بھارت میں انتخابات کے موقع پر
کانگریس و اس کی اتحادی حکمران حکومت نے مسلمانوں اور مراٹھا ووٹ حاصل کرنے
کیلئے ایک فیصلہ لیتے ہوئے مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں میں پانچ فیصد اور
مراٹھوں کو ۱۶؍فیصد ریزویشن دینے کا فیصلہ کیا تھا ، اس فیصلے کو محض
انتخاباتی ووٹ حاصل کرنے کی ایک چال قرار دیا گیا اس لئے ایوان میں منظوری
حاصل کرکے اسے قانونی شکل اختیار دینے سے گریز کی راہ اختیار کی گئی کیونکہ
اتحادی حکومت کو معلوم تھا کہ مراٹھوں کا ریزرویشن ’کورٹ ‘میں قائم نہیں
رہے گا کیونکہ دو طرح سے مراٹھوں کو بھارتی مسلمانوں کیطرح پس ماندہ ،
معاشی و تعلیمی کمزور نہیں سمجھا جاتا۔چونکہ کانگریس کو زیادہ تر انتخابات
میں مسلم ووٹ حاصل کرنے کی کوشش تھی اس لئے کچھ حد تک کانگریس اورNCP رہی۔
مسلمانوں اور مراٹھوں کے کوٹے کے خلاف حکومت کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا
تو حسب توقع مراٹھوں کے ریزرویشن پر فیصلے نے پابندی عائد کردی گئی، ریاست
کی نئی بی جے پی نے مراٹھوں کے ریزرویشن بل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے
ریزرویشن بل بھی ایوان میں رکھ کر اسکتے تھے لیکن بھارتی جنتا پارٹی جہاں
مسلمانوں کے خلاف ہے تو دوسری جانب مراٹھوں کی بھی مخالف ہے۔ بھارت کی
حکومت نے سبھی طبقات کی ترقی کا دل فریب نعرہ لگا یاکہ سب کا ساتھ سب کا
وکاس ، لیکن اس نعرے کے برخلاف ریاستی حکومت مہاراشٹر نے مسلمانوں کی ترقی
کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہوئے مسلم ریزرویشن بل کو مسترد کردیا۔بھارتی
مسلمانوں کے ساتھ ہندوستانی حکومت کا یہ رویہ نیا نہیں ہے بلکہ مختلف مواقع
پر اور خصوصی طور پر بھارتی جنتا پارٹی کی ہندو انتہا پسند جماعت کے بر سر
اقتدار آنے کے بعد مسلمانوں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کیں جارہی
ہیں۔گذشتہ دنوں مہاراشٹرا ریاست نے گائے کے گوشت پر پابندی کے بعد جس طرح
مسلم تاجروں کو ہراساں کیا جارہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بھارتی ہندو
انتہا پسند حکومت کی مہم جوئی کا شکار مسلم طبقہ اپنی مذہبی عبادات و شعائر
میں بھی بھارتی حکومت کے جانبدارنہ طرز عمل سے احساس محرومی کا شکار ہے اور
وہ اپنے وزیر اعظم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہی ان کی معاشی ترقی کیلئے
اپنائے گئے نعرے ’ سب کا کا ساتھ ، سب کا وکاس(ترقی) ‘ کا ویژن ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دل فریب نعرے’ سب کا ساتھ ، سب کا
وکاس(ترقی) ‘سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نہایت متاثر نظر آتے ہیں ، وہ
سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا نعرہ ہے اور اسے ہند، امریکہ سطح کے ساتھ عالمی
سطح تک لے جانا چاہیے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت میں موجود مسلم
طبقہ نے بھارتی حکومت کے اس نعرے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے
کہا ہے کہ مہاراشٹرا میں پچھلے پچاس سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ مسلسل نا
انصافی ہوتی رہی ہے ، سچر کمیٹی، مائناریٹی کمیشن اور دیگر پینلس کی رپورٹس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارتی مسلمان شدید پس ماندگی کا شکار ہیں،بھارت میں
ہندو انتہا پسند جماعت کی جانب سے یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ بارہ سو سال
کی غلامی کے بعد ملک کو آزادی ملی ہے جبکہ بھارتی مسلم حلقے اس دعوی کو شدت
کے ساتھ مسترد کرتے ہیں کہ کیسے اس ملک میں کہا جا رہا ہے کہ "بارہ سو سال
کی غلامی کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ ہندو راجیہ قائم ہوا"۔ بھارتی مسلم
طبقے نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ "بھارت پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد پر
قائم ہوا اسے بارہ سو سال بعد نہیں بلکہ دو سو سال بعد ا نگریزوں کی غلامی
سے نجات ملی ہے"۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی جہاں اپنے معاشی ویژن کے
