بردارانِ یوسفؑ کو اگر پتہ ہوتا
کہ یہ اندھا کنواں دراصل دربار ِمصر کا روشن باب ہے تو وہ اپنے سوتیلے
بھائی کو اس میں ڈھکیلنے کی حرکت ہرگز نہ کرتے لیکن مشیت کے آگے بھلا کس
کا زور چلتا ہے۔ مشیت کی کارفرمائی یوں بھی ہوتی ہےکہ بظاہر شر کے بطن سے
خیر جنم لے لیتا ہے۔مسرت عالم کے ساتھ یہی ہوا لیکن احمق لوگ یہ جانے بغیر
کہ مسرت عالم کون ہے؟ اسے کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟ اور اس کی رہائی کیوں
کر عمل آئی ذرائع ابلاغ میں ، ایوانِ پارلیمان میں اور سوشیل میڈیا میں
لٹھ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔اس کی بد نما مثال عام آدمی پارٹی کے رہنما
ڈاکٹرکمار وشواس جیسےلوگ اگر حقائق سے واقفیت حاصل کرتے تو یہ نہیں کہتےکہ’’
مجھے تو کئی بارذاتی طور سے ایسا لگتا ہے بھارت کے فوجی دستوں سے ہمیں
استدعا کرنی چاہئے کہ ایسے آد خور بھیڑیوں کو مٹھ بھیڑ میں گرفتار کرنے کے
بجائے سیدھے گولی ماردیں تو ٹھیک ہے‘‘صرف صرف ہندوستان کی سرزمین پر ایک
پڑھا لکھا سیاستدں اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر آزادی کے ساتھ
گھوم سکتا ہے ورنہ کسی مہذب معاشرے میں اس کا تصور بھی محال ہے۔
مسرت عالم بٹ حریت (گ)کے سینئر لیڈر اور مسلم لیگ کےسربراہ ہیں۔مسرت عالم
پر سال ۲۰۱۰کے عوامی مظاہروں کی سرپرستی کا الزام ہے۔ یہ احتجاج ضلع
کپوارہ کے مژھل سیکٹرمیں فوج کے ہاتھوں تین معصوم کشمیری نوجوانوں کے
حراستی قتل پر شروع ہواتھا۔ ان نوجوانوں کو اول توپاکستانی دہشت گرد بتلایا
گیا تھا لیکن آگے چل کرجب فوج نے خودتحقیق و تفتیش کو اسے تسلیم کرناپڑا
کہ وہ بارہ مولا کے رہنے والے تھے۔ ان بیچاروں کو پہلے تو فوج میں قلی کی
ملازمت پر رکھا گیا اوربعد میں فرضی انکاؤنٹر کے نام پر ہلاک کردیا گیا۔
اس کورٹ مارشل میں سانحہ کے چار سال بعد پانچ فوجیوں کو بشمول دو افسران کو
عمر قید کی سزا سنائی گئی اور ایک کو جسے چھوڑ دیا گیا تھا ۱۲ مارچ ۲۰۱۵
کو عمر قید کی سزا دی گئی۔ایسے میں ڈاکٹر کمار وشواس ان فوجی افسروں کیلئے
کیا سزا تجویز کریں گے جنہوں نے ان فوجیوں کو عمرقید کی سزا دی ہے؟
اس موقع پر ٹھہر کر غور کرنا چاہئے کہ اگر عام آدمی پارٹی جیسی سیکولر
جماعت کے پڑھے لکھے رہنما کا یہ حال ہے توبجرنگ دل ، وی ایچ اپی، شیوسینا ،
بی جےپی ، آرایس ایس اور کانگریس کے جاہلوں کا کیا حال ہوگا؟اب کمار جی یہ
بتائیں کے اگر کالے دھن کے خلاف اناّ کا احتجاج درست ہے تو کیااس ظلم عظیم
کے خلاف آواز اٹھانا غلط ہے ؟ اس احتجاج کے دوران فوج اور پولس نے پتھر کا
جواب گولی سے دیا اور سو سے زیادہ نوجوانوں اور بچوں کو شہید کردیا ۔ کیا
حفاظتی دستوں کا وہ معاندانہ رویہ درست تھا؟ فریاستی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ
جو دہلی میں بیٹھے آقاوں کی خوشنودی کیلئے یہ احکامات صادر کررہے تھے کیا
حق بجانب تھے اور اب ان کی قرار واقعی سزا کیا ہے؟ عمر عبداللہ کی شکست کے
پیچھے اس ظلم کا ہاتھ ہے۔
مسرت عالم کو پولیس نے احتجاج کو ہوا دینے اور امن و قانون کی فضا بگاڑنے
کے الزامات میں گرفتار کیا تھا ، تاہم حکومت عدالت میں مسرت عالم پر لگائے
گئے الزامات کو ثابت نہیں کرسکی۔مسرت عالم پر ۲۷ امن گھڑت لزامات لگائے اور
ان سب میں انہیں عدالت نے ضمانت دے د ی لیکن ہر بار رہائی کے وقت انہیں کسی
نئے بہانے سے دوبارہ گرفتار کرلیا جاتا۔ مسلسل ۶ مرتبہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے
تحت انہیں حراست میں لیا گیا جو قانون کے ساتھ کھلواڑ تھا۔ مسرت عالم کی
رہائی کی کارروائی کا آغاز کشمیر میں صدر راج کے دوران ہوا جبکہ بلاواسطہ
بی جے پی حکمرانی تھی۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ مفتی صاحب کی حلف برداری کے بعد
۴ مارچ کو جموں ضلع کے جج نے پولس کو لکھا چونکہ وزارت داخلہ نظر بندی کی
توثیق نہیں کی اس لئے انہیں رہا کردیا جائے۔ مفتی صاحب کی جگہ عمر عبداللہ
ہوتا تو ممکن ہےحزب اختلاف میں براجمان بی جے پی کے متوقع شور شرابے سے خوف
کھا کر کسی نئے الزام میں گرفتاری کی توسیع کروادیتا ۔ بی جے پی کے حلیف پی
ڈی پی کو ایسا کوئی ڈر نہیں تھا اس لئے انہوں نے یہ حماقت نہیں کی بلکہ اس
کی آڑ میں اپنی سیاسی دوکان کو چمکانے میں لگ گئے۔
بی جے پی کے عقل سے پیدل رہنماکیل ٹھونک میدان کارزار میں کود گئے ۔ ان میں
سےکوئی بیان بازی کرنے لگا تو کسی نے احتجاج شروع کردیا۔ توگڑیا جموں پہنچ
کر دوبارہ گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگا۔ ریاستی رہنماوں نے حمایت واپس لینے
کی دھمکی دے ڈالی اورایوانِ پارلیمان میں مودی اور راج ناتھ کو اپنے رائے
دہندگان کوبہلانے پھسلانے کی غرض سے مگر مچھ کے آنسو بہانے پڑے ۔ کانگریس
نے بی جے پی کے کوما میں چلے جانے کا اعلان کردیا اور اے آئی ڈی ایم نے
ایوان میں سوال اٹھایا کہ کیاجموں کشمیر حکومت ۱۰ہزار علٰحیدگی پسند وں
کورہا کرنے جارہی ہے۔ اس سے ریاستِ جموں کشمیر کی دگر گوں صورتحال طشت
ازبام ہو گئی کہ جہاں اس قدر بڑی تعداد میں عوام کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے
ٹھونس دیا گیا ہے۔
مسرت عالم کی رہائی کا پس منظر یہ ہے کہ جموں ضلع مجسٹریٹ اجیت کمار ساہو
نے ۱۵ ستمبر ۲۰۱۴ کومسرت عالم کی حراست کے نئے احکامات صادر کئے جس میں
روایتی وجوہات کے علاوہ یہ کہا گیا تھا کہ ان کی رہائی سے اسمبلی انتخابات
میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ ان احکامات کی توثیق ۱۲ دن کے اندر ہونی تھی لیکن وہ
کاغذات ۲۳ دن بعد ریاستی وزارت داخلہ میں پہنچے اس تاخیر کا الزام سیلاب کے
سر منڈھ دیا گیا ۔ وزارتِ داخلہ نے اسے ماہرین کے حوالے کیا تو ان کی رائے
آئی کہ نئے سرے سے حراستی احکامات جاری ہونا لازمی ہے۔۴ فروری
۲۰۱۵کوریاستی داخلہ سکریٹری برائے نے جموں کےضلعی مجسٹریٹ کو بتایا کہ
مسرت عالم کی نظر بندی کے احکامات کالعدم ہوگئے ہیں اس لئے وزارت داخلہ اس
کی توثیق نہیں کرسکتی۔ اسی کے ساتھ عدالت سےاستفسارکیا گیاکہ کیا ملزم کی
نظر بندی کو جاری رکھنے کا کوئی جواز موجود ہے عدالت کا جواب منفی تھا ۔
وزارتِ داخلہ نےضلع مجسٹریٹ کو نئے احکامات صادر کرنے کا فرمان بھیجا لیکن
اس کیلئے سپریم کورٹ کے تلقین شدہ طریقہ کار کی پابندی ضروری تھی۔
جموں کشمیرکے داخلہ سکریٹری سریش کمار کے مطابق سپریم کورٹ نے ہدایت دے
رکھی ہے کہ آپ کسی فرد کو ایک ہی الزام میں بار بار حراست میں نہیں لے
سکتے۔ اگر کسی کو دوبارہ حراست میں لینا ہو تو اس پر نئے الزامات عائد کرنے
ہوں گے۔ مسرت کی رہائی کا دفاع کرتے ہوئے کمار نے کہا پی ایس اے کے تحت
حراست میں رکھنے کے حدود ہیں آپ ۶ ماہ کیلئے ایسا کرسکتے ہیں اور اس میں
صرف ایک مرتبہکی توسیع ہوسکتی ہے (یعنی کل ایک سال تک اس تعزیرات کے تحت
کسی کو زیر حراست رکھا جاسکتا ہے) جبکہ مسرت عالم ۲۰۱۰سے حراست میں ہے۔
آپ کتنے دنوں تک یہ سلسہلہ جاری رکھیں گے آخر آپ کو ملک کے قانون کی
پاسداری بھی تو کرنی ہے۔ پی ایس اے کا اطلاق چونکہ پھر سے نہیں کیا جاسکتا
اس لئےمسرت عالم رہا کردئیے گئے۔ جموں کشمیر کے ڈائرکٹر جنرل آف پولس کے
راجندرا نے بھی مذکورہ موقف کی تائید میں کہا سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق
قوانین کی عمل بجاآوری کے تحت مسرت عالم کی رہائی عمل میں آئی ہے۔
بی جے پی نے غالباً ان بیانات کے بعد عقل کے ناخون لئے اور اس کے مقامی
رہنما اشوک کول نے تسلیم کیا کہ ہماری یہ سمجھ ہے کہ مسرت عالم کو تو رہا
ہونا ہی تھا ہم اس کا انکار نہیں کرتےلیکن اس کا ایک نظام ہونا چاہئے۔
حکومت کو چاہئے تھا کہ وہ وزیراعلیٰ، ڈی جی پی، چیف سکریٹری اور وزراء پر
مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیتی اور اس کے توسط سے ایسے لوگوں کو جو سزا یافتہ
نہ ہوں یا جن کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی ہو رہا کردیا جائے۔
اس بار چونکہ یہ اچانک ہو گیا اس لئے سارے ملک میں بلکہ ایوان پارلیمان میں
بھی اس پر ردعمل سامنے آیا۔ اب تو یہ حالت ہے کانگریس والے بھی ہمیں قوم
پرستی کا درس دے رہے ہیں ۔ ویسے اس معاملہ میں بی جے پی ہزیمت قابلِ دید
تھی پہلے تو اس نے کہا کہ یہ سی ایم پی یعنی کم از کم طے شدہ پروگرام کی
خلاف ورزی ہے اس کا جواب یہ سامنے آیا کہ سی ایم پی کے تحت سارے متعلق
لوگوں کو اعتماد لینے کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اب لوگوں کو جیل میں
رکھ کراعتماد میں کیسے لیا جاسکتا ہے؟ اس لئے یہ خلاف ورزی نہیں ہے۔ اس کے
بعد کہا گیا کہ ہم سے پوچھا نہیں گیا۔ اس کا جواب یہ ملا کہ ہربات اگر
پوچھی جائے تو تب تو کوئی کام نہیں ہوگا۔ جب راجناتھ نے کہا حکومت بچانے
کیلئےامن وقانون پر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی تو اس کا ترکی بہ ترکی جواب
آگیا کہ امن و سلامتی ریاستی حکومت کا سر درد ہے اس کیلئے مرکز کو پریشان
نہیں ہونا چاہئے۔
بی جے پی کی حالت زار پر فرعون کا انجام یاد آتا ہے۔ اس مغرور حکمراں کے
خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ موسیٰ ؑکا پیچھا کرتے ہوئےوہ اپنی
فوج سمیت موت کے منہ میں جارہاہے ورنہ کسی صورت دونیم دریائے نیل کے درمیان
قدم رکھنے کی جرأت اس میں نہیں ہوتی لیکن مثل مشہور ہے جب گیدڑ کی موت
آتی ہے وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے ۔ ایسا ہی کچھ بی جے پی کے ساتھ ہوا جب اس
نے پی ڈی پی سے پینگیں بڑھائیں اور اپنے ساتھ حکومت سازی کیلئے اس پر دباؤ
بنایا۔حکومت تو بن گئی لیکن اسی کے ساتھ بی جے پی کیلئے قومی سطح پر مسائل
در مسائل کا ایک کبھی نہ ختم ہونے والے سلسلہ شروع ہو گیا ۔ بی جے پی نے
اقتدار کی بساط پر یہ سب سے زیادہ پر خطر پانسہ پھینکا ہے جس کے دوررس
نتائج نہ صرف قومی سیاست پررونما ہوں گے بلکہ سنگھ پریوار کی نظریاتی
بنیادوں پر بھی اس کے زبردست اثرات پڑیں گے۔ یہ اونٹ بالآخر کس کروٹ بیٹھے
گا یہ تو وقت ہی بتلائے گا ۔اس کے نتیجے میں سنگھ کیا کھوئے گا اور کشمیر
کے عوام کیا پائیں گے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے ۔ گمان غالب یہی ہے
کہ بی جے پی اور پی ڈی پی والے کچھ عرصے بعد کفِ افسوس ملتے ہوئے یہ شعر
پڑھتے نظر آئیں گے ؎
رُودادِ محبّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے
دو دِن کی مُسرّت کیا کہیے کُچھ یاد رہی کُچھ بُھول گئے |