مسرت عالم کی رہائی کے سیاسی پیچ و خم (قسط دوم )

جموں کشمیر کی موجودہ صورتحال پربی جے پی ، پی ڈی پی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی سر پھٹول سے قطع نظر مسرت عالم بٹ کا بیان رہائی کی حقیقی داستان اور اس کے پس پشت کارفرما سیاسی پیچ و خم بیان کرتا ہےانہوں نے کہا کہ’’میں اپنی گرفتاری کے خلاف ایک قانونی جنگ لڑرہا تھا جس کی بنیاد پر مجھے رہا کیا گیااوراس میں سرکار کا کوئی رول نہیں ہے بلکہ یہ صرف اورصرف عدالتی کارروائی کا نتیجہ ہے‘‘۔انہوں نے مزید کہا’’مخلوط سرکار میں شامل دونوں جماعتیں پی ڈی پی اوربی جے پی اس معاملے سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہیں ‘‘۔ حقیقت یہی ہے کشمیر میں فی الحال پی ڈی پی کا تو تھوڑا بہت فائدہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے لیکن بی جے پی سراسر خسارے میں نظر آتی ہے۔ وہاں کی سیاسی صورتحال کااگر معروضی جائزہ لیا جائےتو بی جے پی کی حماقت واضح ہو جاتی ہے۔

دسمبر ؁۲۰۰۸ کے اندر ہونے والے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کا وہی حال تھا جو اس بار پی ڈی پی کا ہے یعنی وہ ۲۸ نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی تو بن گئی مگر اکثریت سے محروم رہی۔ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی جس نے اسمبلی میں ۱۷ نشستیں جیتی تھیں۔ اس لئے ان دونوں کی مخلوط حکومت بن گئی۔ ؁۲۰۰۹ کاپارلیمانی انتخابات بھی ان دونوں نے ایک ساتھ لڑا۔ این سی نے وادی کی ۳،کانگریس نے جموں کی دو اور لداخ سے ایک آزاد امیدوار کامیاب ہو گیا لیکن ؁۲۰۱۴ کے پارلیمانی انتخاب میں سیاسی منظر نامہ یکسر بدل گیا۔ بی جے پی جو پچھلی مرتبہ ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکی تھی جموں کی تینوں نشستوں پر کامیاب ہوگئی اور پی ڈی پی نے کشمیر کی تینوں نشستوں پر قبضہ کرلیا ۔
اس کے بعد جموں کشمیر کے صوبائی انتخابات کا اعلان ہوا۔ دو قطبی فضا میں بی جے پی نے ہندواکثریت کو اپنا ہمنوا بنا لیا اور اس کے ردعمل میں مسلمان اکثریت پی ڈی پی کی جانب چلی گئی۔ ایسے میں نیشنل کانفرنس نے سوچا کانگریس کو ساتھ لینے کے سبب مسلمان ناراض ہوجائیں گے اور کانگریس میں یہ سوچ تھی کہ کہیں این سی کا ساتھ ہندووں کو دور نہ کردے اس لئے ان دونوں نے آزادانہ انتخابات لڑا۔ ان کا ارادہ یہ رہا ہوگا کہ انتخاب کے بعد پھر سے ایک ہو جائیں گے لیکن یہ نہیں ہوا۔ پی ڈی پی نے ۲۸ اور بی جے پی نے ۲۵ پر کامیابی حاصل کرلی لیکن اگر کانگریس کی ۱۲ اور این سی کی ۱۵ نشستوں کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو وہ بھی ۲۷بنتی ہیں۔ ایسے میں پی ڈی پی کے سامنے دومتبادل تھے ایک تو این سی اور کانگریس کے ساتھ مخلوط حکومت اور دوسرے بی جے پی کے ساتھ الحاق ۔ بی جے پی وادی میں پی ڈی پی کی حریف اول نہیں ہے اس لئے اس کا ساتھ لینے میں سیاسی نقصان کاخطرہ کم تھا اور بی جے پی کے پاس چونکہ مرکزی حکومت کی زمامِ کار ہے اس لئے اس کی بدولت نہ صرف سرکاری خزانے سے استفادے کے امکانات روشن تھے بلکہ مرکز میں وزارت کی بھی توقعات موجود ہیں۔ استحکام کے حوالے سے وادی میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعہ شورش برپا کرکے ریاستی حکومت کو برخواست کردینا بی جے پی کے لئے بے حد سہل تھا اس لئے پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے میں عافیت سمجھی اور ابن الوقتی کی ایک ایسی تاریخ رقم کردی جس کی مثال ہندوستان کی سیاسی تاریخ نہیں ملتی ۔

