سینٹ 2013کے انتخابات مکمل ہو
گئے۔میڈیا میں ہاہا کار مچی رہی،یہ بک رہا ہے وہ بیچ رہا ہے،فلاں بک گیا ،فلاں
مکر گیا، اسمبلیاں توڑ دیں گے یہ سب سینٹ انتخابات سے قبل ہر ایک ٹی وی
چینل کا پسندیدہ موضوع تھا۔اس دوران انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد
سیاستدانوں کو احساس ہوا کہ ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کے لئے قانون سازی کا
خیال آیا البتہ یہ خیا ل خیال ہی رہا اور بائیسویں ترمیم منظور نہ ہو سکی
لیکن حکمران کی پارٹی نے اس سے بھی بڑھ کے کارنامہ سرانجام دینے کاٹھانا او
ر فاٹا کے لئے وقت تہجد ایک صدارتی آرڈینیس جاری کروا دیا جلالی میاں دور
کی کوڑی لائے کہ قوم کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ وہ پریشان نہ ہو صدر
متحرم تہجدگزار ہیں لہذا وہ قوم کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں تاکہ قوم کے
مسائل حل ہو جائیں۔خیر یہ صدارتی آرڈینینس اب واپس لے لیا گیا ہے۔ہارس
ٹریڈنگ سے بچنے کے لئے ’’خالی پرچیاں‘‘ بھی بیلٹ باکس سے برآمد ہوئے اور
یوں ہارس ٹریڈنگ کو ایک اور بے اصولی کر کے روکا گیا۔البتہ بلوچستان قبائلی
لسانی اور بالخصوص نظر انداز کرنے کی وجہ سے کچھ ’’اپ سیٹ‘‘ہوا۔ سندھ اور
پنجاب میں چند ووٹ اِدھراَدھرہوئے جنہوں نے ووٹ اِدھر اَدھرکیئے ان کا مسلۂ
بادی النظر میں نظراندازی ہی سمجھ آتا ہے۔خیر سینٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا
اور کسی بڑے اپ سیٹ سے یہ انتخاب بچا رہا۔دوسرے مرحلہ یعنی چیئرمین و ڈپٹی
چیئرمین سینٹ کے حوالے سے باتیں ہونا شروع ہوگئیں کہ کچھ ’’ماہرینِ
باؤتاؤ‘‘اس دوران حکومت سے ’’کافی کچھ‘‘ اینٹھنے کا پروگرام بنائے بیٹھے
ہیں۔لیکن حکومت یقین آصف زرداری کی مشکور ہو گی کہ اس مشکل سے حکومت کو ’’مفاہمت‘‘
کے ذریعے آصف زرداری نے بچا لیا۔یوں چیئرمین سینٹ کی کرسی پر رضاربانی
متمکن ہوئے جو یقین اس کرسی کے لئے بھی باعث فخر ہو گی کہ ایک بااصول نڈر
اور ذہین سیاستدان اس پر جلوہ افروز ہو رہا ہے۔ڈپٹی چیئرمین کے لئے البتہ
ایک ’’ماہر‘‘ کچھ نہ کچھ وصول کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ان انتخابات میں
حسب سابق ’’تبدیلی فیم‘‘ کی جانب سے ’’یوٹرنز ‘‘ کا سلسلہ جاری رہا البتہ
خوشگوار بات یہ ہے کہ تحریک انصاف قومی اداروں میں ’’باعزت‘‘ واپس آگئی ہے
اور پھر سے قومی دھارے میں شامل ہو گئی ہے۔لیکن معترضین پھر بھی باز نہیں
آئے اور سوال اٹھا دیا کہ اگر پنجا ب میں ندیم افضل چن اپنے عددی لحاظ سے
زیادہ ووٹ لے لیں تو ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ اور انہی سینٹ انتخابات کے دوسرے
مرحلہ میں شبلی فراز اپنے عددی لحاظ سے زیادہ ووٹ لے لیں تو یہ ’’تبدیلی‘‘
