موجودہ صورتِ حال پر عدم اطمینان کا اظہار
(Roshan Khattak, Peshawar)
وطنِ عزیز کے ایک بہت بڑے حصے
میں اب یہ احساس بہت شدّت سے پیدا ہو چکا ہے کہ ہم بحیثیتِ پاکستانی قوم
اقوامِ عالم کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں اس لئے موجودہ ’’سٹیٹس کو
‘‘ توڑ کر اصلاحِ احوال کی تدبیر کرنی چا ہیئے یہ احساس میرے نزدیک اس بات
کی علامت ہے کہ لوگوں میں حالات بہتر بنانے کی تڑپ موجود ہے جو ایک نیک اور
مثبت سوچ کی عکاسی کرتی ہے ۔اسوقت پاکستان میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے اس
سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اس سے پہلے بھی یہ دونوں پارٹیاں
بر سرِ اقتدار رہی ہیں ۔ اگر ہم ان دونوں پارٹیوں کی کار کردگی کا غیر
جانبداری سے بنظرِ غور جا ئزہ لیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دونوں
پارٹیوں کا عرصہ اقتدار قابل رشک نہیں رہا،بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا
کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ریورس گیئر میں ڈالا گیا،یہی وجہ ہے کہ اب بہت
سارے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اس صورتِ حال کو جاری و ساری رکھنا چا
ہیئے ؟موجودہ یا آ یندہ حکومتیں اگر غلطیوں کا ارتکاب کریں،
معیشت کو نہ سنبھال سکیں، ملک میں امن و امان قائم نہ کر سکیں، انصاف کا
حصول ممکن ہی نہ رہے، لوگوں کا مال و جان محفوظ نہ ہو، بالائی طبقات کا
استحصال اسی طرح جاری رہے تو کیا پھر اس ٹھنڈے ٹھنڈے احتجاج پر ہی صابر
شاکر رہ کر اگلے انتخابات کا انتظار کرنا چا ہئیے جس کا نتیجہ بھی یقینا آج
جیسا ہی ہو گا۔یا موجودہ معاشی، سماجی ، انتخابی اور اقتصادی خرابیوں کے
ازالے کے لئے کسی غیر معمولی اقدام کی ضرورت ہے ؟
سوچ کے عمیق سمندر میں غوطہ زنی کے بعد ذہن میں جو خیال آتا ہے ،وہ یہ ہے
کہ اس وقت ملک کے مسائل انتہائی گھمبیر اور سنجیدہ ہو چکے ہیں۔امن امان کی
صورتِ حال تو ہے ہی ناگفتہ بہہ، مگر معیشت کی کی صورتِ حال بھی زبوں حال ہے،
قانون کی حکمرانی کا تصور قصہٗ پارینہ بن چکا ہے، میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا
رہی ہیں ،تمام اہم پوسٹوں اور اداروں کے سربراہاں وزیر اعظم نواز شریف کے
رشتہ دار یا دوست برا جماں ہیں۔کرپشن کا دور دورہ ہے بالائی طبقے سے ٹیکس
کا حصول ممکن ہی نہیں رہا عوامی بہبود کے لئے اول تو رقم ہے ہی نہیں ،جو
تھوڑی بہت ہے وہ بد دیانت عناصر کے جیبوں میں چلی جاتی ہیملک میں جب الیکشن
ہو تے ہیں تو دولت اور غندہ گردی ہی فیصلہ کرتی ہے ۔انتظامیہ میں سیاسی
مداخلت اتنی زیادہ ہے کہ لا تعداد خرابیاں نظر آتی ہیں ۔گویا جدھر بھی
دیکھو ،جس طرف بھی دیکھو، خرابی ہی خرابی نظر آ تی ہے اور اصلاھِ احوال کی
کو ئی صورت نظر نہیں آتی البتہ ایک تجویز جو مختلف دانشوروں کی طرف سے پیش