جموں کشمیر کی اس خودغرضانہ سیاست میں بی جے پی برابر کی شریک ہے۔ اس نے بھی اپنے رائے دہندگان سے دغابازی کی تھی حالانکہ اس کے سامنے کوئی مجبوری نہیں تھی۔ اس سیاسی صورتحال میں بی جے پی کا حزب اختلاف میں بیٹھ کر اپنی ساکھ بڑھانا زیادہ مناسب تھا لیکن اقتدار کی ہوس آڑے آگئی۔ دہلی انتخاب میں ناکامی کے بعداسے یقین ہوگیا ہوگا کہ اب ایسے اچھے دن دوبارہ لوٹ کر کبھی نہیں آئیں گے اور ایسا نادرموقعہ پھر کبھی نہیں ملے گا اس لئے اس کا جو بھی فائدہ اٹھانا ممکن ہو اٹھا لیا جائے۔ اس طرح گویا ایک گدھے اور گھوڑے نے شادی رچاکر اپنا گھر بسا لیا۔ پی ڈی پی والے جب اپنے گھر زعفرانی دلہن لے کر آئے تو باراتیوں کے علاوہ اہل خانہ بھی چراغ پا ہوگئے۔ انہیں راضی کرنے کیلئے حلف برداری کے فوراً بعد مفتی محمد سعید نےنائب وزیراعلیٰ اور دیگروزراء کی موجودگی میں انتخابات کے انعقاد کا سارا کریڈٹ پاکستان،علٰحیدگی پسندجنگجولوگوںاور حریت کانفرنس کو دے دیا۔ یہ بلاواسطہ اس بات کا اعلان تھا کہ ان کی حیثیت جوروکے غلام کی سی نہیں ہے۔ اس بات پر دلہن کے میکے میں ہنگامہ برپا ہوگیا اور راج ناتھ نے اعلان کیا کہ ہم اس سے اختلاف کرتے ہیں اور جموں کشمیر کے انتخابات کا کریڈٹ عوام ،حفاظتی دستوں اور الیکش کمیشن کو دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ میاں بیوی کے موقف میں کوئی ایک بھی قدرِ مشترک نہیں ہے۔ بی جے پی نے مفتی صاحب کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا یہ بات تو میں وزیراعظم سے کہہ چکا ہوں اور اس پر قائم ہوں۔

انتخاب کے حوالے پی ڈی پی کا دعویٰ مان بھی لیا جائے تب بھی یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ پی ڈی پی کی کامیابی کا کریڈٹ پوری طرح بی جے پی کو جاتا ہے۔ اس مرتبہ پہلی بار بی جے پی نے جموں کشمیر انتخاب میں اپنی ساری قوت جھونک دی اورمشن ۴۴+کا نعرہ لگا کر میدانِ کارزار میں اتری۔ اس سے مسلمانوں کو اندیشہ لاحق ہوگیا کہیں بی جے پی واقعی اقتدار پر قابض نہ ہوجائے ۔ جموں کے ہندووں کو بھی اس خوش فہمی کا شکار کردیا گیا کہ پہلی مرتبہ جموں کشمیر کی زمامِ کار ایک ہندو وزیراعلیٰ کے ہاتھوں میں آیا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علٰحیدگی پسندوں میں انتخابات کے بائیکاٹ پر اصرار نہیں کیا اس لئے کہ اس کے نتیجے میں بی جے پی کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجاتے تھے۔ کشمیر کے عوام کا بڑے پیمانے پر رائے دہندگی میں حصہ لینا بھی پی ڈی پی کو کامیاب کرنے کیلئے نہیں بلکہ بی جے پی کو روکنے کیلئے تھا لیکن مفتی محمد سعید نے سیاسی مفادات کے پیش نظر اپنے رائے دہندگان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا اور ان کی زخمی پشت پرمذکورہ بیانسے مرہم رکھا ۔ یہ دراصل ان کی سیاسی مجبوری تھی اس لئے کہ اگروہ سچائی کا اعتراف کرلیتے تو ان کا عزت خاک میں مل جاتی ۔

مفتی صاحب کے بیان سے بی جے پی تلملا کر اپنے زخموں کو سہلانے لگی ۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے ان پر نمک پاشی شروع کردی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایوان پارلیمان میں مودی جی کو صفائی کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا لوگ ہمیں دیش بھکتی کا سبق نہ سکھائیں یہ بالکل درست بیان ہے بلکہ ہوناتو یہ چاہئے کہ لوگ ان سے دیش بھکتی کا سبق سیکھیں ۔ دیش بھکتی کے نام پر عوام کو بیوقوف بناکر اپنا الو سیدھا کرنے کا فن میں اگر کوئی مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے بی جے پی سے بڑا وشواودیالیہ اور مودی جی سے بڑا گروگھنٹال کوئی اور نہیں مل سکتا۔

