مودی بنام مفتی: تو نے یہ کیا غضب کیا

کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت نظربند مسرت عالم کی غیرقانونی نظربندی سے رہائی پر کانگریس اور بھاجپا کی ’’قوم پرستی‘‘ کو جس طرح کا آزار پہنچا ہے اس پر کسی طرح کی حیرت کرنے کی گنجائش نہیں۔ حیرت ہمیں اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب گجرات میں سنہ 2002کی مسلم کشی کی مجرمہ مایا بین کوڈنانی کو ضمانت پر چھوڑا گیا ،حالانکہ عدالت نے اس کو 35 بچوں اور 36 عورتوں سمیت 97 بے ْقصورافراد کے قتل کیس میں تادمِ آخر قید کی سزا سنائی تھی، جس کے خلاف اس کو اپیل تک کرنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ اس ظالم عورت کی ضمانت پربھاجپا کے’ قوم پرستوں‘ کو تو خیر چین آنا ہی چاہئے تھا، کانگریس کے ضمیر پر بھی کوئی کچوکا نہیں لگا تھا۔ہم نہیں سمجھتے اس عورت نے بے قصورافراد کی ہلاکت میں جوکردارادا کیا، وہ دہشت گردوں کے نظریہ سے کچھ بھی مختلف ہے۔ایسی مجرمہ کی ضمانت کے خلاف گجرات سرکار نے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی بھی اجازت نہیں دی اوراب اسی کیس میں تادم آخر عمرقید کے مجرم بابوبجرنگی کی ضمانت کی تیاری چل رہی ہے۔ فرضی انکاؤنٹر معاملوں میں قید ڈی جی ونزارا کے ضمانت پر جیل سے باہرآنے پر جس طرح ’’قوم پرستوں ــ‘‘ نے اس قانون شکن افسر کااستقبال کیا وہ بھی جگ ظاہر ہے۔

ان قومی پارٹیوں کی’’قوم پرستی‘‘ پراس وقت بھی کوئی چوٹ نہیں پہنچتی،جب پروین توگڑیا، نام نہاد دھارمک شخصیات نرنجن ، آدتیہ ناتھ اور ساکشی وغیرہ اقلیتی فرقہ کے خلاف زہراگلتے ہیں، البتہ اگر اویسی کوئی قابل اعتراض بات کہتاہے تواس کو جیل بھیجنا لازم ہوجاتا ہے۔ ہرچند کہ نہ ہم مسرت عالم کے ہم نوا ہیں اورنہ کسی اویسی کے، مگر ’’قوم پرستی‘‘ کا یہ دوہرا معیار بہرحال کچھ چغلی ضرورکرتا ہے۔

ابھی چندروز قبل ناگالینڈ میں عصمت دری کے ایک ملزم کو جیل سے نکال کر مارڈالا گیا۔ سوشل میڈیا اور مقامی میڈیا میں مقتول کو بنگلہ دیشی قرار دیکر گویا اس کے قتل کا جواز پیش کیا گیا۔ حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔ لیکن اہم نکتہ یہ نہیں کہ وہ کہاں کا باشندہ تھا؟ غورطلب بات یہ ہے کہ عوام کا یہ مزاج کس نے بنایا کہ کوئی بنگلہ دیشی، کشمیری یا گجراتی مسلمان ہے تواس کے انسانی، قانونی حقوق کی پامالی بھی ’’قوم پرستی‘‘ ہے؟ اگراس کا کوئی ہم مذہب بھی طرح شک کے دائرے میں آگیا ہے تووہ بھی قابل گردن زدنی ہے؟ اس کو اگر قانون کے مطابق گلوخلاصی مل گئی ہے تو وہ بھی ’’قوم پرستی ‘‘ کے خلاف ہے اور قوم سے غداری ہے۔گویا حکمرانی قانون کی نہیں ، بھیڑ کی رائے کی چلنی چاہئے۔کیا آرایس ایس ملک کو انارکی کی اسی راہ پر نہیں لیجارہا ہے؟

