پاکستانی سیاست کا سپر مین…… آصف علی زرداری
(Anwar Abbas Anwar, Lahore)
میاں رضا ربانی کے چیئرمین سینٹ
منتخب ہونے کے ساتھ ہی سینٹ کے انتخابات کا آخری مرحلہ بھی مکمل ہو گیا ،
ان انتخابات میں سابق صدر آسف علی زرداری کا پلڑا بھاری رہا انہوں نے اپنے
پتے صحیح طرح اور وقت کی ضرورت کے مطابق کھیلے۔اس گیم میں سب سے زیادہ
حیران کن بات یہ ہے کہ بلوچستان سے مسلم لیگی امیدوار کو شکست دیکر جیتنے
والے یوسف بادینی نے حکمران جماعت مین شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ وہ پیپلز
پارٹی میں شامل ہوئے، ہماری ملکی تاریخ شاہد ہے کہ آزاد جیتنے والے ارکان
پارلیمنٹ کی اولین ترجیح حکمران جماعت رہی ہے۔ لیکن اس بار اس روایت کے
برعکس ہوا ہے۔ میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینٹ اور اپنے پرانے اتحادی
مولانا فضل الررحمن کی جماعت کے اہم رکن مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی
چیئرمین منتخب کروا کر پیپلز پارٹی نے سینٹ کے حوالے سے اپنے اقتدار کو
برقرار رکھا ہے۔سابق صدر آصف علی زرداری کی طرز سیاست اور ان کی دوستی کے
اصولوں پر گہری نظر رکھنے والے بخوبی اس بات سے آگاہ تھے کہ ڈپٹی چیئرمین
سینٹ کون ہوگا؟ زرداری صاحب کی درخواست پر اس نام کو صیغہ راز میں رکھا گیا
تھا لیکن خود کو دنیا جہاں کے سب سے زیادہ باخبر سمجھنے والے بعض صحافیوں
کا اصرار تھا کہ’’ ڈ پٹی چیئرمین سینٹ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک نو
منتخب خاتون سینٹر ہوں گی‘‘ اس خبر کو انہوں نے بریکنگ نیوز کے طور پر بھی
چلایا۔ لیکن سینٹ کا اجلاس ہوا اور ڈپٹی چیئرمین کی نامزدگی ہوئی تو سب
حیران پریشان رہ گئے۔ فیصلہ تو اسی دن ہو گیا تھا جب ’’ زارداری نے مسلم
لیگ نواز کو پیش کش کی تھی کہ پنجاب سے ایک سینٹ کی نشست دے دیں اور سینٹ
کی چیئرمین شپ لے لیں ‘‘ لیکن مسلم لیگ نواز کی قیادت نے حقارت اور تکبرسے
اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا ۔ اس وقت شائد مسلم لیگ کی قیادت کا خیال تھا
کہ ہم پنجاب کی طرح بلوچستان سے بھی کلین سویپ کریں گے۔ اور دو چار نشستیں
خیبر پختونکواہ سے بھی تحریک انصاف سے ہتھیا لی جائیں گی۔مگر وہاں عمران
خاں کی ذاتی توجہ اور دل چسپی کے باعث ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ خیبر پختونخواہ
میں تو نوٹوں سے بھرے بریف کیسوں کی مدد سے برسوں سے ناقابل شکست رہنے والے
’’ گلزار احمد خان اور اس کے فرزندگان ‘‘ کو پہلی بار شکست کا منہ دیکھنا
پرا ہے ۔وہاں سے نواز شریف کو کیا ملتا۔ سننے میں تو یہ بھی آ رہا ہے کہ
قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد شیر پاو کو گلزار خان فیملی سے لیا
گیا عطیاتی فنڈ واپس کرنا پڑرہا ہے۔کیونکہ شیرپاؤ صاحب کی پارٹی کے اراکین
اسمبلی نے انہیں ووٹ نہیں دیئے ۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی
،مسلم لیگ قائداعظم ، مولانا فضل الررحمن ، ایم کیوایم سمیت دیگر اتحادیوں
کا اتحاد زیادہ دیر قائم رہ پائے گا؟ مجھے اس اتحاد کے قائم رہنے میں کسی
قسم کی رکاوٹ دکھائی نہیں دے رہی۔اور نہ ہی کوئی شک و شبہ کی گنجائش نکلتی
نظر آتی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس اتحاد کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز
پارٹی اور ایم کیو ایم کی آزمائش کا وقت آیا تھا جب نائن زیرو پر چھاپہ
مارا گیا اور وہاں سے بھاری مقدار میں جدید ترین اسلحہ اور سنگین مقدمات