مقتی صاحب نے جب دیکھا کہ کشمیریوں کو لگنے والا زخم بھر نہیں رہا ہے۔ وہ پھر ایک بار نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی جانب متوجہ ہورہے ہیں تو پی ڈی پی کی جانب سے ایک نہایت ہی جذباتی مسئلہ اچھال دیا گیا ۔ یہ افضل گرو کی باقیات کو واپس لانے کا مطالبہ تھا۔ افضل گرو کو پھانسی میں تاخیر کے خلاف بی جے پی وقتاً فوقتاً کانگریس کو گھیرتی رہی تھی۔ کانگریس نے بی جے پی کے روز روز کے رونے سے پیچھا چھڑانے کیلئے قومی انتخاب سے ایک سال قبل ؁۲۰۱۳ میں افضل گرو کو پھانسی پرچڑھادیاتھا ۔ افضل گرو کی پھانسی کے خلاف پی ڈی پی ہمیشہ بیان بازی کرتی رہی ۔ افضل گرو نے ؁۱۹۹۶ میں اسلحہ ڈال دیا تھا اور پھر دہلی منتقل ہوگیا تھا ایسے میں وہ یقیناً پولس کی نگرانی میں رہا ہوگا ۔ اس نگرانی کے چلتے کسی ایسے فرد کا پارلیمان پر حملہ جیسی بڑی دہشت گردی میں ملوث ہونا بعید از قیاس ہے۔

افضل کے ساتھ جواہر لال یونیورسٹی کےپروفیسر ایس اے آر گیلانی کو بھی راست میں لیا گیا تھا اور ان کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا تھا وہی پارلیمنٹ پر حملے کےماسٹر مائینڈ ہیں۔ سپریم کورٹ نے انہیں بے قصور پاکر باعزت طریقہ پر رہا کردیا ۔افضل کی بھابی افسانہ کو بھی جنہیں شریک کار قراردیا گیا تھا چھوڑدیاگیا۔ افضل کے بجائی بھائی شوکت گرو کی سز ا میں تخفیف کرکے اسےدس سال میں بدل دی گیا اس لئے کہ گرفتاری کو پانچ سال ہو چکے تھے لیکن افضل کی پھانسی برقرار رہی حالانکہ سپریم کورٹ نے تسلیم کیا کہ افضل کا کسی دہشت گرد گروہ سے تعلق نہیں تھاان کے خلاف ثبوت صرف واقعاتی نوعیت کے تھے انہیں تو قومی جذبات کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے موت کی سزا دی گئی ۔وہ کیسے قومی جذبات ہیں جو اپنی ہی قوم کے معصوم لوگوں کے خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں؟

اگر اس بے وزن الزام کو مان بھی لیا جائے تو قانون کی نظر میں جولوگ بذاتِ خود کسی قتل و غارتگری میں ملوث نہیں ہوتے بلکہ محض سازش میں شریک ہوتے ہیں انہیں موت کی سزا نہیں سنائی جاتی ۔ افضل گرو بہرحال اجمل قصاب کی مانند رنگے ہاتھ گرفتار ہونے والا حملہ آور نہیں تھا اس کے باوجود خفیہ طور پر اس کے اہل خانہ کو اطلاع دئیے بغیر افضل گرو کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کانگریس کے رہنماوں نے حال میں اس پر معافی مانگی ہے۔ ششی تھرور نے تسلیم کیا ہے کہ اس معاملے میں کوتاہی ہوئی۔ افضل گرو کے اہل خانہ کونہ صرف اطلاع دینا بلکہ ملاقات کا موقع دینا ضروری تھا اور آخری رسومات کی ادائیگی کیلئے اس کی لاش ان کے حوالے کی جانی چاہئے تھی۔ دنیا بھر کے حقوق انسانی کی تنظیموں نے اس کی مذمت کی تھی لیکن اب چونکہ پی ڈی پی اور بی جے پی کا الحاق ہوچکا ہے اس کے ذریعہافضل گرو کی باقیات کو لوٹانے کا مطالبہ بی جے پی کے گلے ہڈیّ بن گیا اور وہ پھر ایک بار مدافعت میں آکر آئیں بائیں شائیں بکنے لگی ہے۔