کی جا رہی ہے کہ ایک ایسی عبوری حکومت قائم کی جائے جو مسلمہ طور پر اہل
اور دیانت دار افراد پر مشتمل ہو جو اوپر بیان کردہ خرابیوں کے ازالے کے
لئے ہنگامی اقدامات کرے ایک متفق علیہ نظام کے تحت صاف ستھرے انتخابات
کرائے جائیں ، جن کے نتیجے میں دولت کے بل بوتے پر نہی، بلکہ اپنی اہلیت
اور دیانت کے بل بوتے پر اسمبلیوں میں آسکیں۔ ان انتخابات سے پہلے احتساب ،
قانون کی حکمرانی، کرپشن کے ازالے کی ایسی روایات قائم کر دی جائیں جنہیں
نئی منتخب حکو مت کے لئے نظر انداز کرنا ممکن نہ ہو۔ ایک سیولین سیٹ اپ کے
تحت ایک بے رحم اصلاحی عمل کچھ عرصہ کے لئے کیا جائے تاکہ نئے انتخابات کے
بعد شروع ہو نے والا سفر بہت بہتر حالت میں آگے چل سکے․․․
اس مجو زہ انتظام کے لئے نہ تو فوج کو آگے آنے کی ضرورت ہے نہ آئین کو معطل
کرنے کی اور نہ جمہو ریت کا تسلسل روکنے کی ․․․․
عبوری حکومت کا عرصہ کم از کم اتنا ہو نا چا ہیے جس میں ایک سر جیکل اپریشن
کے ذریعے کینسر زدہ حصوں کو کا ٹ پھینکا جا سکے اس کے دو فائدے ہوں گے۔اول
یہ کہ اگلے انتخابات نسبتا بہتر فضا میں ہو سکیں گے جن سے پسندیدہ نتائج کی
توقع کی جاسکے گی۔دوم یہ کہ ایسی روایات قائم ہو جائیں گی جن کی خلاف ورزی
نئی حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگی۔یہ جمہو ریت کو ترک کرنے کا نسخہ نہیں ہے،
فوج کو لانے کا نسخہ نہیں ہے بلکہ جمہو ریت کو کسی بڑے صدمے سے بچانے کا
نسخہ ہے۔افراد کی طرح ادارے بھی فکری ارتقاء کی منزلیں طے کرتی ہیں ۔ہماری
افواج مارشل لاء لگانے کا قطعا کو ئی ارداہ نہیں رکھتی لیکن وہ قومی زندگی
کے موجودہ خرابیوں سے بے خبر بھی نہیں رہ سکتی۔
شاید ان کی بھی یہ خواہش ہو کہ کسی اصلاحی عمل کے ذریعے مو جودہ نظام کو
انتہائی بڑی بڑی خرابیوں سے پاک کر دیا جائے ۔ یاد رکھئے !
ہمارا سیاسی ، سماجی اور اقتصادی ڈھانچہ بڑے سنگین امراض کی گرفت میں آچکا
ہے اور قومی صورتِ حال بہ زبانِ حال پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ حالات کو
جوں کا توں چھو ڑے رکھنا اور محض ارتقائی اصلاح کے فلسفے کا راگ الا پتے
رہنا دانشمندی نہیں ہو گی۔مجھے مختلف حلقہء فکر میں بیٹھ کر شدّت سے یہ بات
محسوس ہو ئی ہے کہ موجودہ صورتِ حال پر شدید عدم اطمینان کی کیفیت پائی
جاتی ہے اور اس سوال پر گہرہ غور و فکر کیا جارہا ہے کہ اصلاحِ احوال کے
لئے کیا کرنا ضروری ہے ، اب لوگوں کی بہت بڑی اکثریت یہ بات درست نہیں
سمجھتی کہ موجودہ سیاسی قیادت کو اپنی موجودہ طور طریقوں کے مطابق کھیل
کھیلتے رہنا دینا چا ہیے۔ ْاگلے انتخابات تک انتظار کر کے پھر اسی صورتِ
حال کو جاری و ساری رکھنا چا ہیے۔ لہذا قبل اس کے کہ نا موافق حلات ہمیں
اپنی گرفت میں لے لیں ، ہمیں اصلاحِ احوال کا مو قع ہی نہ ملے، ہمیں سنجید
گی سے بہتر منصوبہ بندی کے لئے غور و فکر کرنا چا ہیے۔۔۔۔۔۔۔ |
|