پاکستان کا ٹیکسٹائل کا شعبہ
ملکی معیشت میں مرکزی کردار ادا کررہا ہے گویا یہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی
ہڈی ہے۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کا تعلق بنیادی طور پر دھاگے اور کپڑے کی پیداوار
اور مابعد ڈیزائن یا ملبوسات کی تیاری اور اس کی تقسیم سے ہے۔ پاکستان میں
1947سے ہی کپاس کی پیداوار میں اضافہ اور ٹیکسٹائل کی صنعت میں توسیع متاثر
کن رہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کپڑے کے صرف تین کارخانے تھے جو اب بڑھ کر
چھ سو تک پہنچ چکے ہیں ۔ اسی طرح تکلوں کی تعداد ایک لاکھ ستتر ہزار تھی جو
800ملین تک پہنچ چکے ہیں۔اسی طرح لومز(کھڈیوں)اور فنشنگ یونٹوں کی تعداد
بھی بڑھ گئی ہے۔پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو دو ڈویژنوں میں تقسیم کیا
جاسکتا ہے یعنی ایک تو ٹیکسٹائل کا بڑا شعبہ ہے جو بہت منظم ہے دوسراچھوٹے
پیمانے کا شعبہ ہے ۔پاکستان ایشیا میں ٹیکسٹائل کی مصنوعات برآمد کرنے والا
آٹھواں بڑا ملک ہے۔اس شعبہ کا مجموعی قومی پیداوار میں حصہ9.5فیصد تک
ہے۔اور15ملین افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
دنیا کی ٹیکسٹائل کی کل مجموعی تجارت جو تقریباً18ٹریلین امریکی ڈالر
سالانہ ہے میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم بنتا ہے۔پاکستان جو دنیا
کے کپاس پیداکرنے والے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے اسے ٹیکسٹائل کی صنعت کو
ترقی کے لیے اپنے کپاس کے وافر وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کی اشد ضرورت
ہے تاکہ صنعتی ترقی کی رفتار کو تیز تر کیا جاسکے جو پاکستان کی ہمیشہ سے
اولین ترجیح رہی ہے۔
اس وقت پاکستان میں روئی بیلنے کے 1221یونٹ ہیں۔442روئی کاتنے(سپننگ
یونٹ)کے یونٹ ہیں۔ان میں سے124بڑے سپننگ یونٹ اور 425چھوٹے یونٹ ہیں جو
ٹیکسٹائل کی مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ پاکستان میں آل ٹیکسٹائل ملز ایسوسی
ایشن(APTMA)کا کردار کپڑے کے کارخانوں کے مالکان میں اتفاق رائے کی حوصلہ
افزائی کرنا، پاکستان کے ٹریڈ،کامرس اور مینوفیکچرز کو فروغ اور تحفظ دینا
،تجارت ،کامرس اور مینو فیکچرز سے متعلق اعدادو شمار و معلومات اکٹھی کرنا
اوراسے ممبران پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایسے تمام اقدامات کرنا جو ان کے
کاروبار کے فروغ وسپورٹ کے لیے ضروری ہوں ۔ اس کے علاوہ ایسے انتظامی و
دوسرے اقدامات کی مخالفت کرنا جن سے ان ٹریڈ،کامرس یا مینوفیکچرز یا اس کے
ممبران کو نقصان پہنچے کا احتمال ہو۔علاوہ ازیں مقامی صوبائی اور مرکزی
اتھارٹیز میں نمائندگی دلوانا۔موجودہ حکومت قومی معیشت کو ترقی دینے کے لیے
زبردست اقدامات کر رہی ہے۔ آل ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن حکومت کے ان تمام
اقدامات پر خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل کی صنعت کی وزارت
اس سلسلے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ اس کی طرف سے 2014ء تا2019ء کے لیے
جو ٹیکسٹائل پالیسی دی گئی ہے اس میں ٹیکسٹائل کی پیداوار بڑھانے کی بھرپور
حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
نئی ٹیکسٹائل پالیسی میں شعبہ ٹیکسٹائل کے لیے 65ارب روپے مختص کیے گئے ہیں
جبکہ شعبے سے وابستہ صنعتکاروں کو نرم شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے لیے
40ارب مختص کر دیئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کاٹن اور یارن کی بجائے
ویلیوایڈیڈ سیکٹر کی برآمدات کے اضافے پر توجہ دینے پر زوردیا گیا ہے۔
برآمدی ہدف 26ملین ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ٹیکسٹائل یونیورسٹی کا
قیام،نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے منصوبے اور ٹیکسٹائل نمائشوں کا انعقاد
کیا جائیگا۔ مو جودہ حکومت نے ٹیکسٹائل کے شعبے پر خصوصی توجہ دی ہے کیونکہ
اس وقت ٹیکسٹائل کے شعبے کی برآمدات پاکستان میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس لیے