اس تضاد کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔ اس الجھن کو رفع کرنے کے لئے جب یہ سوال
جلالی میاں کے سامنے اٹھایاگیا تو جواب ایک ایسا روزمرہ جملہ تھا کہ جو
یہاں تحریر کرنا شائستہ معلوم نہیں ہوتا۔
رضاربانی ایسے باکرداراور با اصول شخص کہ جن کے ان خواص کا معترف ہر ایک ہے۔
ان سے کچھ نہ کچھ بہتری کی امید کی جانے چاہئے لیکن نامعلوم کیوں عباسی
بادشاہوں کے مرید ومعتقید تعصب میں اتنے اندھے ہو رہے ہیں کہ کسی بھی
معاملہ میں ان کو خیر کا پہلو نظر نہ آتا ہے۔ باوجود اس کے کہ جس عارف سے
وہ فیض کا برملہ اظہار کرتے ہیں اسی عارف کا کچھ یوں کہنا ہے کہ تعصب جہالت
ہے ۔ خیر سینٹ کا یہ انتخاب مکمل ہو چکا ہے سوائے فاٹا کی چار نشستوں کے کہ
جن کا انتخاب اگلے چند دن میں ہو جائے گا۔اب یہ بات تو قصہ ماضی بنتا جا
رہا ہے کہ کس کی منصوبہ بندی کامیاب رہی،کس نے اپنی ووٹ کو بچائے رکھا،کس
کے گھوڑے بھاگ گئے،کس پتہ سامنے آنے سے قبل ہی پِٹ گئے،کون سب پر بھاری
رہاہے اور کون کون نقصان سے دوچار ہوا۔
موجودہ حکومت کو اب کے سینٹ میں پھر آصف زرداری کا مفاہمتی رویہ کافی
مشکلات سے بچا گیا ورنہ نظر تو یہ آرہا تھا کہ جس طرح رات کی سیاہی میں
’’صدارتی آرڈنیینس‘‘ کی جھک ماری اس سے بڑا بلنڈر وہ چیئرمین و ڈپٹی
چیئرمین کے انتخابات میں کرے گی۔ مگر اس آڑے وقت میں آصف زرداری کی منصوبہ
بندی جہاں بھاری رہی وہاں حکومت کو بھی مشکلات میں پھنسنے سے بچا گئی۔اس سے
قبل دھرنہ سیزن کے دوران بھی اپوزیشن کے تعاون سے ہی یہ جمہوری سیٹ اپ بچ
سکا تھا ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ حکومت یعنی مسلم لیگ ن کو ہوا۔ان دو مواقع
پر جس طر ح کا تعاون سیاستدانوں میں نظر آیا اس قبل وہ صرف اور صرف اپنی
تنخواہیں اور مراعات بڑھوانے کے موقعہ پر ہی نظر آتا تھا۔ہماری دعا ہے یہ
مفاہمت و یکجہتی جو ان دو مواقع پر تمام جماعتوں میں ہوئی جس کے نتیجہ میں
تمام سیاسی پارٹیوں کو کسی نہ کسی رنگ میں فائد ہ حاصل ہوا وہاں یہ
راہنمایان قوم کس موقع پر دہشت گردی،بھوک،افلاس،کرپشن، تعلیم وصحت کی گرتی
صورتحال،تیزی سے سکڑتا سفید پوش طبقہ، غریب کی غریت میں دن دگنی رات چگنی
تیزی،بجلی گم،گیس کمیاب،بڑھتی خودکشیاں اس نوع کے دیگر مسائل کے جن سے ہر
پاکستانی نبردآزما ہے۔ ان کے خلاف بھی متحد ہو جائیں کہ اس ملک عزیز کی ہر
مریم وآصفہ اور ہر بلاول وحمزہ کا آنیوالا کل روشن ہو۔ بقول احمد ندیم
قاسمی
خدا کرے کہ میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل کہ جسے اندیشہ زوال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کیلئے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو |