بھارت بنگلہ دیش تعلقات کا نیا دور
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
پانی اور سرحدی تنازعات کا حل
ایک اچھی پیش رفت
بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان اکیسویں صدی میں تعلقات کا ایک نیا دور شروع
ہورہا ہے۔ جس میں خطے کے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون اور تجارتی و سفارتی
تعلقات کو مضبوط بنایا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین تعلقات
مسلسل اتار چڑھاؤ کے شکار رہے ہیں۔لیکن دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کا
سلسلہ جاری رہا ہے۔ اب تقریبا چالیس برس کے بعد پہلی مرتبہ بنگلہ دیشی صدر
عبدالحامد نے بھارت کا دورہ کیا ہے ۔ جس میں سرحدی تنازعات پر بات ہوئی ہے۔
دونوں جانب سے اس ملاقات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس چھ روزہ سرکاری
دورہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید وسیع اور مستحکم ہو ں گے۔ 1971 میں
پاکستان کی تقسیم اور ایک آزاد ملک کے طور پر بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے
بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات بھی رہے اور کبھی کبھی ان میں
تناو بھی آیا۔ بھارت کی طویل ترین سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے جبکہ بنگلہ
دیش سے ملحق بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں جاری شورش پسندی، علیحدگی کی
تحریکیں اور دہشت دہشت گردی کے واقعات بھارتی حکومت کے لیے مستقل پریشانی
کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے الزام عائد کیا جاتا ہے کہ عسکریت
پسند بھارتی علاقے میں اپنی مسلح کارروائیوں کے بعد بنگلہ دیشی علاقوں میں
پناہ چلے جاتے ہیں جب کہ متعدد انتہاپسند لیڈروں نے بھی وہاں پناہ لے رکھی
ہے۔ بھارتی حکام کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین سرحدی تنازعہ حل ہو
جانے سے انتہاپسندی اور سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانے میں
مدد ملے گی۔سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے 2011 میں اس وقت کے بھارتی وزیر
اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ ا ور ان کی بنگلہ دیشی ہم منصب شیخ حسینہ واجد کے
درمیان ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ بنگلہ دیشی پارلیمان نے اس معاہدے کی
توثیق بھی کردی تھی لیکن بھارتی پارلیمنٹ میں اس معاہدے پر بڑی لے دے ہوئی۔
کئی سیاسی جماعتوں اور بی جے پی نے بھی اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ لیکن وزیر
اعظم نریندر مودیاس بارے میں پر امید تھے۔ انھوں نے اپنے حالیہ دورہ آسام
میں عوام کو یقین دلایا کہ اس سرحدی تنازع کو حل کرنے اور بنگلہ دیش کے
ساتھ زمین کی تبادلے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے
دراندازی اور بنگلہ دیشیوں کی غیر قانونی آمد کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد
ملے گی۔ اس کے بعد اس معاملے کو پارلیمنٹ کی خارجہ امور سے متعلق اسٹینڈنگ
کمیٹی کو سونپ دیا گیا، جس نے یکم دسمبر کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ حکومت
زمین کے تبادلے کے معاملے کو آگے بڑھائے۔اس معاہدے کے تحت بھارت بنگلہ دیش
کو 17169ایکڑ پر مشتمل 111 انکلیو بنگلہ دیش کے حوالے کرے گا جب کہ بنگلہ
دیش اس کے بدلے 7110 ایکڑ پر مشتمل 51 انکلیو بھارت کو دے گا۔ ان علاقوں
میں تقریبا اکیاون ہزار کی آبادی ہے۔ ان میں آسام، مغربی بنگال، تری پوری
اور میگھالیہ کے علاقے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہوجانے کے بعد ان
افراد کو وہ سرکاری سہولیات حاصل ہوسکیں گی، جن سے وہ اب تک محروم ہیں۔ اس
کے علاوہ بنگلہ دیشیوں کی غیر قانونی آمدکے مسئلے کو بھی حل کرنے میں مدد
ملے گی۔بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تیستاندی کی پانی کے تقسیم کا مسئلہ
بھی حل طلب ہے۔بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تین دہائیوں سے جاری متنازع
سمندری حدود کا بھی اب تصفیہ ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ اقوام متحدہ کے ایک
ٹرائبیونل کے ذریعہ حل ہوا۔جس نے متنازع علاقے کا تقریباً 80 فیصد حصہ
بنگلہ دیش کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔اس فیصلے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان
خلیجِ بنگال کے متنازع 25 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے میں سے 19،500
کلومیٹر کا علاقے بنگلہ دیش کو دیا گیا ہے جبکہ بھارت کے حصے میں تقریبا چھ
ہزار کلومیٹر علاقہ آیا ہے۔ اب دونوں ملک اس فیصلے پر رضامند ہیں۔ بھارت کے
ساتھ جاری سمندری حدود کے تنازعے کو بنگلہ دیش نے سنہ 2009 میں سمندری امور
کے متعلق اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ٹرائبیونل میں اٹھایا تھا۔اس تنازعے
کے حل کا ایک خوشگوار پہلو یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کو خلیج بنگال میں پٹرول
اور گیس کی تلاش کا موقع ملے گا۔ماہرین کے مطابق خلیج بنگال میں تیل اور
گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کے درمیان برسوں کی خلیج کو
پاٹنے کی کوشش کے باوجود بنگلہ دیش کی عوام میں بھارت مخالف جذبات موجود
ہیں۔جس سے بھارتی دانشور پریشان ہیں۔ ایک بھارتی تھنک ٹینک مولانا
ابوالکلام آزاد انسٹیٹیوٹ آف ایشین اسٹڈیز (MAKAIAS) کے چیئرمین سیتارام
شرما کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں ہر پریشان کن واقعہ کے پیچھے بھارتی ہاتھ
تلاش کرنے کا قدرتی رجحان موجود ہے۔ سیتا رام شرما کا کہنا تھا کہ بھارت
بنگلہ دیش میں جمہوری حکومت کو ترجیح دیتا ہے، کیوں کہ وہ اسے کم بھارت
مخالف سمجھتا ہے۔جبکہ بنگلہ دیش کے سابق سفارت کار محسن علی خان کا خیال ہے
کہ بنگلہ دیش کے عوام بھارت مخالف جذبات نہیں رکھتے بلکہ وہ بھارت سے مایوس
اور ناراض ہیں۔بھارت بنگلہ دیش کے درمیان ایک تنازعہ غیر قانونی تارکین وطن
کا ہے۔ بھارتی حکومت اور ماہرین کا دعویٰ تھا کہ بھارت میں ۲ کروڑ غیر
قانونی تارکینِ وطن ہیں۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی انتخابی مہم
کے دوران غیر قانونی تارکینِ وطن کے مسئلہ کو اٹھایا تھا اور اقتدار میں
آنے کے بعد غیر قانونی تارکینِ وطن کو بنگلہ دیش واپس بھیج دینے کی دھمکی
بھی دی تھی۔ بنگلہ دیش بھارت پر پانی کی چوری کا بھی الزام لگاتا ہے۔ بین
الاقوامی قانون کے تحت بھارت کسی مشترکہ دریا سے پانی نہیں نکال سکتا۔لیکن
بھارت ایک عرصہ سے مشترکہ دریاوں کا پانی نکال کر زراعت اور دیگر مقاصد کے
لیے استعمال کر رہا ہے اور بنگلہ دیش کو اْس کے حق سے محروم کر رہا ہے۔
بنگلہ دیش 54دریا کے پانی میں شراکت دار ہے، جن میں سے 52پر بنگلہ دیش اور
بھارت کا مشترکہ حق ہے۔بھارت اوربنگلہ دیش کی سرکاری پاور کمپنیوں نے کوئلے
سے بجلی پیدا کرنے کے ڈیڑھ ارب ڈالر کے ایک پاور اسٹیشن کی تعمیر کے معاہدے
پر دستخط کر رکھے ہیں۔ جس سے روزانہ 1320 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔اس منصوبے
سے 2016 تک پیدوار شروع ہوگی۔بھارت نیبنگلہ دیش کے تاجروں کو بھی کئی
سہولتیں دے رکھی ہیں، بھارت نے ایسے بنگلہ دیشی کاروباری حضرات کو دو سال
کا ملٹی پل ویزا جاری کرنا بھی شروع کر دیا ہے جو بھارت کے ساتھ تجارت کرنا
چاہتے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی منڈیوں کے قیام بھی ہوا ہے۔ جس سے
بھارت سے 225 اشیاء محصول کے بغیر بنگلہ دیشی منڈیوں میں داخل ہو پائیں
گی۔بھارت اور بنگلہ دیش کی تجارت کا بھی کوئی موازنہ نہیں ہے۔ مالی سال
2011-2012 میں بھارت کی طرف سے بنگلہ دیش کو 4.74 بلین ڈالر کی مصنوعات
بھیجیں گئیں۔ جبکہ بنگلہ دیش نے بھارت کو 500 ملین ڈالر مالیت کی مصنوعات
برآمد کیں۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی ایجنڈا میں معاشی اہداف سرفہرست ہیں۔اور
وہ انھیں کے ذریعے چھوٹے ملکوں پر اپنا اثر رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ بھارت کی
بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی دلچسپی میں یہ امر بھی پوشیدہ ہے کہ وہ سفارت
کاری کے عمل میں تیزی کے ذریعے جنوبی ایشیا میں چین کے اثر کو حد میں رکھنا
چاہتا ہے۔ بھارت خطے میں سرحدوں کے قریب تجارتی چوکیوں پر نئی سڑکوں، ریل
لنکس اور زیریں ڈھانچے کے جال کی تعمیر کو بھی یقینی بنانا چاہتا ہے۔ |
|