چوہدری اشرف، بیرسٹر سلطان، ارشد غازی، اعجاز رضا ۔۔۔ اندرونی کہانی

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ نے فرمایا اگر تم لوگوں کو میرے گناہ معلوم ہو جائیں تو میرے پیچھے وہ آدمی بھی نہ چلیں اور تم لوگ میرے سر پر مٹی ڈالنے لگو اگر اﷲ تعالی میرے گناہوں میں سے ایک گناہ بھی معاف کر دے اور مجھے اس کے بدلہ میں عبداﷲ ابن ورثہ (گوبر کا بیٹا عبداﷲ کہہ کر ) پکارا جائے تو بھی میں اس پر راضی ہوں۔

حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا کہ میں روزانہ بارہ ہزار مرتبہ توبہ اور استغفار کرتاہوں اور یہ مقدار میرے(گناہوں کے ) قرضے کے مطابق ہے یا فرمایا اس کے (یعنی اﷲ کے مجھ پر) قرضے کے مطابق ہے۔

قارئین! میرپور میں ایک عجیب وغریب قسم کی کھچڑی نما سیاست کو دیکھ کر ذہن میں عجیب وغریب قسم کے خیالات ابھر رہے ہیں سمجھ میں نہیں آتا کہ نظریہ کس کو کہتے ہیں ،وفاداری کس چڑیا کا نام ہے اور خدمت کس بلا کو کہتے ہیں ۔ذاتی مفادات کو اس دور میں ’’ مفاہمت ‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے ۔ خودغرضی اور لالچ کو ’’غیرت‘‘ کہہ کر کوئی بھی قدم اٹھا لیا جاتا ہے اور ’’لوٹا کریسی‘‘ کو درجنوں خوشنما ناموں کے ساتھ سجا کر اس بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ نام نہاد لیڈر باتیں کرتے ہیں کہ دانتوں کے نیچے انگلیاں دبانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی بھی چارہ باقی نہیں ہے ویسے بھی پوری قوم بے چارگی کی زندگی گزار رہی ہے جہاں انسانوں کو کھانے کے لیے چارہ میسر نہیں ہے وہاں اگر سیاست دانوں کی کسی حرکت پر ہمارے پاس بھی حیرانگی کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہے تو یہ کوئی زیادہ حیرانگی کی بات نہیں ہے ۔
یہاں بقول شاعر ہم یہ کہتے چلیں
صد حیف ،صد ہزار سخن ہائے گفتنی
خوف ِفساد ِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے

یعنی ایسے ہزار ہا موضوع تھے کہ جن پر سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی تھی ہم اس لیے اس پر کوئی بھی بات کرنے سے قاصر رہے کہ خلقت میں بڑے پیمانے پر فسادہونے کا خطرہ تھا رہی ہماری اپنی جان ِ ناتواں کی بات تو ہمارے پڑھنے والے دوست ہمارے مختصر لیکن پر خطر صحافتی و ’’کالماتی‘‘ سفر سے آگاہ وآشنا ہیں کہ کبھی تو کوئی معصوم سا سوال کرنے پر حاکم وقت نے تند وترش زبان ہماری معصوم جان پر استعمال کر ڈالی اورکبھی کوئی اور لیڈر ’’آپ جناب‘‘ کے آداب بھول کر آن ایئر اینڈ آن ریکارڈ ’’ تم اور توـ‘‘ پر اتر آئے ۔یہاں بقول چچا غالب یہ کہتے چلیں
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

قارئین! ہم کسی کی طرف کوئی اشارہ نہیں کر رہے اور نہ ہی گستاخی کا ارتکاب کر رہے ہیں ہم وہ باتیں پہیلیوں کی زبان میں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جو زندہ حقیقتیں ہیں بقول رومیء کشمیر میاں محمد بخش ؒ
خاصاں دی گل عاماں اگے نئیں مناسب کرنی
مٹھی کھیر پکا محمد کتیاں اگے دھرنی

مطلب یہ کہ مجازی اور حقیقی معنوں سے آشنا لائق وفائق لوگوں کے ذوق کی بات بد ذوق لوگوں کے آگے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ میٹھی کھیر انتہائی محبت اور چاہت سے پکا کر کسی جانور کے آگے رکھ دی جائے۔ہمیں بہت خوشی ہے کہ اہل کشمیر انتہائی باذوق اور اشاروں کنایوں سے آگاہ لوگ ہیں اور ہم اکثر اوقات اپنے پڑھنے والے دوستوں سے بہت کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔

قارئین اس لمبی تمہید کے بعد اب ہم بات کرتے ہیں موضوع کے حوالے سے۔ میرپور میں 26جون2011کے الیکشن کے بعد وزارت عظمی کے چار امیدوار تھے ۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری، چوہدری محمد یاسین اور چوہدری عبدالمجید کا تعلق جاٹ قبیلے سے تھا اور چوہدری لطیف اکبر گجر قبیلے کے سربراہ کی حیثیت سے مضبوط ترین امیدوار تھے۔’’نہ جانے کیا ہوا ‘‘ کہ ہما کا پرندہ ’’ پھرُ‘‘ سے اڑ کر پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک انتہائی وفادار اور گراس روٹ لیول سے اٹھ کر پارٹی کے صدر بننے والے چوہدری عبدالمجید کے سر پر آبیٹھا ۔چوہدری عبدالمجید کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ کسی جاگیر اور وڈیرے کے گھر پیدا نہ ہوئے تھے اور ان کے والد محترم ایک سرکاری پولیس آفیسر تھے اور اچھی شہرت کے مالک تھے۔لیکن اچھی شہرت سے کوئی بھی شریف آدمی ’’شاہی بیک گراؤنڈ‘‘ کا مالک نہیں بن سکتااس لیے جاٹ قبیلے کے پرانے کھلاڑی جو ’’رائل بیک گراؤنڈ‘‘ کے مالک تھے انھیں چوہدری عبدالمجید جیسے ایک عام سیاسی کارکن کا وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھنا بالکل پسند نہ آ یا ۔ مغلیہ خاندان کی طرح دنیا کی جتنی بھی سلطنتیں عروج تک پہنچیں اور بعد ازاں خاک میں مل گئیں ان کی کہانیاں اگر تاریخ کے صفحے جھاڑ کر اگر آپ پڑھیں تو آپ کو ’’میر جعفر اور میر صادق‘‘ بھی ملیں گے آپ کو شیکسپئیر کے ڈرامے کا تاریخی جملہ ’’ You too Brutus‘‘ کی صدا بھی پڑھنے کو ملے گی اور دیگر کئی عبرت کے قابل مثالیں آپ کے سامنے آئیں گی ۔’’آزادکشمیر کی سلطنت ‘‘ چونکہ چند ہزار مربع میل پر مشتمل ایک چھوٹا سا علاقہ ہے اس لیے بد قسمتی سے یہاں کے سلطان بھی چھوٹے چھوٹے ہیں اور یہاں کے غدار بھی بونوں کی طرح چھوٹے قد کے ہیں ۔چوہدری عبدالمجید کی حکومت کے خلاف سب سے پہلی غدار ی ان کی اپنی ’’کارکردگی‘‘ نے کر ڈالی ۔وزارت عظمی کے مضبوط ترین امیدوار بیرسٹر سلطان چوہدری جو پہلے بھی ایک مرتبہ آزادکشمیر کی وزارت عظمی کا ’’نشہ یا گناہ بے لذت‘‘ چکھ چکے تھے انھوں نے قومی میڈیا پر چند ماہ گزرنے کے بعد وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور ان کی کابینہ کے ’’پانچ پیاروں‘‘ پر کرپشن کے سنگین ترین الزامات عائد کرنا شروع کر دیے۔یہاں ایک اور بہت دلچسپ بات آپ کو بتاتے چلیں 26جون 2011کے انتخابی دن کا سورج جب غروب ہوا اس وقت راقم ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93میرپور میں سٹیشن ٖڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی نگرانی میں ریڈیو پاکستان پر ایک خصوصی براہ راست پروگرام کر رہا تھا اس پروگرام میں سابق وزیراعظم سردارعتیق احمد خان ، سابق صدر ووزیراعظم سردار سکندر حیات خان، سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان،وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بھی شریک ہوئے تھے۔ان سب سے ہمارا بس ایک ہی سوال تھا کہ کیا وہ انتخابی عمل سے مطمئن ہیں تو کم وبیش سب کا یہی جواب تھا کہ وہ الیکشن سے کوئی شکایت نہیں رکھتے ۔