پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سینٹ
الیکشن ہر تین سال بعد با قاعدگی سے ہوتے ہیں اوراس الیکشن سے ایوان بالا
کے نصف اراکین کا چناؤ ہوتا ہے مقام افسوس تو یہ ہے کہ وہ ایوان جو ایوان
بالا کہلاتا ہے اس بار اس کے الیکشن اپنی اقدار و روایات سے اس قدر بالا
ہوئے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاہ باب کا اضافہ ہوگیا ہے مگر صد شکر
کہ سینٹ الیکشن کی رسہ کشی اپنے اختتام کو پہنچی اور تخت ایوان کے
بلامقابلہ حقدار رضا ربانی کھر ٹھہرے اس فیصلے کی تائید سے میثاق جمہوریت
کا بول بالا ہوا یا نہ ہواہو مگر اتنا ضرور ہوا ہے کہ پاکستانی سیاست سے
مضبوط اپوزیشن اور حزب اختلاف کا کردار عوام کی نظر میں مشکوک ہوگیا ہے ۔
سینٹ الیکشن میں جہاں اوربہت سے حیرت انگیز پہلو سامنے آئے وہاں ایک یہ بھی
تھا کہ کل تک ایک دوسرے کو چور ،ڈاکو اور لٹیرے کہنے والے آپس میں یوں
بغلگیر ہوئے اور ایک دوسرے کی ضیافتیں اڑاتے ہوئے ایسے نظر آئے کہ ہر کوئی
انگشت بد اندان رہ گیا
ہم کوئے ملامت سے گزر آئے ہیں یارو
اب چاک رہا ہے نہ گریبان رہا ہے
اور عوام یہی سوچتے رہ گئے کہ
دامن تھے جن کے خونِ وفا سے رنگے ہوئے
سب مرتبے انہی کو عطا کر دئیے گئے
آج اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ سینٹ الیکشن سے قبل ہارس ٹریڈنگ ،دھاندلی
،منڈی میں خرید و فروخت کے جس ماحول کا شور سنا جا رہا تھا وہ عالمی سطح پر
پاکستان کی سیاست میں ایک تمسخر قرار پا چکا ہے جس سے جمہوری و پارلیمانی
اخلاقیات و اقدار کودھچکا لگا ہے اور جومخلصین پاکستان اور بیرونی دنیا میں
انتخابی شفافیت کے لیے کوشاں تھے انہیں خاصی مایوسی ہوئی ہے ۔ایسا ملکی
تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ہماری حکومت نے از خود ہی سینٹ انتخابی عمل کو
متنازع اور مشکوک بنا دیا اس سارے عمل میں مسلم لیگ (ن) کا کردار خاصا
گھناؤنا اور مشکوک رہا جبکہ دستور اوراعلیٰ اقدار کی کھلے عام خلاف ورزیاں
کی گئیں جن میں صدارتی حکم نامہ جاری کروانے سے لیکر ریٹرنگ آفس کو بجھوانے
تک ہرعمل بوکھلاہٹ او رمن جاتی کا نادرنمونہ ٹھہرا ۔مگر کوئی پینترہ کام نہ
آیا اور پیپلز پارٹی بڑی جماعت بن کر ابھری اور مسلم لیگ (ن) کو نہ چاہتے
ہوئے بھی مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا ۔اور ان دونوں جماعتوں کے
مفاہمتی کھیل میں دوسری جماعتوں کو بھی ناچار شامل ہونا پڑا ۔مگر یہ بھی
حقیقت ہے کہ قائم مقام چئیرمین سینٹ رضا ربانی کھر ایک جمہوری سوچ کے حامل
اور بیباک انسان ہیں جو اپنے کردار و عمل سے خود کوبہتر ثابت کر چکے ہیں وہ
سینٹ کے وقار کی گرتی دیوار کو کس طرح سنمبھا لا دیں گے اور اس کی کھوئی
ساکھ بحال کریں گے اس کا فیصلہ وقت کرے گا ۔مگر حالیہ سینٹ الیکشن نے جہاں
صاحب ایوان شخصیات کی نیک نامیوں اور کردار و عمل کی قلعی کھولی وہاں یہ
حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی کہ عرصۂ دراز سے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے
والے اور ہمارے فردا و حال کے فیصلے کرنے والے در پردہ اپنے مستقبل کے
