رانگ نمبر سے ایک دھمکی آمیز کال

یا
﴿اپنا کالمی عنوان تبدیل کرنے کی اصل وجہ﴾

صبح کا وقت تھا،عوام لوگ اپنے نیم خوابی سے بیدار ہو چکے تھے،سورج پوری طرح اپنے آب وتاب میں نہیں تھابلکہ ہلکی ہلکی تپش کر رہی تھی،دھوپ اچھی لگ رہی تھی کیونکہ اس سے پہلے کئی دن بارش برسی تھی،اب جب کہ آسمان صاف وشفاف ہو چکا تھا،میں چھت پر دھوپ کی تپش حاصل کرنے کے لیے بیٹھا تھاکہ اچانک موبائل پر ایک رانگ نمبر سے کال موصول ہوئی،میں نے کال اٹینڈکرتے ہی السلام علیکم کہا،دوسری طرف سے سلام کا جواب ملا،علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ کون صاحب ہے؟ذرا اپنا تعارف تو کرائیں،اس نے بجلی کی کرنٹ جیسے لہجے میں کہا کہ آپ مجھے چھوڑئیے،آپ اپنا بتائے کہ آپ رضوان اﷲ پشاوری ہے ؟میں نے معصومانہ انداز میں کہا کہ جی ہاں میں ہی رضوان اﷲ پشاوری ہوں،اس کے بعد اس نے غصہ سے برہم ہوکر کہا کہ آپ نے میرا کالمی عنوان کیوں چھوری کی ہے؟میں نے کہا کیا کیااور کونسا نام؟اس نے بتایا کہ ’’آوازِخلق‘‘میرے کالم کاعنوان ہے اور اس کو آپ نے بھی اپنے کالموں کے ساتھ لکھا ہے،آپ یہ نام ہٹا دے ورنہ اچھا نہ ہوگا،خیر میں نے اس سے خوش مزاجی کی ،اس کو سمجھانے کی کوشش کی ،اور اس کے آداب کو بجا لایامگر میں اپنی کوشش میں ناکام ہو گیا اور وہ غصہ سے لبریز ہو رہا تھا،بالآخر جب اس نے فون بند کرلی تو اُسی وقت میں نے سوچھا کہ اُس کی یہ بات تو ٹھیک ہے کہ یہ نام ’’آوازِ خلق‘‘ اس کے کالموں کا عنوان ہے اور میں نے بھی اسی نام کو چُناہے،تو میں نے اپنے ضمیر سے پوچھا کہ اب کیا کرنا چاہئے؟کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اپنا ضمیر اور نفس بھی مفتی ہوا کرتا ہے جب بھی کوئی کام کرنا ہوتو پہلے اپنے نفس اور ضمیر سے پوچھنا چاہئے،تو اپنے مفتی نے بھی یہی فتویٰ دیا کہ اس نام کو تبدیل کرنا چاہئے،اسی ہی کے لیے اپنے دوستوں سے بھی مشورے کرتا رہتا تھا آخر کار میں نے یہ ہی ایک نام’’ندائے پشاوری‘‘تجویز کر لیا تو اب ہی سے میرا کالمی عنوان ’’ندائے پشاوری‘‘ ہوگا۔میں نے تو اس صاحب کی بات تسلیم کر لی اور اپنا کالمی عنوان تبدیل کر لیامگر اس بات پر سخت کوفت ملی کہ آج کل تو ایک ہی نام کے کتنے کتنے لوگ ہوتے ہیں،حتیٰ کہ ایک ہی گھر اور ایک ہی خاندان میں ایک نام کے کتنے کتنے بچے ہوتے ہیں،میں آپ کو اپنا ہی ایک وقعہ سناؤں کہ میرے ماموں کے چار بیٹے ہیں اور ان چاروں کے نام محمد ہیں اس طور پر کہ بڑے کانام محمد اور باقی کے محمد ثانی،محمد ثالث،محمد رابع۔تو اس میں ناراضگی کہ کون سی بات ہے مگر پھر بھی اﷲ اﷲ خیر سلا!آخر کار میں نے اپنا کالمی عنوان تبدیل کر لیا۔

قارئین کرام آمدم برسرمقصد:اگر آپ کسی سے فون پر بات چیت کرے یا آمنے سامنے بات چیت ہوسکے یا خط وکتابت اور ایس ایم ایس کے ذریعے سے تو ہر حالت میں اور ہر وقت میں دوسرے مسلمان کی عزت کا لحاظ رکھنا ایک ضروری امر ہے ،فقط مسلمان ہونے کے واسطے کہ یہ بھی تو ایک مسلمان ہے اس نے بھی کلمہ پڑھا ہے،اس نے بھی عقیدۂ توحید کو اپنایا ہے یہ ایک الگ بات ہے کہ ہرچھوٹے پر بڑے کا لحاظ رکھنا ضروری ہے مگر بڑوں کے لیے بھی اپنے چھوٹوں پر شفقت کرنا چاہئے اور ان کے سروں پر اپنا دست شفقت پھیرانا چاہئے،اس لیے تو نبی اکرمﷺ نے بھی فرمایا کہ جس نے ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کی اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کی وہ ہم میں سے نہیں ہے(مفہوم حدیث)جب نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے تو پھرتو ہمیں ایک امتی ہونے کے ناطے آقائے نامدارﷺ کی ہر قول کو بجا لانا ضروری ہے۔آج کل آپ دیکھتے نہیں ہے کہ مسلمان کیوں ہر طرف سے مارکھا رہاہے اور ہر طرف سے ہار کھا رہے ہیں؟اس کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ ہم نے قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈالا ہے اور سنت نبویﷺ سے دوری اختیار کر رکھی ہے اگر آج ہی ہم نے اپنے باطن کو قرآنی تعلیمات کے ساتھ مزین کر لیا اور اپنے قلب کو سنت نبویﷺ سے سجھالیا تو وہ دن دور نہیں کہ ایک دفعہ پھر مسلمان 22 لاکھ مربع میل پر بادشاہی کرتا رہے گا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطاراب بھی

ہمارے بر خلاف کفار ہیں تو کفر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ الکفرملۃ واحدۃ،کفار بھی اگر چہ تقسیم ہیں مگر وہ پھر بھی اپنوں کی بہت خاطر مدار کرتے ہیں اور وحدت اور اتفاق کو اپنا چکے ہیں اسی لیے تو کفر کو ملّتِ واحدہ کہا گیا ہے،بس ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے بڑوں کی عزت کریں،چھوٹوں پر شفقت کریں اور علمائے کرام کی قدر کریں،تو تب آپ دیکھتے ہی رہیں گے کہ کیسے کامیابی وکامرانی ہماری قدموں کو چھومے گی۔اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو(آمین)
 
Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 211859 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.