کی تھی۔لیکن حکومت نے اپنے ارادے پر مضبوطی سے عمل کیا ۔یہ بات طے ہوئی پہلے دہشت گردی کے مجرموں کی سزا پر عمل کیا جائے گا ۔پہلے حکومت سندھ کو چھ افراد کی فہرست موصول ہوئی کہ ان کے بلیک وارنٹ جاری کیے جائیں۔ان سب کے بلیک وانٹ جاری ہوئے تو اس میں صولت مرزا کا نام بھی شامل تھا ۔

جب حکومت کو فوجی عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں اکیسویں ترمیم کے حوالے سے ایم کیو ایم کی سیاسی حمایت کی ضرورت پڑی تو وفاقی حکومت نے ماہ جنوری میں خاموشی سے صولت مرزا کی سزا پر عملدرامد روک دیا ۔اس وقت سنجیدہ حلقوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ کیا ھکومت کراچی میں قیام امن کے لیے سنجیدہ بھی ہے یا نہیں اور یہ کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ قتل کے مجرموں کی سزاؤں کو اپنے سیاسی مفادات پورے کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہو ۔ایم کیو ایم چونکہ شروع سے فوج کی حامی رہی ہے اس لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے سلسلے میں وہ پہلے ہی سے شدت سے حامی تھی لیکن اس موقع کو بھی انھوں نے اپنے مجرموں کے ریلیف کے لیے استعمال کرلیا اکیسویں ترمیم کی منظوری کے حوالے سے بھی ایم کیو ایم نے ن لیگ کے ساتھ ہاتھ کردیا کہ ادھر اسحق ڈار صاحب مولانا فضل الرحمن سے ترمیم کی حمایت کے لیے مذاکرات کررہے تھے کہ ادھر ٹی وی پر یہ ٹکر چلنے لگا کہ اکیسویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہو گئی مولانا نے کہا کہ آپ ہم سے مذاکرات کرنے آئیں ہیں ادھر تو یہ ترمیم منظور ہو گئی ۔جماعت اسلامی سمیت تمام دینی جماعتیں اور مولانا فضل الرحمن یہ چاہتے تھے کہ ترمیم اس طرح منظور کی جائے کہ دہشت گردی کے تمام کیسز کو فوجی عدالتوں میں بھیجا جائے اور "مذہبی دہشت گردی "میں سے لفظ " ـمذہبی"ہٹا دیا جائے اور تمام دہشت گردی کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھیجے جائیں ۔ادھر یہ بات بھی سننے میں آئی کہ ایم کیو ایم نے حکومت کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس میں تبدیلی کی گئی تو وہ اس ترمیم والے اجلاس کا بائیکاٹ کر دیں گے ۔اب جو اس ترمیم کی منظوری میں جلدی کی گئی وہ شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ن لیگ پی پی پی اور ایم کیو ایم کی آپس میں ملی بھگت ہو ۔

ہمیں لگتا ہے کہ یقیناَ ایسا ہی ہوگا کیونکہ مولانا فضل الرحمن اتنے ذہین سیاستداں ہیں کہ انھیں اندر کی اصل بات کا علم ہو گیا ہو گا اسی لیے انھوں نے بائیسویں ترمیم کے سلسلے میں حکومتی وفد کو یہ جواب دیا کہ ہم پہلے ہی اکیسویں ترمیم کے ڈسے ہوئے ہیں اس لیے بائیسویں ترمیم کے حوالے سے حکومت کی حمایت نہیں کر سکتے ۔دوسری اہم بات یہ بھی تھی کہ سینٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے سارے خدشات صوبہ پختون خواہ میں تھے ،مولانا بھی یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح تحریک انصاف کو بڑا دھچکہ لگے جس کا انھیں سیاسی فائدہ ہو ،لیکن عمران خان کے سخت موقف نے یہ سازش ناکام بنادی ۔

اب اگلا مرحلہ سینٹ کے چیرمین کے انتخاب کا ہے پی پی پی کو ن لیگ سے صرف ایک نشست کی برتری حاصل ہے اور اسے چونکہ ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن کی بھی حمایت حاصل ہے اس لیے وہ پر امید ہیں کہ پی پی پی کا چیرمین کامیاب ہو جائے گا اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ انھوں نے مولانا کو ڈپٹی چیرمین کی پیشکش بھی کی ہے ،یہ خبر تو اخبارات میں ،میں نے بھی پڑھی تھی کہ مولانا نے پی پی پی سے سندھ حکومت میں جے یو آئی سے دو مشیر لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

دوسری طرف حکومت بھی اپنا چیرمین لانے کی کوششوں میں متحرک نظر آ رہی ہے ۔ق لیگ نے تو صاف انکار کردیا ہے کہ ایک وقت تھا جب ن لیگ نے ہمیں نظر انداز کردیا تھا آج ہم بھی انھیں نظر انداز کررہے ہیں ق لیگ کے پاس بھی چار ووٹ ہیں جنھوں نے پی پی پی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ۔عمران خان نے تو اول بیان یہ دیا ہے کہ وہ چیرمین کے انتخاب میں کسی کا ساتھ نہیں دیں گے ۔عمران خان بھی مولانا کی سیاست سے بہت کچھ سیکھ رہے ہیں ۔انھوں نے یہ بیان شاید اپنی سودے بازی کی قوت بڑھانے کے لیے دیا ہو کہ ایک اخبار میں یہ بھی خبر تھی کہ اگر حکومت جیو ڈیشنل کمیشن بنادے تو وہ سینٹ کے چیرمین کے لیے ن لیگ کو ووٹ دے سکتے ہیں ۔

اب اس تناظر میں صولت مرزا کے حوالے سے اوپر دی گئی خبر کو دوبارہ پڑھ لیں تو اس میں حکومت کی نیت کا صاف پتا چلتا ہے کہ اسے کراچی میں دہشت گردی کے مجرموں کی سزاؤں اور شہریان کراچی کو امن و سکون دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ اس میں مخلص نہیں ہے اس نے یہ خط جو حکومت سندھ کو لکھا ہے ایم کیو ایم پر دباؤ بڑھانے کے لیے لکھا ہے تا کہ ایم کیو ایم کے آٹھ ووٹ ن لیگ کے نامزد چیرمین کو مل جائیں ۔دوسری طرف یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پی پی پی ایم کیو ایم کو یہ یقین دلائے کہ سزا پر عملدرامد کرنا تو حکومت سندھ کا کام ہے وفاقی حکومت کتنے ہی خطوط لکھتی رہے آپ فکر مند نہ ہوں صولت مرزا کو کچھ نہیں ہوگا ۔اب یہ بات الگ ہے کہ وفاقی حکومت صولت مرزا کو تبادلہ پنڈی کی جیل میں کردے کہ کراچی میں ان کی جان کو خطرہ ہے اس لیے پنڈی جیل میں یہ زیادہ محفوظ رہیں گے ۔لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایم کیو ایم اس حکومتی اقدام کو عدالت عالیہ میں چیلنج کر دے اور عدالت وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 41238 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.