داعش کیا عالمی امن کے لئے خطرہ ہے؟
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
عراق میں دولتِ اسلامیہ (داعش
)امریکی تخلیق ہے؟
روسی صدر ویلا میر پیوٹن نے دنیا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور انتہا پسندی
کی بنیاد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو قرار دیا ہے، انھوں نے یہ الزام بھی
لگایا ہے کہ عراق اور شام میں داعش کا مسئلہ بھی امریکہ اور مغرب کی وجہ سے
پیدا ہوا ہے۔ بعض حلقے یہ بھی الزام بھی لگاتے ہیں کہ شام پر امریکا کے
فضائی حملوں نے بشارالاسد حکومت کے مخالف جنگجووں کو داعش سے جْڑنے یا الگ
اتحاد بنانے کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی
بمباری کے خلاف لوگوں میں نفرت بڑھی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ داعش کی
مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ گو امریکہ کی بمباری اور کاروائی کے نتیجے میں دولت
اسلامیہ کو زک پہنچی ہے اور انھیں پیچھے ہٹنا اور ہزیمت کا سامنا کر نا پڑا
ہے۔ لیکن مشرقی وسطی کا امن اب بھی خطرے سے دوچار ہے۔ کچھ عرصے پہلے
برطانوی روزنامہ ’’گارجین‘‘ نے شام کی باغی فوج اور دیگر مسلح گروپس کے
ارکان کے انٹرویو کیے تھے، جس میں یہ بات کھل کر سامنے آئی تھی کہا جنگجو
گروپ اور داعش میں لوگوں کی شمولیت امریکہ کی پالیسی کے خلاف اظہار نفرت
تھی۔ انٹرویو کے دوران شام میں برسرِ پیکار جنگجووں نے ’’گارجین‘‘ کو بتایا
کہ امریکا کی مہم جوئی کے باعث بشارالاسد کے مخالف گروپس اور جنگجووں کا
رویہ تبدیل ہوا اور اب وہ داعش کے حامی ہیں ،بہت سے جنگجو کہتے ہیں کہ داعش
کی حمایت میں اضافہ ہونا ہی تھا۔ لوگوں کا دم گھٹنے لگا تھا اور وہ مزید
برداشت نہیں کرسکتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جب آپ کسی بلی کو تنگ کرتے ہیں
تو وہ پنجے مارتی ہے۔ بہت سے شدت پسند اس خیال کے حامی ہیں کہ،، امریکا اور
اس کے اتحادی مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں اور قتل عام کررہے ہیں۔ ہم کیوں
اس پر خاموش رہیں،،۔ باغیوں کے لیئے داعش باغیوں کے لئے ایک مقناطیس کی طرح
تھا، جو بڑی تعداد میں ان لوگوں اپنی جانب کھینچ رہا تھا، جو امریکہ اور
مغرب کی پالیسی پر تنقید سے بڑھ کر نفرت کرتے تھے۔مشرقی وسطی میں برسر
پیکار ان جنگجو افراد کو خیال ہے کہ امریکا کی قیادت میں بننے والا فوجی
اتحاد داعش کے خلاف نہیں، اسلام کے خلاف ہے۔ جس کے سبب دیگر اسلامی ملیشیا
کے ارکان بھی داعش کا حصہ بن گئے ہیں، جیش المجاہدین، الشام بریگیڈ، احرار
الشام بریگیڈ اور النصرہ فرنٹ ،ایک سال پہلے داعش کے مدمقابل تھے، اب وہ سب
اتحاد کی باتیں کررہے ہیں۔ داعش نے جہاں ایک جانب کئی غیر ملکیوں کے گلے
کاٹے، وہاں اس نے مقامی طور پر سماجی بہبود کے اقدامات اور لوگوں کو تحفظ
کا احساس بھی دلایا۔ داعش نے رقہ شہر میں عوام کو مفت کھانا فراہم کرنے کے
لیے ۷۵ ہوٹل کھول رکھے تھے۔ جہاں روزانہ تین وقت کا کھانا مفت دیاجاتا،
تاکہ کوئی چور، لٹیرا یہ بہانہ نہ کرسکے کہ اس نے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے
کے لیے چوری کی۔ شہریوں کو مفت ایندھن بھی فراہم کیا گیا۔ شرعی قوانین پر
عمل درآمد کے باعث رقہ اور داعش کے زیر انتظام دیگر علاقوں میں جرائم کی
شرح بھی تیزی سے گری۔طویل عرصے عراق میں خانہ جنگی اور امریکی کاروائی کے
سبب مشرقی وسطی میں امریکہ کی قیام امن کی پالیسی مکمل طور پر ناکام رہی ہے،
اس پالیسی نے مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام، اور جنگی جوئی کو فروغ دیا ہے۔
امریکا نے دولتِ اسلامیہ کی تشکیل کا سبب بننے والے حالات، یعنی عراق اور
شام میں جاری خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میں دونوں ریاستوں کی کمزوری، کو
درست کرنے کے لیے کسی عزم یا جوش و خروش کا اظہار نہیں کیا ہے۔ جس نے عرب
مملک میں تھوڑی سی ناراضگی بھی پیدا کی۔ لیکن اردن کے یرغمال پائیلٹ
معاذالکساسبہ کے داعش کے ہاتھوں زندہ جلا دینے کے بعد اردن سعودی عرب ،بحرین
