پولیس کلچر
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
مار دو سالوں کومیں نے بھی
سپاہیوں کو حکم دے دیا کہ جو سامنے آئے اسے گولی ماردو بھلا یہ کوئی بات
ہوئی کہ دو دن کے ہنگامے میں بیس سے زائد پٹھانوں کی گاڑیاں جلا دی گئیں یہ
جملے ڈی ایس پی لیاقت آباد کے تھے ان کے سامنے میں ، ایس ایچ او لیاقت آباد
اور کچھ دوسرے لوگ تھے۔ وہ ڈی ایس پی شاید نشے میں تھا یہ سال 1986کے اس دن
کی بات ہے جب بشرا زیدی کی ٹریفک حادثے میں ہلاکت ہوئی تھی اور شہر میں
ہنگامے ہو رہے تھے بسیں اور ٹرانسپورٹ وغیرہ جلائی جارہی تھیں دو روز کے
ہنگامے ازخوٹھنڈے ہونے جارہے تھے کہ اس دن لیاقت آباد میں پولیس نے پہلی
بار ٹارگٹ کر کے آٹھ نوجوانوں کو جو کوئی ہنگامہ نہیں کررہے تھے انھیں برا
ہ راست گولیوں کا نشانہ بنایا لوگوں نے ان دو پولیس والوں کے نام بھی بتائے
یہ جان بوجھ کر کیا گیا شاید کوئی منظم منصوبہ تھا کہ ان فسادات کو لسانی
رنگ دیاجائے ورنہ تو اس وقت بھی یہ ہنگامے ایسے ہی ہورہے تھے جیسے کہ روٹین
میں ہوتے تھے وہ ڈی ایس پی پشتو اسپیکنگ تھا اور یہ بات تھانے سے نکل کر
لیاقت آباد کے عوام تک پہنچ گئی کہ اس ڈی ایس پی نے جان بوجھ کر اپنے آرڈر
سے یہ قتل عام کروایا ہے ۔وہ میرے سامنے اس لیے یہ بات کہہ گیا کہ وہ مجھے
بھی پولیس ڈپارٹمنٹ کا بندہ سمجھ رہا تھا وہ تو جب ایس ایچ او جو مجھے
جانتا تھا ،نے یہ دیکھا کہ صاحب تو بولے چلے جارہے ہیں اس نے درمیان میں
بات کاٹ کر ڈی ایس پی سے میرا تعارف کرایا کہ صاحب یہ ہمارے جاوید صاحب ہیں
اور جماعت اسلامی کی طرف سے کونسلر ہیں ۔یہ سن کر وہ بالکل خاموش ہو گیا
پھر اس کے بعد کوئی بات نہیں کی جیسے اے چپ لگ گئی ہو۔دوسرے دن وہ دفتر
نہیں آیا پہلے رخصت لی پھر اپنا ٹرانسفر کرالیا کہ اس کے خلاف لیاقت آباد
کی دیواروں پر نعرے لکھے ہوئے تھے کہ۔۔۔۔ڈی ایس پی کو دس نمبر کے چوراہے پر
پھانسی دی جائے۔اس وقت میں اس سوچ میں پڑگیا کہ ٹریفک کے حادثات تو ہوتے
رہتے ہیں ،لیکن اس حادثے کا رخ ایک منظم منصوبے کے تحت لسانی فسادات کی طرف
موڑا جا رہا ہے اور یہ کہ انتظامیہ اس میں کیسے اپنا رول ادا کرتی ہیڈی ایس
پی کی گفتگو اس کا عکاس تھیں ۔
پولیس کا مزاج بدلے تو کیسے بدلے کے عنوان سے ملک کے معروف کالم نگارکا
آرٹیکل دیکھنے کو ملا تو کچھ باتیں یادیں اور مشاہدات ہماری نظروں کے سامنے
بھی گھوم گئے،جس کی ایک مثال اوپر دی گئی ہے ۔ایک واقعہ سعودی عرب کا ہے اب
سے آٹھ سال قبل ہم عمرہ کے لیے گئے ہوئے تھے ایک دن اپنی رہائشگاہ سے حرم
کی طرف جارہے تھے کہ ایک جگہ کچھ رش دیکھا معلوم ہوا کہ اس ہوٹل کے ایک
ملازم کو پولیس لے گئی ہے ،موجود لوگوں نے جو مقامی لوگ نہیں تھے ہوٹل والے
سے کہا کہ تم جاؤ اپنے آدمی کو تھانے سے چھڑا کرلاؤ،ہوٹل والے نے جواب دیا
یہ کوئی پاکستان تھوڑی ہے ہماے آدمی سے پوچھ گچھ ہوگی وہ بے قصور ہے اس لیے
خود ہی واپس آجائے گا ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے پھر بعد میں لوگوں
نے بتایا کہ وہ شخص تھوڑی دیر بعد واپس آگیا ،پاکستان میں اگر کوئی شخص
تھانے چلا گیا چاہے وہ بے قصور ہی کیوں نہ ہو لیکن تھانے اسے واپس لانے کے
لیے کوئی بڑی پہنچ یا پھر بڑی رقم درکارہوتی ہے ۔
پولیس کا محکمہ ایک ظالم محکمے کی حیثیت سے معروف ہے لیکن یہ جتنا ظالم
محکمہ ہے اتنا ہی مظلوم بھی ہے یہی مظلومیت کیا کم ہے کہ 1992کے کراچی
آپریشن میں جن پولیس والوں نے حصہ لیا تھا وہ سب ایک ایک کر کے ٹارگٹ کلنگ
کا شکار ہو گئے لیکن کسی ایک کے بھی قاتل کو سزا تو دور کی بات ہے پکڑا تک
نہیں گیا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے پیٹی بھائیوں کے مجرموں کے ساتھ ہمارے