محافظ اور مفادات کے غلام ہیں ان سب کی کارگزاریوں کا تحریک انصاف نے فرداً
ٖ ٖفرداً بیچ چورہے میں یوں بھانڈا پھوڑا کہ یہ سب ’’اتری منہ سے لوئی تو
کیا کرے گا کوئی ‘‘ کے مصداق سب نے مل کر منصوبہ بندی سے تحریک انصاف
کوحالیہ سینٹ انتخابات میں یکسرنظر انداز کر ڈالا اورجب تحریک انصاف کو اس
کا احساس ہوا تو انھوں نے ڈپٹی چئیرمین کی سیٹ کے حصول کے لیے ہاتھ پاؤں
مارے مگر بات نہ بنی،ایسے میں ان کے انداز سیاست اور سیاسی پختگی پر کئی
سوالیہ نشان ہیں ۔
ایسے میں جناب پرویز رشید نے بھی انھیں آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ عمران
خان ایسے غلط طریقے سے کھیلنے والے کھلاڑی ہیں کہ جو باؤنڈری پر آؤٹ ہو چکے
ہیں اور اب اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ مجھے ایک باری
اور دی جائے ۔جناب عمران خان اس وقت کہاں کھڑے ہیں اس کا تعین کرنا قبل
ازوقت ہوگا کیونکہ انھیں اپنی سٹریٹ پاور پر آج بھی ناز ہے اور ہونا بھی
چاہیئے کیونکہ نوجوان پہلے ہی ان کے ساتھ تھے اور دوسری سیاسی جماعتوں کے
اہم زمانہ ساز سیاستدان مسلسل ان کی جماعت میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں
مگر وہ دیکھ ہی نہیں پا رہے کہ پس پردہ سیاسی داؤکھیلنے والے ہاتھ کوئی اور
ہیں جو نہ تو منظر عام پر ہیں اور نہ ہی ان کے چہرے دکھائی دے رہے
ہیں۔حالات جو بھی ہیں اگر انھیں حالیہ انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے
تو2013 کے الیکشن کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے اورعمران خان کا مطالبہ’’
جوڈیشل کمیشن کا قیام‘‘ درست دکھائی دیتا ہے ۔تمام حقائق سے قطع نظر ان
متفکر حالات کے باوجوداکثر دانشور یہ فرما رہے ہیں کہ یہ جو کچھ بھی ہے
’’جمہویت کا تسلسل‘‘ ہے اور خوش آئیند عمل ہے اوریہ ملک و قوم کے لیے نفع
بخش ہوگا ،سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت ملک میں جمہوریت ہے بھی اور کیا موجودہ
نظام میں کوئی جمہور اور جمہوریت کے لیے مخلص ہو سکتا ہے ؟
ہمارے دانشور کیوں بھول جاتے ہیں کہ جو سیاسی اشرافیہ آج گٹھ جوڑ کر رہی ہے
ان کے اس عمل میں ملک و ملت کے لیے کتنا خلوص اور ایمانداری چھپی ہوئی ہے
ان سب کے اس غیر معیاری عمل کا اثر عام آدمی پر کیسا ہوگا اور ملک میں کس
قسم کی تبدیلی آئے گی کیا آج عام آدمی کی حالت دگر گوں نہیں ہے ؟ کیا ملک
مسائل کا گھنا جنگل نہیں بن چکا ہے ؟لاقانونیت ،دہشت گردی الغرض کونسا ایسا
بحران ہے جو اس ملک میں نہیں ہے ایسے گھمبیر حالات میں اپوزیشن کا کردار
مفاد کی نظر ہوگیا ہے یعنی کسی طرف سے جو تھوڑی بہت تعمیری تنقید ہوتی تھی
وہ بھی معدوم ہو جائے گی اورگڈ گورننس اور ڈیلیوری کا فقدان پہلے ہی کھل کر
سامنے آچکا ہے اب یہ کہنا کہ ملک میں جمہوریت موجود ہے سرا سرقصیدہ گوئی ہے
۔ اس لیے ہمیں دیانت دارانہ روّیہ اپناناچاہیئے اور عوامی مفادات کو ذاتی
مفادات پر ترجیح نہیں دینی چاہیئے اور ایسے نظام کی حمایت نہیں کرنی چاہیئے
جو سر تا پیر ملکی اور قومی اقدار و روایات اوراخلاقیات سے گندا کھیل کھیل
رہا ہے ۔
