حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں
آدمی علم کے اعلیٰ مرتبہ پر اس وقت ہو گا جب اپنے سے اوپر والے سے حسد نہ
کرے اور اپنے سے نیچے والے کو حقیر نہ سمجھے اور علم کے بدلہ میں کوئی قیمت
نہ چاہے۔
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں خود علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اور علم کے لیے
وقار اور سکون و اطمینان سیکھو اور جس سے علم سیکھو اس کے سامنے بھی تواضع
اختیار کرو اور جسے علم سکھاؤ اس کے سامنے بھی تواضع اختیار کرو اور متکبر
عالم نہ بنو۔ اس طرح تمہارا جہل تمہارے علم کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا بلکہ
ختم ہو جائے گا۔
قارئین مارچ کے مہینے میں خورشید ملت کے ایچ خورشید مرحوم کی یادیں لے
کرپوری کشمیری قوم ایک ایسے کردار کو یاد کرتی ہے جو کسی بھی قوم کیلئے ایک
اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے استاد اور دوست ریڈیو آزادکشمیر اور ایف
ایم 93میرپور کے سٹیشن ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل جو ریڈیو پاکستان میں دو
عشروں سے زائد عرصے سے کام کر رہے ہیں ان کا یہ قول ہے کہ کسی بھی شہر اور
قوم کی شناخت بڑے بڑے محل اور کوٹھیاں نہیں ہوتیں بلکہ اس قوم کے دانشور،
مشاہیر اور علماء اس کی پہچان ہوتے ہیں۔ کے ایچ خورشید مرحوم کا شمار بھی
ایسی شخصیات میں ہوتا ہے جو بیک وقت دانشور بھی تھے، عالم بھی تھے اور ان
کی شہرت کی بنیادی وجہ ان کی اصول پسندی اور کریکٹر تھا۔ بقول شاعر یہ کہتے
چلیں
فرصت ملے تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
قارئین اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اﷲ کے ایچ خورشید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ
مقام اور مرتبہ عطا فرمائے۔ آمین
آئیے اب ہم چلتے ہیں آج کے موضوع کی طرف ۔ آپ کے ذہن میں سوال ضرور اُٹھا
ہو گا کہ انصار نامہ کے دل دماغ اور پیٹ میں اب یہ کون سا غبار اُٹھا ہے کہ
کشمیر کو رائے ونڈ، لاڑکانہ اور بنی گالہ کی سیر کروا دی ہے تو آئیے ہم اس
انتہائی اہم سوال کا جواب دیتے ہیں۔ میرپور میں اس وقت آزادکشمیر کی اہم
ترین سیاسی جماعتوں کی ٹاپ لیول کی قیادت ضمنی الیکشن جیتنے کیلئے ’’تن ،من
اور دھن‘‘ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ کچھ جماعتیں ایسی ہیں کہ جنہوں نے تینوں
چیزوں کے علاوہ’’اور بھی بہت کچھ‘‘ داؤ پر لگانے کیلئے جمع کر رکھا ہے۔ اس
کی تفصیل بیان کرنے کا متحمل ہمارا کالم ہر گز نہیں ہو سکتا۔ لیکن عقل مند
کے لیے اشارہ کافی ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے پڑھنے والے
دوست ہم سے زیادہ عقل مند ہیں اور وہ یقینا ’’اور بہت کچھ‘‘ کا مطلب سمجھ
گئے ہوں گے۔
قارئین وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید ایک انتہائی خوش قسمت سیاسی
کارکن ہیں۔ اگرچہ ان کے مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید ’’ڈرامے باز‘‘ ہیں، کچھ سیاسی حریف انہیں آزادکشمیر کی تاریخ کا
’’کرپٹ ترین وزیراعظم‘‘ قرار دیتے ہیں، کچھ محبت کرنے والوں کے خیال میں
چوہدری عبدالمجید اپنی مرکزی قیادت کو ’’سیاسی رشوتیں‘‘ پیش کر کے اپنی
وزارت عظمیٰ کی کرسی بچائے بیٹھے ہیں اور اسی طرح الزامات یا ’’بہتانوں‘‘
کی ایک طویل فہرست ہے کہ اگر ہم وہ الزامات ہی آپ کے سامنے پیش کرنا شروع
کریں تو یہ کالم ناتمام ہو جائے گا۔ ہم نے یہ انتہائی ذمہ داری سے کہا ہے
کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ایک انتہائی خوش قسمت سیاسی کارکن ہیں۔ ان
میں’’ سٹیٹس مین ‘‘والی کوئی خوبی نہیں ہے، ان میں یہ بہت بڑی خامی موجود
ہے کہ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں پا سکتے اور اسی وجہ سے جوں ہی ان کا بلڈ
پریشر تھوڑا سا بڑھتا ہے وہ اپنے سامنے موجود لوگوں کو ’’کوثروتسنیم‘‘ سے
دھلی ہوئی زبان میں دھو کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کی حکومت کو بہت بڑی سپورٹ اس
وقت حاصل تھی جب وفاق میں ان کی پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری صدر
پاکستان کی حیثیت سے موجود تھے۔ 2013ء کے الیکشن کے بعد جب مسلم لیگ ن کی
حکومت بنی اور میاں محمد نواز شریف نے وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد
آزادکشمیر کا دورہ کیا تو ان کا استقبال کرتے ہوئے وزیراعظم چوہدری
عبدالمجید نے اس ’’عاجزی وانکساری‘‘ کا مظاہرہ کیا کہ جسے دیکھ کر راقم
سمیت تمام غیرت مند کشمیریوں کے سر شرم سے جھک گئے۔ آج بھی سوشل میڈیا اور
فیس بُک پر وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی وہ تصاویر پوری کشمیری قوم کیلئے
باعث تذلیل بن کر ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ جن میں تحریک آزادی کشمیر کے بیس
کیمپ آزادکشمیر کے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید وزیراعظم پاکستان میاں محمد
نواز شریف کا استقبال ’’تقریباً رکوع‘‘ کی کیفیت میں کر رہے ہیں۔ یہ بات
بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب جائنٹ سیشن میں وزیراعظم پاکستان شریک ہوئے تو
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے تقریر کرتے ہوئے وقار اور غیرت کی تمام
لکیریں عبور کر کے انہیں ’’حضرت میاں محمد نواز شریف‘‘ کا لقب دے ڈالا اور
اس پر وزیراعظم پاکستان بھی بری طرح ’’شرما‘‘ کر رہ گئے۔
قارئین ہم اپنی پہلی بات دوبارہ دہرا رہے ہیں کہ تمام خامیوں اور غلطیوں کے
باوجود وزیراعظم چوہدری عبدالمجید ایک انتہائی خوش قسمت سیاسی کارکن ہیں۔
جس عمر، صحت اور ذہنی وجسمانی کیفیت میں انہیں آزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ
سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی گئی اس کیفیت میں عموماً انسان کو یا تو
’’ریٹائر‘‘ کر دیا جاتا ہے اور یا پھر وہ خود ہی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی
اختیار کر لیتا ہے۔ اسی لیے ہم کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک انتہائی خوش قسمت
سیاسی کارکن ہیں کہ انتہائی ابتدائی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے وہ اس عمر، صحت
اور دیگر ’’کیفیات‘‘ کے باوجود سیاسی معراج تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس وقت آزادکشمیر میں تین اہم ترین سیاسی قوتیں آپس میں جنگ وجدل میں مصروف
ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن اور حال ہی میں یک دم جوان
ہونے والی پاکستان تحریک انصاف۔ مشکل حالات میں گرفتار ماضی کی واحد ریاستی
سوادِ اعظم جماعت آزادجموں کشمیر مسلم کانفرنس اب عہد رفتہ کی باتیں کرنے
والی قوم کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ سردار عتیق احمد خان جو اس جماعت کے صدر
ہیں ان کا موقف قومی میڈیاپر آتا رہتا ہے کہ آزادکشمیر میں کام کرنے والی
تمام غیر ریاستی جماعتیں اپنے ’’ہیڈ آفسز‘‘ کے احکامات کی پابند اور کٹھ
پتلیوں جیسی ہیں اور لاڑکانہ، رائے ونڈ اور بنی گالہ سے احکامات حاصل کر کے
ان کے اشاروں پر ’’پتلی تماشا‘‘ دکھاتی ہیں۔ میرپور کا ضمنی الیکشن ایک
لحاظ سے بڑا زبردست قسم کا ایونٹ بن چکا ہے ایک طرف چوہدری عبدالمجید
وزیراعظم آزادکشمیر اپنی کابینہ کے ’’لائق وفائق‘‘ وزراء کی فوج لے کر مسلم
کانفرنس سے ’’امپورٹ‘‘ کیے گئے ’’نوجیالے‘‘ چوہدری محمد اشرف کی الیکشن مہم
چلانے میں مصروف ہیں جدھر جاتے ہیں کشتوں کے پشتے لگا دیتے ہیں۔ سیاسی
وفاداریاں تبدیل کرنے اور کروانے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو
چکا ہے۔ کبھی پی ٹی آئی کی وکٹیں گرنے کی خبر لے کر سورج طلوع ہوتا ہے اور
کبھی پتہ چلتا ہے کہ سینکڑوں جیالے آج ’’انقلاب پسند‘‘ بن کر تیر سے دامن
چھڑا کر ’’بیٹ‘‘ تھام چکے ہیں اور اسی طرح سیاسی گردوغبار سے اٹے ہوئے
’’سیاسی میدان‘‘ سے شیر کے گرجنے کی آواز بھی ہر کوئی سن رہا ہے۔
قارئین ہم نے اس حوالے سے آزادکشمیر کے ایک عجیب وغریب کردار سے گفتگو کرنے
کیلئے کچھ وقت لیا۔ اس شخصیت کا نام راجہ فاروق حیدر خان ہے اور یہ
آزادکشمیر کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اور ’’شیر کے نشان والی‘‘ پاکستان
مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے مرکزی صدر بھی یہی ہیں۔ ان سے گفتگو کا سلسلہ شروع
ہوا تو ہم نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ راجہ فاروق حیدر خان نے اس موقع پر
کہا کہ میں آزادکشمیر کو تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ دیکھنا چاہتا ہوں
اور کشمیری قوم کی غیرت اور عزت پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں
ہوں۔ میرپور ضمنی الیکشن میں بیرسٹر سلطان اور چوہدری عبدالمجید کس منہ سے
لوگوں سے ووٹ مانگ رہے ہیں کہ اس علاقے کے سکونتی اور رہائشی ہونے کے
باوجود میرپور کی حالت زار سب کو دکھائی دے رہی ہے۔ چوہدری عبدالمجید کو
شرم آنی چاہیے کہ بلاول ہاؤس اور زرداری ہاؤس کے دو گھریلو ملازمین چوہدری
ریاض اور رضوان قریشی عملاً آزادکشمیر کی حکومت چلا رہے ہیں۔ کرپشن کی ایسی
ایسی داستانیں رقم کی گئی ہیں کہ جنہیں سن کر ذہن ماؤف ہو جاتا ہے۔
آزادکشمیر میں ہماری حسرت ہی رہی ہے کہ احتساب بیورو ایک مضبوط اور طاقت ور
ادارہ بنے اور ایسی بے قائدگیاں ہم وہاں سامنے لا کر انصاف حاصل کر سکیں۔
آزادکشمیر کے نوجوان اس وقت ڈگریاں تھامے جوتے چٹخا رہے ہیں۔ لیکن حکومت کو
تو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ پبلک سروس کمیشن تشکیل دیتے یہ کام بھی مسلم لیگ
ن نے معزز عدالت کے ذریعے کیا۔ راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ سردار عتیق
احمد خان کس منہ سے یہ کہتے ہیں کہ غیر ریاستی جماعتیں آزادکشمیر میں کام
نہیں کر سکتیں۔ ہم نے بہت مجبور ہو کر مسلم لیگ ن کے قیام کا فیصلہ کیا تھا
اور آج یہ بات کہتا چلوں کہ سردار عتیق احمد خان اور ان جیسے دوسرے لوگ
اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے ٹاؤٹ ہیں اور وقار اور غیرت کے احساس سے عاری
انسان ہیں۔ ہم نے کشمیری قوم کی غیرت اور وقار پر نہ تو کوئی سمجھوتہ کیا
ہے اور نہ ہی کبھی کریں گے۔ راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ ذاتی طور پر
عمران خان میرے اچھے دوست ہیں اور میں ان کے متعلق انتہائی اچھے جذبات
رکھتا ہوں لیکن ان کے اندازِ سیاست سے مجھے شدید ترین اختلاف ہے۔ ڈی چوک
اسلام آباد میں دھرنے کے دوران جس طرح پاکستانی ثقافت کے نام پر پاکستانی
بیٹیوں کو رقص کروایا گیا وہ باعث شرم ہے۔ آزادکشمیر کے لوگ انتہائی پروقار
اور غیرت مند انسان ہیں ہم آزادکشمیر میں بے غیرتی پر مبنی ایسا کلچر
امپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ میرپور کے شہریوں کو چاہیے کہ وہ شعور
اور آگاہی سے کام لیتے ہوئے ایسی قیاد ت کا انتخاب کریں جو ان کے مسائل حل
کروانے کی نیت، صلاحیت اور استعداد بھی رکھتی ہو۔ راجہ فاروق حیدر خان نے
کہا کہ مسلم لیگ ن آزادکشمیر اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں
ملکی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے اور آزادکشمیر میں جلد ہی تبدیلی آئے گی۔
قارئین راجہ فاروق حیدر خان صدر مسلم لیگ ن آزادکشمیر کی گفتگو کا لب لباب
ہم نے آپ کے سامنے رکھا ہے ہم نے محسوس کیا ہے کہ آج بھی کے ایچ خورشید
مرحوم کے سیاسی جانشین کشمیر کی دھرتی پر موجود ہیں۔ کرسی اور اقتدار ہر گز
ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جن کی خاطر انسان اپنا ضمیر اور ایمان فروخت کردے۔
سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان ہمیں اس حوالے سے ایک غیرت مند کشمیری
سپوت دکھائی دیئے ہیں۔ 80سالہ راجہ فاروق حیدر خان آج بھی کہتے ہیں کہ میں
آج بھی اپنے ’’خیمے‘‘ میں جا کر بچوں جیسی پرسکون نیند سوتا ہوں۔ سوچنے کی
بات یہ ہے کہ اربوں روپے لوٹنے والا وہ سیاستدان کہ جو بیماریوں کا ایک
’’مجموعہ اور مینابازار‘‘ بنا ہو وہ زیادہ بہتر ہے یا ایک ایسا انسان جو
غیرت اور خود داری کا مجسمہ بن کر آج بھی شیر کی طرح گرجتا ہو وہ زیادہ
بہتر ہے۔ یہاں بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
دل آشفتگاں خالِ کنج دہن کے
سویدا میں سیر عدم دیکھتے ہیں
ترے سروقامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں
تماشا کر اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے
کہ شب روکا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
قارئین آئیے اب کالم کے آخری حصے کی طرف چلتے ہیں ہم نے متعدد مواقع پر
بانی محاذ رائے شماری و نظریہِ ء خود مختار کشمیر عبدالخالق انصاری
ایڈووکیٹ مرحوم اور سابق چیف جسٹس آزادجموں کشمیر ہائی کورٹ سربراہ جموں
وکشمیر لبریشن لیگ عبدالمجید ملک سے تحریک آزادیِ کشمیر کے حوالے سے گفتگو
کی۔ ان دونوں شخصیات کا موقف ملتا جلتا ہے یہ دونوں شخصیات رائے کا اظہار
کرتی رہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل انتہائی سادہ اور آسان ہے کہ آزادکشمیر اور
مقبوضہ کشمیر سے غیر ملکی فوجیں چلی جائیں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں
کشمیری قوم اپنی رائے کا اظہار کر دے کہ وہ پاکستان کا حصہ بننا چاہتی ہے،
ہندوستان میں شمولیت بہتر سمجھتی ہے یا ایک آزادملک کی حیثیت سے کشمیر کو
دنیا کے نقشے پر دیکھنا چاہتی ہے۔ جسٹس عبدالمجید ملک نے متعدد بار راقم سے
گفتگو کرتے ہوئے آن ریکارڈ یہ کہا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو کام
ایک سازش کے تحت کرتے ہوئے کیا پاکستان نے وہی کام لاشعوری طور پر بھولے پن
میں کر دیا اور وہ کام ریاست میں غیر ریاستی جماعتوں کی تشکیل تھا۔ ہم درد
دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں مخلص شہیدوں
کا لہو باوجود اس قوم کی بڑی بڑی غلطیوں کے آج تک پاکستان کو بچائے ہوئے ہے
اسی طرح تحریک آزادی کشمیر کی زندگی کی واحد وجہ ان مخلص اور صاحب ایمان
لاکھوں کشمیری شہدا کا مقدس لہو ہے ورنہ بیس کیمپ کے ’’کرسی کے پجاریوں‘‘
اور غیرت اور وقار سے عاری ہوس پرست لیڈروں نے تو کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے۔
فیصلہ پڑھنے والے خود کریں کہ براہ راست قومی جدوجہد کر کے کشمیری قوم
آزادی حاصل کرنا چاہتی ہے یا ’’لاڑکانہ، رائے ونڈ اور بنی گالہ‘‘ کے راستے
آزادی کا سفر زیادہ آسان اور غیرت پر مبنی ہو گا۔ آخر میں حسبِ روایت لطیفہ
پیش خدمت ہے۔
ایک کاہل اور کام چور دوست نے اپنے دوست سے کہا
’’یار آج صبح جب میری آنکھ کھلی تو بے اختیار دل چاہا کہ فوراً باہر نکلوں
اور نوکری تلاش کروں‘‘
دوسرے دوست نے حیرانگی سے پوچھا
’’تو کیا تم نے اس خواہش پر عمل کیا‘‘
کاہل دوست نے فخر سے جواب دیا
’’نہیں میں اس وقت تک بستر پر لیٹا رہا جب تک یہ خواہش دل سے نہ نکل گئی‘‘
قارئین ہزاروں خواہشیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں مکمل کرنے کیلئے انسان سب
کچھ کر گزرتا ہے اور ہزاروں خواہشیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جو دم نکلنے تک
بس ارمان ہی بنی رہتی ہیں اور روح کے ساتھ جسم سے نکل جاتی ہیں۔ ہمیں یقین
ہے کہ کشمیری قوم کی آزادی کی خواہش ضرور پوری ہو گی۔ |