پولیس کے ادارے کی یہ کارکردگی ہے تو عام افراد کے بارے میں شکایت کرنابے
کار ہے پھر کسی مقتول پولیس کے یتیم بچوں اور بیوہ کے حوالے سے اس محکمے کے
متعلقہ ذمہ داران کی بے حسی کے بارے شکایات عام ہیں ۔پھر اس ادارے میں کام
کرنے والوں کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا کراچی آپریشن میں جن پولیس والوں
نے اپنی جان پر کھیل کر اہم رول ادا کیا وہ اگر ایسا نہ کرتے تو کراچی میں
امن و امان کی بحالی مشکل تھی جو لوگ اس وقت کے حالات سے واقف ہیں وہ اچھی
طرح جانتے ہیں کہ تین تین دن کی ہڑتال سے لوگ پریشان ہورہے تھے اور پھر ان
ہڑتالوں کے اثرات بھی کم ہوتے جارہے تھے ۔پھر ان پولیس والوں نے اپنی مرضی
سے کوئی کام نہیں کیا بلکہ جو اوپر سے حکم ملا اس کی اطاعت کی اگر ان کی
جگہ پولیس سے شاکی ایک لسانی تنظیم کو لوگ بھی ہوتے تو وہ بھی بات ماننے پر
مجبور ہوتے ۔
یوں تو پورے ملک میں پولیس کا کلچر ایک ہی جیسا ہے جو کچھ تھانوں میں شریف
لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے اس کا اندازہ تو ان سنجیدہ اور شریف لوگوں کو ضرور
ہو گا جو کبھی کسی حوالے سے تھانے گئے ہو ں۔ایک دفعہ میں کسی کام سے تھانے
گیا وہاں ایک پڑھے لکھے بزرگ جو محلے میں حکیم بھی تھے کسی مسئلے میں تھانے
میں کھڑے تھے انھوں نے بس اے ایس آئی سے اتنا کہا کہ ذرا میرا کیس جلدی
دیکھ لیں مجھے جانا ہے اس پولیس والے نے اتنے فرعونیت والے انداز میں انھیں
گالیوں سے نوازا کہ حقیقتاَ ان کے پسینے چھوٹ گئے وہ رومال نکال کر اپنی
پیشانی کا بہتا ہوا پسینہ پونچھنے لگے ۔مجھے اس کا بڑا دکھ ہوا اس پولیس
والے سے تو کچھ نہیں کہا لیکن بعد میں جب میری انچارج سے ملاقات ہوئی تو
پولیس والے کے اس طرزعمل کی شکایت کی ۔اس طرح کا کلچر پورے ملک میں ہے
۔لیکن کراچی میں کچھ صورتحال اس سے مختلف ہے ۔پاکستان کی تمام زبانیں بہت
میٹھی اور اور ایک خوبصورت پھولوں کا گلدستہ ہیں ۔پنجابی بھی بہت میٹھی اور
سوندھی زبان ہے ۔اسی طرح پنجاب کے لوگ بھی سیدھے سادے اور بھولے بھالے لوگ
ہیں ہمارے ایک دوست اپنے یادداشتوں پر مشتمل واقعات میں سے ایک واقعہ سناتے
ہیں کہ وہ جب چار سال کے تھے اور اپنی والدہ کے ساتھ بھارت سے پاکستان ہجرت
کرکے آرہے تھے ۔لاہور اسٹیشن پر ان کی ٹرین رکی تو انھوں نے دیکھا کہ لاہور
کے شہری ہندوستان سے آنے والے لوگوں کے لیے اپنے گھروں سے سالن اور روٹیاں
پکا کر لائے تھے اور مہاجروں کو کھانا دے رہے تھے بلکہ بعض لوگ تو اپنے
سروں پر سالن کی پتیلی اور روٹی کی ٹوکری لیے آواز لگاتے ہوئے جارہے تھے کہ
کھانالے لو ،کھانا لے لو۔پنجاب کے لوگوں کی اس محبت نے انصار و مہاجرین کی
یاد تازہ کردی تھی ۔پنجاب کے لوگ اور ان کی زبان کے بارے میں یہ تاثر ابھی
تک قائم تھا ،لیکن اس تاثر کو اگر کوئی نقصان پہنچاہے تو وہ کراچی پولیس کے
رویے سے پہنچا ہے ۔میں ایک دفعہ ایس ایچ او کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ
پولیس کے لوگ کسی ہنگامے میں کچھ نوجوانوں کو پکڑکر تھانے لائے روایتی
انداز میں غلیظ قسم کی گالیاں تو پولیس اہلکار بک ہی رہے تھے لیکن اس کے
ساتھ وہ ایک کمیونٹی کا نام بھی لے رہے تھے ۔ میں نے ایس ایچ او سے کہا کہ
کراچی میں زبان کی بنیادوں پر لسانی تنظیم کی تشکیل میں کراچی پولیس کے
ظالمانہ رویوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے ،جن بے قصور لوگوں کو آپ تھانے میں
پکڑ کر لاتے ہیں وہ عام سیدھے سادے غیر جانبدار ہوتے ہیں جن کا کسی تنظیم
سے کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن جب وہ تھانے سے نکل کر جاتے ہیں تو ایک لسانی
تنظیم کے کارکن بن چکے ہوتے ہیں ۔ |
|