اس شعبے کو درپیش مسائل اور مشکلات کم کرنے کے لیے اقدامات شروع کیے گئے
ہیں ۔ ٹیکسٹائل کے شعبے کو گزشتہ سال کی نسبت اس سال زیادہ گیس اور بجلی
فراہم کی گئی تھی جس کی وجہ سے ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے
اور صنعتکاروں کی بد اعتمادی کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ساتھ خامیوں پر قابو
پایا گیا ہے۔ تاجروں اورایف بی آر کے مابین ٹیکس ریفنڈ کے معاملات کو ختم
کرنے کے لیے بھی خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری سے ایک کروڑ
افراد کا روزگار وابستہ ہے اور ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستان میں روزگار فراہم
کرنے کا سب سے سستا ذریعہ ہے ۔نئی پالیسی میں برانڈ ڈیویلپمنٹ سکل
ڈیویلپمنٹ اور ٹیکسٹائل کی نمائش پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
ایک ہزار یونٹس کا آڈٹ بھی کرایا جائے گا جبکہ پالیسی کے تحت ایک لاکھ
20ہزار افراد کو ٹریننگ فراہم کی جائے گی اور دوران ٹر یننگ انہیں اعزاز یہ
اور ٹریننگ کے بعد روزگار بھی ملے گا۔ نئی پالیسی کے تحت پاکستان میں ورلڈ
ٹیکسٹائل سینٹر قائم کیا جائے گا جہاں وہ مختلف ممالک کے برآمد کنندگان کو
دفاتر فراہم کئے جائیں گے اور پاکستانی تاجران کے ساتھ اپنی برآمدات کے
سلسلے میں سودے کر سکیں گے ۔پاکستان میں ٹیکسٹائل کے شعبے کو مزید وسعت
دینے کے لیے کراچی اور فیصل آباد میں ٹیکسٹائل یو نیورسٹیوں کے قیام کے
ساتھ ساتھ نجی شعبے کے ساتھ مل کر خصوصی ٹرنینگ فراہم کریں گے جبکہ برآمدات
کے شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اداروں کو خصوصی ایوارڈ
دیا جائے گا۔ ملک میں چھوٹے تاجروں کو بھی ٹریننگ دی جائے گی تاکہ و ہ اپنے
کاروبار کو مزید وسعت دے سکیں اور بڑے کاروبار کی سمت اپنا سفر جاری رکھ
سکیں۔ گزشتہ ٹیکسٹائل پالیسی کے تلخ نتائج کو دیکھتے ہو ئے حکومت نے اس
بارجو ٹیکسٹائل کے لیے 65ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے وہ 5سالوں کے لیے
ہوگا اور ضرورت پڑنے پر اس میں اضافہ بھی کیا جاسکتاہے ۔ بجٹ میں 40ارب
روپے بطور قرضہ نئی مشینری منگوانے اور نئے یونٹس لگانے کے لیے ان
صنعتکاروں کو فراہم کیا جائے گا جن کی برآمدات میں سالانہ10فی صد اضافہ ہوا
ہو۔ علاوہ ازیں ٹیکسٹائل کے شعبے سے وابستہ صنعتکاروں کو مارکیٹ ریٹ سے دو
فیصد کم نرخ پر قرضے فراہم کئے جائیں گے اور تمام قرضے ایف بی آر اور اسٹیٹ
بینک کی منظوری سے دیئے جائیں گے۔
آئندہ پانچ سالوں میں ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے منگوائی جانے والی مشنری پر
ڈیوٹی معاف ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ٹیکسٹائل پالیسی کو
صنعتکاروں کی مرضی کے مطابق بنایا گیا ہے تاکہ اس شعبے سے وابستہ کروڑوں
افراد کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔پالیسی اقدامات کے تحت ملبوسات کی برآمد
پر عائد چار فیصد،میڈاپس(Made UPs)پر دو فی صد اورپراسیسڈفیبرک پر ایک فی
صد عائد مقامی ٹیکس اور محصولات واپس لے لیے گئے ہیں۔سٹیٹ بنک آف پاکستان
کی ایکسپورٹ ری فنانس سکیم کے لیے مارک اپ ریٹس کم کیے جا رہے ہیں۔حکومتی
پالیسیوں مثلاً ٹیکنالوجی میں جدت کے لیے طویل المیعاد مالی سہولت اور
ٹیکنالوجی اپ گریڈنگ فنڈز سکیم(TUFS)سے سرمایہ کاری ترجیح دی جائے گی تاکہ
جی ایس پی پلس سٹیٹس سے بھر پور استفادہ کیا جاسکے۔علاوہ ازیں اگلے دو سال
کے لیے ڈیوٹی فری مشین کی درآمد کی اجازت بھی دے دی گئی ہے۔اگر ٹیکسٹائل
پالیسی پر مکمل عمل درآمد کیا جائے تو پاکستان کو 13بلین سے 26بلین ڈالر تک
اپنی دوگنی ٹیکسٹائل برآمدات بڑھانے میں بڑی مدد مل سکے گی اور اس کو فی
ملین گانٹھوں پر ملنے والے اضافی محاصل ایک بلین سے بڑھ کر دو بلین تک پہنچ
جائیں گے یعنی دگنے ہوجائیں گے اور مشینری و ٹیکنالوجی میں پانچ بلین ڈالر
اضافی سرمایہ کاری کی سہولت ملے گی ۔پالیسی کے تحت ٹیکسٹائل سیکٹر ملکی و
بین الاقوامی سطح پر بالخصوص لیبر اور ماحول کے لحاظ سے بین الاقوامی قواعد
کی بہتر تعمیل کر سکے گا۔ |