مسرت عالم کا معاملہ دلچسپ ہے۔ نئی دہلی سے وجیتا سنگھ کی رپورٹ (10مارچ، انڈین ایکسپریس) کے مطابق فروری 1993 ء سے اس کے خلاف 26 ایف آئی آر درج ہوئیں، لیکن تمام کیسوں میں مختلف عدالتوں نے اس کو ضمانت دیدی۔اس کے خلاف کسی کے قتل کا یا قاتلانہ حملے کا کوئی کیس کبھی نہیں رہا۔ جموں و کشمیرسرکار نے اس کی حالیہ رہائی پر جو رپورٹ مرکزی وزارت داخلہ کو بھیجی ہے اس میں کہا ہے کہ عالم کو فروری 2010سے پی ایس اے کے تحت آٹھ بارنظربند کیا گیا۔ اس قانون کے تحت کسی شخص کو چھ ماہ سے زیادہ نظربند نہیں کیا جاسکتا اور توسیع کے باوجود یہ مدت دوسال سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ایک ہی وجہ دکھا کر کسی شخص کو دوسری بار نظربند نہیں کیا جاسکتا۔‘ ‘
اخبار کے اسی شمارے میں مزمل جلیل کی رپورٹ کے مطابق مسرت کے خلاف پی ایس اے کے تحت آخری کیس اسمبلی الیکشن سے تین ماہ قبل9 ستمبر 2014 کو جموں میں درج ہوا۔ کشمیر کے آئی جی پی ، عبدالغنی میر کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق نظربندی کے 12دن کے اندر کے اندرہوم ڈپارٹمنٹ سے اس کی توثیق ہونی چاہئے، جو کہ نہیں ہوئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو 21ستمبر سے بغیرکسی قانونی جواز کے حراست میں رکھا گیا تھا۔

اس پر ریاستی حکومت کی توجہ ریاست میں مفتی سعید کے برسراقتدارآنے سے کوئی ایک ماہ قبل فروری میں گئی، جب کہ ریاست میں گورنرراج تھا۔ چنانچہ 4 فروری کو ہوم ڈپارٹمنٹ نے جموں کے ضلع مجسٹریٹ کو لکھا کہ’’اندرون 12روز نظربندی کی توثیق کی مدت پہلے ہی گزرچکی ہے، اس لئے مسرت کی نظربندی کا حکم نامہ ازخود غیر موثرہوگیا ہے۔ ‘‘ اصولاً ضلع مجسٹریٹ کو فوراً اس پر کاروائی کرنی چاہئے تھے مگر ان کے دفتر نے 7 مارچ کو ایس ایس پی جموں کے دفتر کو لکھا کہ اگر مسرت کے خلاف کوئی اور کیس نہ ہو تواس کو رہا کردیا جائے۔ غالباً ضلع مجسٹریٹ نے قانو ن کی عملداری پر اس بات کوترجیح دی کہ ریاست میں کوئی سرکار بن جائے اوراسی کے بعد کاروائی ہو۔ چنانچہ اس حکم کے مطابق مسرت کو رہا کردیا گیا۔

