کہنے والے کچھ بھی کہیں مجھے
ٹھیک طرح سے یاد ہے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کہا کرتی تھی جناب تحریک انصاف
کو آزاد کشمیر میں کوئی پارلیمانی پارٹی کی صورت میں دیکھنا ہے تو 20سے
25سال کوہالہ پل پر بیٹھ کر انتظار کریں نظریاتی کارکنوں کی محنتیں ضرور
رنگ لاتی ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایمانداری اور دیناتداری سے کام
کرئے اور وہ اس میں کامیاب نہ ہوتعداد میں کم لیکن نظریے کہ پکے سیاسی
کارکن چار سے پہلے سے پارٹی کو جھنڈا اپنے گھروں پر لہرا رہے تھے آج سے چند
سال قبل جب نیلم میں رکنیت سازی مہم کا آغاز کیا تو قریبی دوستوں نے کہا کہ
کس کام میں لگے ہوئے ہو پارٹی کا کوئی مسقبل نہیں تمہارا کام وقت کے ضیاع
کے علاوہ کچھ نہیں لیکن سچے سے جذبات سے کام جاری رکھا تو آج ان چند
کارکنوں کے کام بدولت نیلم ویلی میں سیاسی ماحول بننے لگے ہے گذشتہ سال
سابق امیدوار اسمبلی محمد اسرائیل قاضی شامل ہوئے دلی خوشی ہوئی اس دن سے
ایسا لگنے لگا تھا کہ شاہد اب ہم اپنے مہم کو زیادہ مطبوطی سے شروع کر سکیں
ووٹ بنک اہمیت نہیں رکھتا کام کرنے کے لیے نظریے کی ضرورت ہوتی ہے
ایمانداری اور دیانتداری کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس شخص میں موجود ہیں
خامیاں خوبیاں ہر شخص میں ہوتی ہیں کسی کو خامیاں سے پاک نہیں کہا جاسکتا
برے لوگوں میں ہمشہ نسبتا اچھے لوگوں کا انتخاب کیا جانا چاہیے ایک بات
حقیقت ہے اور اٹل حقیقت کہ اگر طوفانی طریقے سے سیاسی مہم کا آغاز کر دیا
گیا اور عمران خان کو نظریے نیلم ویلی کے نوجوانوں کو سمجھا دیا گیا تو پھر
نیلم ویلی سمیت کشمیر بھر میں انصاف پسندوں کا راج آنے سے کوئی نہیں روک
سکتا گذشتہ چند دنوں میں ساری اہم سیاسی شخصیات نے تحریک انصاف میں شمولیت
اختیار کی نیلم ویلی کوحقیقی معنوں میں قیادت کی ضرورت ہے اور عوام کی
امیدوں کا محور و مرکز بھی تحریک انصاف۔۔۔ قیادت میں اچھے لوگ ہوں تو قافلے
کا حصہ بن جانے میں کیا حرج ہے گذشتہ انتخابات میں بھی قاضی صاحب کی طرف
زیادہ جھکاؤ نوجوانوں کو تھا جھوٹی خبروں کی فیکٹریاں کچھ بھی کہیں وہ جھوٹ
نہیں بولیں گے تو اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کیسے رکھ سکیں گے لیکن عوامی
مقبولیت کا مجیعار نیلم ویلی میں بدل چکا ہے آئندہ انتخابات میں سٹیٹس کو
کی تمام جماعتیں اکحتی ہوکر بھی تحریک انصاف کے خلاف امیدوار لائیں تو فتح
نصیب نہیں ہونے لگی کیوں کہ نیلم ویلی کے باشعور لوگوں کو اس بات کا اندازہ
ہوچکا ہے کہ حقیقی قیادت کون سی ہوتی اور جعلی قیادت کون سی ہوتی روزانہ کی
تعداد پر نوجوان رابطہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ تحریک انصاف کے پلیٹ فارم
پر اکھٹے ہوئے کر سیاسی جہدوجہد کرنا چاہتے ہیں تبادلے تقرریوں کے نام پر
سیاست کرنے والوں نے عوام کو ایسی مصیبت میں ڈال دیا ہے جس سے نکلنا مشکل
ہوگیا ہے فریال تالپور کی آمد پر نیلم ویلی میں فلیگ مارچ کرنے والے ،
22ہزار ووٹ لے کر نیلم ویلی میں مدتوں بعد درشن دینے والوں کو نیلم ویلی کے
لوگ کسی بھی طرح نہیں بھول سکتے جعلی لیڈروں کو عوامی جذبات کا اندازہ نہیں
ہے ، نوجوان جاگ چکے ہیں ، نوجوان اب صرف نعرے نہیں صف میں آ کر قیادت کرنے
لگے ہیں اور میرا تو اس بات پر کامل ایمان ہے عوامی مسائل کے حل کا ناٹک کر
کہ عوامی مسائل میں آضافہ کرنے والے قانون سازی کے نام پر چیف ٹھیکدار بننے
والے ، ترقیاتی سکیموں میں کمیشن رکھنے والے نمائندوں کے راستے روک کر ان
سے حساب لیا جانا چاہیے عوام نے ان کو ووٹ تعلیم ، صحت اور سہولیات پوری
کرنے کے لیے دیا ہوتا ہے ظلم برپا کرنے کے لیے نہیں جس وزیر کے پاس اس بات
کا ختیار نہ ہو کہ وہ ایک سرکاری ملازم ہو کہ سیاسی لیڈر بننے سے روک سکے
جونمائندہ پولیس اور دیگر محکموں کے ملازمین کی بھرتیوں پر سیاست کرئے اس
کی قائدانہ صلاحیتیں کیا ہو سکتی ہیں اس بات کا اندازہ کوئی بھی شریف شہری
آسانی سے کر سکتا ہے قصہ مختصر یہ کہا گر کوئی یہ سوچ رہا ہو کہ وزیر تعلیم
اپنی وزارت اور شکست پانے والے امیدوار وفاقی حکومت کے اثر سے جیت جائے گا
تو ایسا کسی صورت نہیں ہونے لگا اس بار وہ فتح یاب ہوگا جس کے پاس عوامی
مسائل کے حل کا فارمولہ ہو اور اس پر عمل کرنا جانتا ہو نظریہ ہو سوچ ہو ان
چیزوں سے عاری لوگ قیادت کے اہل نہیں ہو سکتے سوات کا نوجوان مراد سعید
امیر مقام جیسے سیاسی وڈیرے کو شکست فاش کر سکتا ہے تو وادی نیلم میں ان کے
سیاسی ایجنٹوں کو شکست فاش ہونا کوئی نہیں بات نہیں ہوگی نیلم ویلی تیزی سے
بدل رہا ہے لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے اوراس بدلتی ہوئی سوچ میں نیلم ویلی کے
نمائندے عوامی مزاحمت کا ایسا سامنا کریں گے کہ اس سے پہلے کبھی انہوں نے
اتنی عوامی مزاحمت نہیں دیکھی ہوگی دیکھنا یہ بھی ہے کہ 29مارچ کو میرپور
میں بیرسٹر سلطان محمود سلطان بن کر سامنے آئے گا یہ نہیں ایک شعر کہ
مطمن ہیں سبھی قاتل کو مسیحا کہہ کر
حاکم شہر سے ایسی بھی عقیدت کیا ہے
میں تیرا شہر ہلا دوں گا انا الحق کہہ کر
تو مجھے سولی چڑھا دے تیری جرت کیا ہے |