رات گذری اور نتائج آتے گئے مسلم کانفرنس جو 2006کے انتخابات میں سواد اعظم اکثریتی جماعت بن کر اقتدار میں آئی تھی اس کا تقریباً صفایا ہو گیا اور وہ پانچ سیٹوں تک محدود ہو گئی ، نئی جنم لینے والی مسلم لیگ ن چند ماہ میں جوا ن ہو کر دس سے زائد سیٹیں جیت گئی اور پیپلز پارٹی جو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے داغ مفارقت دینے کے بعد گذشتہ انتخابات میں چھ سیٹوں پر صبر کر رہی تھی بیرسٹر سلطان کے پارٹی میں واپس آنے کی وجہ سے اور وفاق میں ’’کھپے والی سرکار‘‘ خوبصورت ترین مسکراہٹ والی سرکار آصف علی زرداری کی ’’حرکتوں اور برکتوں ‘‘ کی وجہ سے تیس کے قریب نشستوں کی مالک بن گئی خیر ہم اس پوری کہانی کو اب یہیں پر چھوڑ دیتے ہیں اور موضوع سے متعلق بات جا ری رکھتے ہیں میرپور حلقہ ایل اے تین میں دو ہزار گیارہ کے انتخابات میں چوہدری اشرف مسلم کانفرنس کا حصہ تھے اور وزیراعظم سردار عتیق احمد خان کی چھتری کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ،ارشد محمود غازی جو تحریک آزادی کے ہیرو غازی کشمیر غازی الہی بخش مرحوم کے صاحبزادے ہیں وہ مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے آخری انتخابی جلسے میں میاں محمد نواز شریف نے میرپور کے جلسے کو ’’پراسرار وجوہات‘‘ کی بنا پر بائی پاس کر کے اسلام گڑھ میں کیپٹن سرفراز مرحوم کے جلسے میں شرکت کی تو احتجاجاً ارشدمحمود غازی نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا۔ صرف اسی وجہ سے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور چوہدری اشرف کا ون ٹو ون مقابلہ شروع ہوا اور مختلف ’’شرارتی مخبروں‘‘ کا یہ کہنا ہے کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے کلب میں شامل تمام دوستوں نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے دشمنی کا حق ادا کر دیا اور پیپلزپارٹی کے مخالف امیدوار مسلم کانفرنس کے ٹکٹ ہولڈر چوہدری اشرف کو جھولیاں بھر بھر کے ووٹ ڈالے ۔شام کو جب نتائج اکھٹے شروع ہو نا شروع ہوئے تو غیر متوقع طور پر درجنوں پولنگ سٹیشنوں سے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ہارنے کی خبریں آنا شروع ہو گئیں اور ایک گھنٹے کے اندر پورے شہر میں افواہ پھیل گئی کہ چوہدری محمد اشرف نے الیکشن جیت لیا ہے اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری ہار گئے ہیں۔آگے کی کہانی ہم اپنی جان کے تحفظ کی خاطر حذف کر رہے ہیں اور فائنل نتیجہ بتا رہے ہیں اعلان کیا گیا کہ افواہ غلط تھی بیرسٹر سلطان محمود چوہدری جیت گئے ہیں۔

قارئین اب بھی وہی منظر نامہ ہے میرپور میں واضع مقابلہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی کی صدارت سنبھالنے والے سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور مسلم کانفرنس چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں نیا جیالا بننے والے چوہدری محمد اشرف کے درمیان ہے اور ارشد محمود غازی اور اعجاز رضا وہ فیصلہ ساز بن چکے ہیں کہ جن کو پڑنے والا ووٹ کسی نہ کسی کی کشتی کو ڈبو کر رکھ دے گا۔باقی باتیں اگلے کالم میں کریں گے۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک فقیرنے گھر پر زور سے دستک دی عورت نے باہر نکل کر غصے سے پوچھا
’’بولو کیا چاہتے ہو‘‘ ۔
فقیر نے عاجزی سے ہاتھ پر ایک بٹن رکھا اور کہنے لگا۔
’’اﷲ کے نام پر اس بٹن پر کوٹ ٹانک دیں‘‘

قارئین ہمیں یوں لگتا ہے کہ 29مارچ کے ضمنی الیکشن میں بھی بٹن پر کوٹ ٹانکے جائیں گے ۔اﷲ تمام شہریوں کے جان ومال اور عزت کو محفوظ رکھے۔آمین
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374496 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More