گزشتہ ہفتہ اپنے کالم(افضل گرو پر پھر سیاست) میں یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ جموں میں بھاری پولنگ مودی لہرکی بدولت ہوئی، جب کہ وادی میں مفتی سعید کی پارٹی کوبھاجپا مخالف رجحان کی بدولت غیرمعمولی پولنگ کا فائدہ پہنچا۔ لیکن انہوں نے سابق حکمراں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی بلاطلب اورغیرمشروط تائید کی پیش کش کے باوجود بھاجپا کے ساتھ گٹھ جوڑ کو ترجیح دی۔ ہرچند کہ ان کا یہ فیصلہ اس اعتبار سے درست تھا کہ اس کے بغیر ریاستی سرکاراگر بنتی تو وہ حقیقی معنوں میں دونوں بڑے خطوں جموں اورکشمیر کی نمائندہ نہ ہوتی اوراس کو مرکز سے مالی تعاون بھی نہ ملتا۔ لیکن بہرحال اس فیصلے پر ان کے ووٹ بنک کا مکدر ہونا فطری تھا۔چنانچہ حکومت سازی کے ساتھ ہی انہوں نے پے درپے ایسے بیانات دئے جن سے وہ بھاجپا سے گھ بندھن پروادی میں اپنے مخالفین کا منھہ بند اور رائے دہندگان کو بھی مطمئن کرسکیں کہ مفتی صاحب سستے میں بھاجپا کے ہاتھوں بک نہیں گئے ہیں اور سرکار میں بھاجپا چاہے شریک ہو،مگرچلے گی تو مفتی صاحب کی ہے۔ اسی سیاسی حکمت کے تحت ان کی پارٹی نے مسرت عالم کی رہائی کا کریڈٹ بھی لینا چاہا، حالانکہ اس کی رہائی کا حکم ان کی سرکار بن جانے سے قبل دیا جاچکا تھا ۔ اس میں کوئی سیاست ملوث نہیں تھی، بلکہ یہ قانون کا تقاضا تھا۔ مفتی صاحب کااصل امتحان تو اب ہوگا کہ سابق سرکار نے وعدوں کے باوجود سنگ باری کے ملزم بچوں کو راحت نہیں پہنچائی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اب وہ مزید کتنے سیاسی قیدیوں کو رہا کرپائیں گے؟ فی الحال بھاجپا کے سخت رخ کی بدولت مفتی سرکار کی چال سست ضرور پڑ جائیگی۔

وادی میں گزشتہ برسوں میں شورش کے واقعات کا سبب سابقہ مرکزی اورریاستی حکومتوں کے بعض انسانیت سوز اقدامات بھی رہے ہیں، جن کو علیحدگی پسندوں نے اچک لینا چاہا۔ مثال کے طور پر 2010کے پتھری بل میں فرضی انکاؤنٹر کا واقعہ لیجئے، جس کے بعد کئی ماہ تک ریاست میں شورش برپا رہی،کئی بے قصورافراد مارے گئے اورسنگ باری کے معاملات میں بہت سے نوجوان گرفتار ہوئے۔ لیکن سابق حکومت اس جائز مطالبہ کے لئے آمادہ نہیں ہوئی کہ خطاکارافسران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد اس کیس میں ملوث تمام پانچوں سیکیورٹی اہل کاروں کو جن میں دوفوجی افسر بھی شامل ہیں،فوجی عدالت سے سزائے عمرقید دلائی جاسکی ،مگر یوپی اے حکومت کے خاتمہ کے بعد 13نومبر2014ء کو۔

ایک واقعہ مرکز میں نئی سرکارآجانے کے بعد فوجیوں کی بیجا فائرنگ میں بڈگام کے دولڑکوں فیصل اورمعراج ڈار کی ہلاکت کا ہے۔ اس طرح کے نجانے کتنے واقعات پہلے بھی پیش آتے رہے۔ مگرپہلی مرتبہ فوج نے غلطی کو تسلیم کیا اورمتوفی بچوں کے لواحقین کی اشک شوئی کے لئے کچھ نقد راحت کا بھی اعلان کیا۔ ان دوواقعات سے یقینا سیکیورٹی عملے کو ایک پیغام گیا ہے۔ اورامید کی جانی چاہئے کہ اب بے خوف ہوکرکوئی بھی انسانوں کا شکارنہیں کریگا،جس کی بدولت عوامی احتجاج اور شورش کے امکانات کم ہو جائیں گے۔چنانچہ یہ سمجھنا بے معنے نہیں ہوگا کہ ریاست کے بدلے ہوئے ماحول میں، جب کہ بھاجپا بھی وادی میں اپنی جڑیں جمانا چاہتی ہے، اس طرح کی حماقتیں نہیں کی جائیں گی جن سے مسرت عالم جیسے عناصر کوئی درد سری پید کرسکیں۔

