کراچی روشنیوں کا شہر

پاکستان کو قدرت نے نہ صرف چاروں موسموں سے نوازا ہے بلکہ ایسی خوبصورت زمین بھی دی ہے جو معدنیات سے بھری پڑی ہے۔ جہاں بھی معدنیات کی تلاش کے لئے کھدائی ہوئی، قدرت نے پاکستان کو انمول خزانوں سے نوازا۔ بلوچستان کے پہاڑوں سے لے کر شمالی علاقہ جات ، خیبر پختونخواہ اور سندھ کی ساحلی پٹی معدنیات سے مالا مال ہے اور اب حال ہی میں پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے ، چاندی، لوہے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی دریافت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے پاکستانی عوام کے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔ ماضی میں قدرت کے ان خزانوں کو استعمال میں لانے کے لئے خاطر خواہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ ان قدرتی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ گوکہ پاکستان کے پاس وسائل کم ہیں لیکن خلوص نیت اور بھرپور منصوبہ بندی سے ان معدنیات کو نکالا جاسکتا ہے جو قومی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اگر اب بھی ہم نے اس طرف توجہ نہ دی تو پھر ہماری قوم کا اﷲ ہی حافظ ہے قوم امید کرتی ہے کہ موجودہ حکومت محدود وسائل کے باوجود ان قدرتی وسائل کو استعمال میں لانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرے گی۔ مگر ان کے برعکس کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ یہاں آبادی اور معاشی لحاظ سے اس کی اہمیت ہمیشہ بڑھتی رہی ہے۔ کراچی کسی زمانے میں ایک پر امن شہر ہوا کرتا تھا۔ لوگ اسے روشنیوں کا شہر بھی کہا کرتے تھے۔ پھر اسے کسی کی نظر لگ گئی۔ اگرچہ شہر کی آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھتی گئی۔ اس میں معاشی سرگرمیاں بھی بڑھتی گئیں لیکن اس میں آگ اور خون کا کھیل شروع ہو گیا۔ اگرچہ اس میں استعمال ہونے والے ایندھن کا کام خود پاکستانیوں نے کیا لیکن اس کی منصوبہ بندی، اس کے وسائل اور دہشت گردوں کی تربیت کچھ بیرونی دشمنوں نے کی۔ پچھلی دہائی میں کراچی میں وہ کشت و خون ہوا ہے کہ اس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔ ایسا لگتا تھا کہ خدانخواستہ اس شہر کی روشنیاں پھر کبھی واپس نہیں آئیں گی لیکن پچھلے سال سے اس شہر میں حالات کی بہتری کی طرف اٹھنے والے کچھ اقدامات کیے گئے۔ ان میں سب سے اہم اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے انتظامیہ اور پولیس کو ہدایات، تعاون اور قانونی پہلوؤں سے آگے بڑھنے کے احکامات تھے۔ وقتاًفوقتاً ان اقدامات کی پڑتال اور ان پر آگے بڑھنے کی رفتار کا بھی جائزہ لیا جاتا رہا۔ دوسرا قدم حکومت کی طرف سے مکمل تعاون تھا۔ مرکزی حکومت نے اپنے تمام تر وسائل صوبائی حکومت کو دیے تا کہ اس سلسلے میں تیزی کے ساتھ پیش رفت ہو سکے۔ تیسرا قدم معلومات کا تبادلہ نہ صرف اعلیٰ سطح پر بلکہ آپریشنل سطح پر بھی معلومات کے تبادلے کے لیے مؤثر رابطے پیدا کیے گئے۔ اس قدم سے فوج، سول، مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کی تمام ایجنسیوں نے مل کر کام کرنا شروع کیا۔ اس کے بڑے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ جن کے نتیجے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بروقت معلومات ملیں اور انہوں نے کئی بڑے آپریشن کر کے قبل از وقت مجرموں اور دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔ حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی فری ہینڈ دیا اور کوشش کی گئی کہ اچھے اور معتدل افسران کی تعیناتی کی جائے۔ اس سے بھی معاملات میں کسی حد تک بہتری آئی۔ اگرچہ پولیس کو وعدے اور منصوبہ بندی کے مطابق وہ وسائل تو فراہم نہ کیے جا سکے لیکن ماضی کی روایات سے ہٹ کر بہتر وسائل دیے گئے۔ کراچی میں رینجرز کو پولیس کے اختیارات دیے گئے۔ اگرچہ اس سے بعض اوقات معاملات خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے ذمہ داری اور اختیارات کے تعین میں مشکلات آتی ہیں لیکن غیر معمولی حالات میں اس سے بھی خاطر خواہ بہتری آئی۔ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کی بڑی تصویر دیکھی جائے تو اسے تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا لیکن بہرحال پہلے کے حالات سے مقابلہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صورت حال یقیناًبہتری کی طرف گامزن ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق جب سے مرکزی حکومت اور دیگر اداروں کے تعاون سے آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اب تک 472 جرائم پیشہ افراد پولیس سے مقابلوں میں مارے جا چکے ہیں۔ 9382ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں سے 7915کو پہلے ہی چارج شیٹ کیا جا چکا ہے۔ 2104ملزمان ضمانتوں پر رہا ہیں جبکہ 7128جیلوں میں بند ہیں۔ 150ملزمان پولیس کے پاس زیر تفتیش ہیں۔ پولیس مسلسل چھاپے مار رہی ہے اور مختلف ذرائع سے آنے والی اطلاعات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ گزشتہ روز رینجرز کی طرف سے کئیے گئے آپریشنمیں بھر پور کامیابی ملی ہیں اور مطلوب ملزم حاصل ہوئے ہیں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ایم کیو ایم کے مرکز 90سے گرفتار ہونیوالے سینئر رہنما عامر خان سمیت 27 ملزمان کو 90 روز کے لئے رینجرز کے حوالے کر دیا۔ رینجرز نے شعبہ اطلاعات کے 3 کارکنوں کو پولیس کے حوالے کیا جنہیں پولیس نے رہا کر دیا جبکہ 26 ملزمان کیخلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لئے۔ جمعرات کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت نمبر2 میں رینجرز حکام نے سخت سیکیورٹی میں ایم کیو ایم کے رہنما عامر خان ، سابق ایم پی اے یوسف منیر شیخ، سابق فٹبالر اسلم بلوچ ، عبدالعزیز، فہد فرید، شجاعت علی اصغر ، محمد عمر خان ، سلیمان احمد، خالد عبدالرشید، محمد اعظم، محمد عمران، سید محمد علی، سید نعیم علی، حسن اختر، محمد یوسف، مرزا خلیل، محمد انور، محمد کامران، فراست علی، محمد عمران، نعمان شاہ، جنید، محمد حنیف، یوسف، نعمان اسلم، سید صابر علی اور محمد علی کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر پیش کیا۔ رینجرز نے فاضل عدالت میں اطلاعی رپورٹ میں بتایا کہ مذکورہ ملزمان کو عزیز آباد سے گرفتار کیا گیا ، ان کے خلاف ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سمیت جرائم کی سنگین وارداتوں میں ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں جبکہ ان ملزمان سے تفتیش کرنی ہے جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11EEEEکے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی جرائم میں ملوث مشتبہ شخص کو حفاظتی تحویل میں لینے کے بعد اس سے تفتیش کرے۔ عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے ملزمان کو 90روز کے لئے رینجرز کے حوالے کردیا۔ عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو میں ایم کیو ایم لیگل ایڈ کمیٹی کے محمد جیوانی ا یڈو و کیٹ نے کہا کہ عامر خان سیاسی رہنما ہیں،انہیں جس طرح پیش کیا گیا وہ نا مناسب طریقہ کار تھا۔ نائن زیرو کے اطراف سے گرفتار 119سے زائد افراد میں سے 26افراد کے خلاف مقدمات درج کر لئے گئے ، 10سے زائد ملزمان ٹارگٹ کلرز بتائے جاتے ہیں جبکہ دیگر افراد مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔عزیز آباد پولیس نے گرفتار ملزمان اوربر آمد ہونے والے جدید اسلحے اور غیر ممنوعہ اسلحے کے 26مقدمات درج کئے۔ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردی کے تمام راستے بند کرنے کے لیے اس قسم کے معاملات پر خصوصی توجہ دیں۔ اس میں بھی معلومات کا تبادلہ، جرائم پیشہ افراد پر کریک ڈاؤن اور خاص طور پر سزا یافتہ افراد کے بارے میں ایک ڈیٹا بیس کے قیام کا عمل مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اگرچہ پولیس نے تمام صوبوں میں اسی قسم کے ڈیٹا بیس تیار کر رکھے ہیں لیکن ان کو مزید مؤثر بنانے، ان میں ہر قسم کی معلومات درج کرنے اور انہیں بروقت ایک دوسرے کو پہنچانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اگر ڈیٹا بیس موجود ہوں اور ان کا مؤثر استعمال نہ ہو سکے تو ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے کیے گئے خصوصی انتظامات کو مزید بہتر، وقت کی ضرورت کے مطابق اور آئندہ آنے والے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت نے توجہ جاری رکھی تو کامیابی کے امکانات روشن ہیں۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 133 Articles with 143503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.