میں ملوث افراد کو گرفتار بھی کرنے کے دعوے کیے گئے۔ نائن زیرو سے گرفتار
کیے جانے والوں میں عامر خان بھی شامل ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی نے سینٹ سے
ایم کیو ایم کے ساتھ واک آوٹ کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ
جیئے اور مرے گی۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے دو بار لندن فون کر کے الطاف
حسین سے اس واقعہ پر اظہار افسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے آئندہ کے لائحہ
عمل پر بھی مشاورت کی۔اور امر کا اعادہ کیا کہ پیپلز پارٹی ان کے شانہ
بشانہ کندھے سے کندھا ملا کر چلے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ایم
کیو ایم کی قیادت کو آنے والے خطرات کا ادراک تھا۔ اسی لیے دونوں جماعتوں
نے ماضی کی تلخیاں فراموش کرکے آنے والے ’’ برے دنوں‘‘سے نبٹنے کی حکمت
عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ مسلم لیگ قائد اعظم کے سربراہ چودہری شجاعت حسین
اور پرویز الہی بھی سابق صدر آصف علی زرداری کے وعدوں کی پاسداری کرنے کے
معترف ہیں، اور مسلم لیگ قائد اعظم کو زرداری صاحب سے کوئی شکو ہ اور گلہ
نہیں ہے۔کیونکہ سابق صدر نے جو بھی ان سے وعدے کیے انہیں نبھایا ہے…… رہا
سوال مولانا فضل الررحمن کا تو انکا آصف علی زرداری سے ’’رومانس‘‘ راز نہیں۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ مولانا صاحب کی ضروریات اور مطالبات پورا کرنامسلم
لیگ نواز کے بس کا روگ نہیں ہے ویسے بھی مولانا فضل الررحمن صاف اور شفاف
کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف وعدوں کی پاسداری نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے
کہ اتنی دلیلیں کافی ہیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو
ایم سمیت دیگر جماعتوں کا پیپلز پارٹی سے اتحاد غیر دیرپا اور وقتی نہیں
بلکہ دیرپا اور کل وقتی ثابت ہوگا۔جہاں تک تعلق ہے ایم کیو ایم اور پیپلز
پارٹی کے مابین ماضی میں ہونے والی ’’ جنگ وجدل‘‘ کی تو بقول قائد ایم کیو
ایم الطاف حسین ’’ وہ نونک جھونک‘‘ ہے ہم نے سندھ دھرتی پر رہنا اور مرنا
ہے اس لیے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ایک دوسرے سے الگ نہیں رہ سکتیں۔ یہ
بات ان دونوں جماعتوں کے ناقدین اور مخالفین بھی بخوبی جانتے ہیں۔میرے خیال
میں ان حلقوں کو اپنی رائے پر نظر ثانی کر لینی چاہیے جو یہ تصور کیے بیٹھے
ہیں کہ سینٹ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قائد اعظم سمیت
دیگر کا اتحاد زیادہ دیر قائم نہیں رہے گا۔کیونکہ انہیں زمینی حقائق اور
آصف علی زرداری کی سیاست سے ، ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کی ’’ ضروریات
سیاست‘‘ کا ادراک نہیں ہے…… ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرے کے خالق نے
زرداری میں کچھ دیکھ اور سوچ سمجھ کر ہی اس نعرے کو بلند کیا ہوگا۔میں تو
وزیر اعظم نواز شریف کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتا ہوں کہ انہوں نے بے شک
’’مچھلی پتھر چاٹ کر واپس آنے‘‘ کے مصداق ہی سہی سب کچھ حاصل کرنے کے لیے
’’اپنا سب کچھ‘‘ داؤ پر لگانے کی سعی فضول نہیں کی اور سینٹ کے ارکان کے
فیصلے کو تسلیم کرلیا اور آج وہ بھی ’’واہ واہ‘‘ کی داد تحسین پائے رہے
ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف کا سابق صدر آصف علی زرداری کو پاکستانی سیاست کا
چیمپئن اور سپر مین تسلیم کرنا حقائق کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے۔
|
|