ایک اہم سوال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھاجپا کیوں بوکھلائی، مودی اور راجناتھ سنگھ کو پارلیمنٹ میں صفائی کیوں پیش کرنی پڑی؟ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ مفتی سعید سے ہاتھ ملاتے ہوئے بھاجپا کو یہ احساس نہیں ہوگا کہ مفتی سعید وادی میں اپنے ووٹ بنک کی حفاظت کے لئے کچھ ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جن سے اس کی اب تک کی بیان بازی پر زد پڑے۔ چنانچہ بھاجپا کی مرکزی قیادت نے مسرت کی رہائی کے واقعہ سے قبل مفتی کے کسی بیان پر ایسا شدید ردعمل ظاہر نہیں کیا جیسا کہ اب کیا گیا ہے۔ مسرت کی رہائی جن حالات میں ہوئی ان کو مودی، راجناتھ سنگھ اور امت شاہ بخوبی سمجھتے ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر سیاست کرنا ایک بات ہے، حکمرانی کے کچھ اور تقاضے ہوتے ہیں۔ لیکن مودی سرکار پر موہن بھاگوت کا سخت دباؤ ہے کہ وہ ہندتووا کے ایجنڈے کو پہلی ترجیح دے۔اس کے اخبار ’آرگنائزر‘ اور ’پنج جنیہ‘ میں کئی ایسے مضامین شائع ہوئے ہیں، جن میں سرکار پر تنقید کا پہلو نکلتا ہے۔ آرایس ایس نے امت شاہ کوناگپور بلاکر آٹھ گھنٹے تک ان کی گوشمالی کی ۔ موضوع صرف ایک تھا، کشمیر میں پی ڈی پی کے ساتھ گٹھ بندھن۔ اسی دباؤ کے نتیجہ میں بروز منگل، 11مارچ کی بھاجپا پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں مفتی سعید کو یہ دھمکی دی گئی اگراب کچھ ایسا ویسا ہوا، تو ہمارے وزیر کابینہ سے مستعفی ہو جائیں گے۔یہ سب کچھ بھاجپا سرکار اور پارٹی کے لئے اپنے کیڈر کو شانت رکھنے کی خاطرہورہا ہے جو مسرت کی رہائی پر کانگریس کی بیان بازی کی بدولت برہم ہوگیا اور جس کا مزاج حق پرستی کے بجائے ’’قوم پرستی‘‘ کے فاسد نظریہ پر استوار ہواہے۔ پارلیمانی بورڈ نے فیصلہ کرنے کا اختیار مودی کو دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فتح رائے سینا ہل کی ہوتی ہے یا ناگپور کی۔مودی سیاست کے عملی تقاضوں کی پیروی کریں گے یا آرایس ایس کے سامنے خودسپردگی کردیں گے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ دہلی اور سرینگر کی سرکاروں کو ناگپور کے اشاروں پر چلنا ہوگا۔

مودی اورامت شاہ چاہتے ہیں کہ کشمیر میں ان کے عمل دخل کی جوصورت پیدا ہوگئی ہے وہ برقراررہے۔ ہمارا قیاس ہے کہ مودی اورمفتی میں یہ ’تکرار‘ عارضی ہے۔ دونوں کو اپنے ووٹ بنک کی فکر ہے۔ لیکن اگر راجناتھ کی دھمکی کے تحت بھاجپا مفتی سرکار کی حمایت سے دست کش ہوئی تو کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے لئے اس کی حمایت اسی طرح مجبوری بن جائیگی جس طرح بہار میں لالو کی نتیش سرکار کو حمایت۔ لیکن اس کے امکان کم ہیں اوراگرسعید کی سرکار گری تو وہ دوسرے کیجریوال بھی بن سکتے ہیں۔ واد می میں کانگریس اور این سی کا وہی حشر ہوگا جو دہلی میں کانگریس اور بھاجپا کا ہوا۔ لیکن اندازہ یہ ہے کہ یہ ماحول عارضی ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ سرکارچلے گی اورریاست میں امن چین کے ساتھ کاروباری ماحول بھی بحال ہو گا۔ پاکستان سے مذاکرات کے بنددروازے میں ایک دریچہ جو ابھی خارجہ سیکریٹری کے دورے سے کھلا ہے،کشمیر کے پس منظر میں اس کا بھی خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163500 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.