نعرے ’ سونا ساتھ ، سب کا وکاس ، سب کا ساتھ سب کی ترقی ‘میں گجرات کی
معاشی ترقی کے حوالے دیتے نہیں تھکتے تو دوسری جانب اپنے دل فریب نعرے کی
آڑ میں بھارتی مسلمانوں پر قسم قسم کی پابندیاں عائد کرنے سے بھی چوکتے اور
اپنی ہندو انتہا پسند سوچ کی وجہ سے ہی مسلسل پاکستان کے ساتھ جارحانہ رویہ
اپنایا ہوا ہے، ملک کی سرحدوں پر در اندازی کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں اور
ملکی سرحدوں پر مہم جوئی کے جنون نے پاکستان میں بھی مسائل کھڑے کردئیے
ہیں۔جب سے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا ہے اس وقت سے مشرقی سرحدوں پر پاک
فوج کو الجھانے کیلئے مسلسل چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے ، جس سے پورے خطے میں
سخت تناؤ کی کفیت پائی جاتی ہے۔بھارتی وزیر اعظم کے دل فریب نعرے کی اصل
حقیقت کو سامنے رکھیں تو ان کا دوغلا رویہ سامنے آتا ہے کہ خواتین کی حفاظت
کیلئے 150کروڑ ، لڑکیوں کی شادی کیلئے 100کروڑ ، بیٹی پڑھاؤ اسکیم کیلئے
100کروڑ، جبکہ بنارس کے بنکروں اور کشمیر کے پشمینہ صنعتکاروں کی ترقی
کیلئے پچاس ، پچاس کروڑ بجٹ میں رکھے گئے تھے ۔جبکہ اس کے مقابلے میں صرف
ولبھ پٹیل کی یادگار مورتی بنانے کیلئے دو سو کروڑ بجٹ میں مختص رکھے
گئے۔بی جے پی نے دعوی کیا تھا کہ کالے دھن کے پیسے واپس لیکر آئیں گے ،
لیکن بر سر اقتدار آنے کے بعد بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں اپنی
تحریک پر ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکیں۔کہا جاتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں
مہنگائی کے سارے ریکارڈ بی جے پی حکومت میں ٹوٹے ۔ عام ضروریات زندگی کی
اشیا ء کی قیمتیں اس قدر آسمان کی بلندی پر ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ
پیازپٹرول سے مہنگی ہے۔ بی جے پی حکومت نے وزرا کی تعداد کم رکھنے اور کئی
وزراتوں کو ملا کر ایک وزرات بنانے کا دعوی کیا تھا لیکن اس پر بھی عمل
درآمد نہیں کیا گیا بلکہ عوام کو کہا گیا کہ اسے چند سال مزید برداشت کرنا
ہونگے۔ بی جے پی حکومت پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ شراب کے
کاروبار کرنے والے کارپوریٹس کو کوڑیوں کے داموں اناج کی فراہمی کیلئے ہر
سال لاکھوں ٹن اناج خراب کردیا جاتا ہے۔جہاں معاشی طور پر وزیر اعظم نریندر
مودی کی پالسیوں کو بھارت میں کامیاب نہیں قرار دیا جارہا تو دوسری جانب بی
جے پی مسلسل مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے ساتھ صف آرا ہوئی ہے ، جس
میں خاص طور پر ’ لو جہاد ‘ کے نام سے شر انگیز پروپیگنڈے کی وجہ سے مسلم
طبقے کو انتہا پسند ہندو جماعت کی وجہ سے تکالیف کا سامنا ہے۔یہ سب کچھ ایک
ایسی سوچ کے تحت کیا جارہا ہے جس میں ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے
قیام کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کو خطاور قرار دیکر ان پر
زندگی تنگ کی جا رہی ہے ۔ان پر ہندوستان میں رہنے کی وجہ سے طرح طرح کی
پریشانیاں پیدا کردیں گئیں ہیں کہ آج مسلمان بھارت میں تعلیمی اور معاشی
لحاظ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔فرقہ وارنہ نفرتوں میں گھیرا ہوا ہندوستان کی
انتہا پسند ہندو حکمران جماعت کا اصل ہدف مسلم ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاں
مسلمانوں کے فائدے میں کوئی بات سامنے آتی ہے تو انتہا پسند سوچ رکاؤٹ بن
جاتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال پانچ فیصد کوٹے کے بل پر مہارشٹرا ریاست کی
جانب سے شدید رد عمل اور رکاؤٹ ہے۔بھارتی حکومت کو اپنے روئیے میں تبدیلی
لانا ہوگی اور مسلمانوں کے خلاف اعلانیہ مہم جوئی کی راہ سے گریز کی راہ
اختیار کرتے ہوئے امن کے راستے پر چلنا ہوگا ،امن کے راستے پر چلے بغیر
نریندر مودی اپنے معاشی نعرے کو کبھی کامیاب نہیں بنا سکتے، اپنے معاشی
نعرے کو بھارت کی کروڑوں کی تعداد میں بھوکی سونے والی عوام کیلئے نریندر
مودی کو اپنے انتہا پسند ارادوں کو ترک کرکے غریب عوام میں ایک وقت کی روٹی
کیلئے صلاحیتیں صرف کرنا چاہیے۔ |