اور قطر ۔ اور متحد امارات پھر اس جنگ میں شامل ہوگئے ہیں۔ بین الاقوامی
طور پر بھی داعش کے خلاف عالمی رائے عامہ ہموار ہوئی ہیں۔ جس میں داعش کے
زیرحراست امریکی امدادی کارکن کیالا ڑاں میولر کی ہلاکت،جاپانی صحافی کینجی
گوٹو کے سفاکانہ قتل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ داعش کے خلاف عالمی اتحاد کا
دائرہ وسیع کیا جارہا ہے، اور اتحاد میں شامل ممالک کی تعداد 62 تک پہنچ
گئی ہے۔ مشرقی وسطی میں امریکی پالیسی اور داعش کے خلاف کاروائیوں پر خود
امریکی بھی تنقید کر رہے ہیں۔ سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے اسلامی
ریاست کے خلاف اوباما انتظامیہ کی حکمت عملی پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا
کہنا ہے کہ موجودہ پالیسز سے داعش پر فتح ناممکن ہے۔ وہ زمینی کاروائی کی
حمایت کرتے ہیں ۔انکاکہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ کو شکست دینے کے لئے ضروری
ہے کہ چند سو فوجی خطے میں تعینات کئے جائیں جو زمینی کارروائی میں حصہ لیں
ورنہ موجودہ حالات میں امریکی صدر کا آئی ایس آئی ایس کو ختم کرنے کا خواب
ناقابل حصول ہوگا۔ داعش کے بارے میں لوگوں میں بہت سے شکوک وشبہات ہیں۔ بہت
سے لوگوں کیا خیال ہے کہ عراق میں دولتِ اسلامیہ (داعش )امریکی تخلیق ہے؟
اس کے ذریعے مسلمانوں کو بدنام کرناتھا۔ اس کہانی پر بہت سے لوگ یقین رکھتے
ہیں، عراق میں داعش یا دولتِ اسلامیہ نامی شدت پسند گروہ کے پیچھے امریکی
ہاتھ کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہلری
کلنٹن نے اپنی کتاب ’ہارڈ چوئسز‘ میں اس کا اعتراف کیا ہے۔لبنانی فوجوں کے
خلاف دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کی وحشیانہ کارروائیوں، اور یرغمالیوں کے سر
قلم کرنے کی ویڈیوز جس انداز میں انٹرنیٹ پر دکھائی جانے لگیں۔ اس کے ساتھ
یہ خیال بھی عام ہونے لگا کہ امریکہ اس گروہ کی تشکیل کا ذمہ دار ہے۔ ماضی
میں طالبان ، القاعدہ کے ہیولے میں اسی انداز میں رنگ بھرا گیا تھا،ٰ یہ
بھی کہا جارہا ہے کہ امریکہ نے دولتِ اسلامیہ کو خطے میں بدامنی کے لیے
تیار کیا ہے تاکہ امریکی مفادات پورے ہو سکیں۔ اور ایک بار پھر امریکہ کو
یہاں فوج اتارنے کا بہانہ مل جائے۔ان افواہوں کی کثرت کی وجہ یہ بھی کہی
جاسکتی ہے کہ امریکہ نے کئی بار اقتدار میں تبدیلی کے لیے باغی گروہوں کی
حمایت کی ہے،افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کی پشت پناہی اور مشرقِ وسطیٰ
کے سیاق و سباق میں یہ کوئی ناقابلِ یقین بات نہیں ہے۔ اس افواہ کی شدت کی
وجہ سے لبنانی وزارتِ خارجہ نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو بھی طلب کرکے وضاحت
مانگی تھی۔ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ بیروت میں
امریکی سفارت خانے کو اس سلسلے میں ایک خصوصی بیان جاری کرنا پڑا تھا جس
میں اس کی بات کی تردید کی گئی۔ ہلیری کلنٹن نے اپنی کتاب میں کہا تھا کہ
امریکہ کی جانب سے شامی باغیوں کی مدد نہ کرنے کی وجہ سے دولتِ اسلامیہ
وجود میں آئی۔ ان باتوں سے لبنان میں امریکی ساکھ کو انتہائی نقصان پہنچا
ہے، اور لبنان میں امریکی حامیوں کی تعداد کم ہوئی۔حال ہی میں امریکہ نے
خطے میں اپنی پالیسی ایک بار پھر تبدیل کرلی ہے ، "داعش" کے خلاف جاری
اتحادی فوج کے فضائی آپریشن کے انچارج جنرل جون ایلن نے اس بات کی تصدیق کی
ہے کہ دولت اسلامی کے خلاف جلد ہی زمینی آپریشن کا آغاز ہونے والا ہے۔ ان
کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ زمینی کارروائی کا
فیصلہ ہو چکا ہے ۔جنرل ایلن کا کہنا ہے کہ دولت اسلامی کے شدت پسندوں کے
خلاف زمین آپریشن کا آغاز عراق کے اندر سے ہو گا۔ اس سلسلے میں عراقی فوج
کے 12 بریگیڈز کو جنگی تربیت اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا جا رہا ہے۔
اس سے یہ بات پائے ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ امریکہ ایک بار پھر اپنی فوجیں
عراق میں اتارنے جارہا ہے، پہلے یہ القاعدہ کے خلاف تھا تو اس بار یہ داعش
کو کچلنے کے نام پر ہوگا۔ |
|