بے شک وطن عزیز کو حضرت عمر فارو قؓ جیسا حکمران اب میسر نہیں ۔اسی نظام کو
بہتر کرنا ہوگا اسے ان اصولوں پر عمل پیرا کرنا ہوگا جن کے نام پر یہ قطعہ
زمین حاصل کیا گیا تھا اور یہ تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں ہے جبتک معاشرتی
سوچ میں تبدیل نہیں ہوگی اور تمام سیاستدان سیاسی مفادات کی سیاست چھوڑ کر
عوامی فلاح کے لیے متحدنہیں ہوتے اوراپنے کردار و عمل کی بجائے پیسے کو
اہمیت دینا بند نہیں کرتے اور یہ بدقسمتی ہے کہ وطن عزیز کے عوام دین سے
جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں مگر ان کی اکثریت دین کو اپنی سوچ کا کا مرکز و محور
نہیں سمجھتی اور خصوصاًسیاسی امور میں دینی اموراور تقاضوں کو اہمیت دینا
مناسب نہیں سمجھتی کیونکہ اس طبقے پر کچھ حدود ایسی لاگو ہوتی ہیں جو اس کی
آزادانہ روش کے خلاف ہیں ،دوسری طرف عام آدمی کا تصور دین بہت سے اوہام
،اور شکوک و شبہات سے عبارت ہے ملک کے بااثر طبقات ذاتی اور گروہی مفادات
کے اثیر ہیں جو سیاسی ،معاشی اور معاشرتی پہلوؤں میں دین کو کو کوئی خاص
اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ایک عام انسان کے بہت سے ذاتی مسائل اور
مفادات انہی بااثر طبقات کے توسط سے حکومت وقت سے متعلق ہوتے ہیں ۔اور یہی
وجہ ہے کہ یہ ذاتی مفادات معاشرے کے بڑے طبقے کو سیاست اور انتخابات میں
اپنا حصہ ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں یہی آج ہو رہا ہے اس لیے یہ کہنا بے
جا نہ ہوگا کہ موجودہ سیاسی ڈھانچہ اس مداری کے تماشے کی طرح ہے جو تماشہ
بینوں کے بیچ گھرا ہوتا ہے اور اس نظام کی تبدیلی اگلی کئی دہائیوں تک
ناممکن ہے ویسے بھی تبدیلیاں بتدریج مسلسل جمہوری عمل کے ذریعے وقوع پذیر
ہوتی ہیں اور یہاں نام نہاد جمہوریت ہے جسے جمہور اور جمہوری عمل سے کوئی
سروکار ہی نہیں ہے اسی لیے لینن نے آج سے کئی ہزار سال پہلے کہا تھا کہ لوگ
ہمیشہ سیاسی طور پر بیوقوف بنائے جاتے ہیں اور تب تک بے وقوف بنتے رہیں گے
جب تک وہ ہر سیاسی اور مذہبی تحریک کے پیچھے موجود طبقاتی مفادات کو نہ
سمجھ لیں اور ظلم یہ ہے کہ سمجھنے والے بھی مجبور ہیں کیونکہ بالواسطہ یا
بلاواسطہ ان کے پس پردہ مفادات بھی اسی سیاسی اشرافیہ سے جڑے ہیں ۔ اس لیے
جب تک اجتماعی طور پر طبقاتی فرق کا تصور ختم نہیں ہوگامعاشرے میں سب کو
برابر مقام نہیں ملے گا اس سیاسی اشرافیہ نما مافیا سے چھٹکارا نہیں ملے گا
۔ ایک بساط الٹ چکی اور دوسری بچھنے جا رہی ہے ۔جو کہ امیدکی جا رہی ہے کہ
ملکی منظر نامے کو بدل دے گی کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں’’ عام آدمی‘‘ حصہ
لیتا ہے اوریہی عام آدمی اب اس موجودہ سیاسی ڈھانچے کی تبدیلی کے لیے آخری
امید ہے اس لیے مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ اگر عوام نے تمام
موجودہ سیاستدانوں کے ماضی کو اچھی طرح ذہن نشین رکھا تو یقینا عوام نچلی
سطح پر چور ،ڈکیت ،رسہ گیر اور بد کردار نمائندوں کو ووٹ نہیں دیں گے اور
یہ بلاشبہ تبدیلی کا ایک سنگ میل ہوگا اور اس سے دنیا ہی نہیں ہماری آخرت
بھی سنور جائے گی ۔ |