اس سے پہلے کے یہ طوفان تھمتا مسرت عالم رہا ہوگئے۔ مفتی محمد سعید نے انہیں دوبارہ کسی معاملے میں پھنسانے سے گریز کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کیا لیکن اس کا سارا کریڈٹ انہیں مل گیا۔ اس واقعہ کے بعدپی ڈی پی کے وارے نیارے ہوگئے اور کشمیری عوام کو یہ دھوکہ ہونے لگا کہ پی ڈی پی اب بھی ان کی ہمدرد و غمخوار ہے ۔ بی جے پی کی بھلائی اس میں تھی کہ وہ اسے نظر انداز کردیتی لیکن چونکہ پارلیمان کا بجٹ سیشن جاری تھا اس لئے یہ کام مشکل ہو گیا اور اس بابت اس کے ہر بیان نے اس کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ پی ڈی پی کے پاس ان کے ہر اعتراض کا کرارہ جواب موجود تھا ۔ مسرت عالم کی دوبارہ گرفتاری کے دباؤ سے بچنے کی خاطر پی ڈی پی نےسیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کردیا کہ ان تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائیگا جن کے خلاف مجرمانہ الزامات نہیں ہیں ۔ ذرائع ابلاغ میں ڈاکٹر عاشق حسین فکتو عرف قاسم کی رہائی موضوع بحث بن گئی جو ۲۲ سالوں سے زیر حراست ہیں اور جن کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔اپریل ؁۲۰۱۳ میں دہلی کے دستوری کلب میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کیلئے کام کرنے والی تنظیم سی آر پی پی نے ڈاکٹر فکتو کی حیات پر ایک کتاب کا اجراء کرتے ہوئے ان جیسے ۴۰ افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جو دس سال سے زیادہ کا وقفہ جموں کشمیر کی جیل میں گزار چکے ہیں۔اس موقع پر جتن مرانڈی بھی موجود تھے جنہیں جھارکھنڈ کے اندر ایک فرضی مقدمہ میں گرفتار کرکے سزائے موت سنا دی گئی تھی لیکن بعد میں ہائی کورٹ نے انہیں رہا کردیا۔ اس تقریب میں موجود بھگت سنگھ کے بھتیجے جگموہن نے کہا تھاکہ ہمیں جتن مرانڈی سے حوصلہ لیتے ہوئےڈاکٹر قاسم جیسے سارے سیاسی قیدیوں کو رہا کرانے کی جدوجہد تیز کردینی چاہئے۔

مسرت عالم کی رہائی کے بعد سوامی اگنیویش نے مفتی محمد سعید کواس حوصلہ افزاء اقدام پر سراہا اور وزیر اعظم مودی کو اس موقف پر استقامت دکھانے کی تلقین کی ۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ خارجہ سکریٹری جئے شنکر کےتوسط سے گفتگو کےازسرنو آغاز کی بھی تعریف کی جو حریت رہنماوں کے پاکستانی سفیر سے ملاقات کے بعد تعطل کا شکار ہو گئی تھی۔ اس کے برعکس نوٹنکی بابارام دیو نے مسرت عالم کی رہائی پر غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئےبی جے پی کو مشورہ دیا کہ فوراً مفتی محمد سعید کی حمایت واپس لے لیجائے۔ اس احمق یوگی کو نہیں معلوم کہ مفتی کی حمایت میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس تیار کھڑے ہیں ۔ اس الحاق کو قائم رکھنا پی ڈی پی کی نہیں بی جے پی کی ضرورت ہے۔ اس صورتحال کا بھرپور فائدہ مہاراشٹر میں بی جے پی کی حلیف شیوسینا نے اٹھایا اس لئے کہ جس قدر بی جی پی نے اسے رسوا کیا تھا اس سے کہیں زیادہ پی ڈی پی بی جے پی کو ذلیل کررہی تھی۔ اس تنازع کی مدد سےشیوسینا ان انتہا پسند ہندو رائے دہندگان کو واپس لانے میں جٹ گئیہےجو اسے داغ مفارقت دے کر بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے تھے ۔ آرایس ایس نے بھی اپنے کارکنان کو ورغلانے کیلئے سوال کردیا کہ مفتی ہندوستانی بھی ہیں یا نہیں ؟ یہ سوال تو اسے اپنےنمائندے رام مادھو سے کرنا چاہئے جو آئےدن جموں کشمیر میں منڈلاتے رہتے ہیں یا امیت شاہ سے جو حال میں ناگپور کے صدر دفترمیں حاضری دینے کیلئے پہنچے تھے ۔
جموں کشمیر میں ابن ا لوقتی کی بنیاد پر قائم شدہ اس سیاسی محاذ کی آئندہ حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ پارلیمانی انتخاب تک کسی طرح اسے کھینچا جائے اور دونوں فریق اقتدار کی ملائی کھاتے رہیں۔ کشمیری دستور کے مطابق وہاں انتخاب ۵ کے بجائے ۶ سال بعد ہوتے ہیں اس لئے آخری سال میں دونوں فریق نورا کشتی کا ڈرامہ کرکے الگ ہو جائیں گے۔پی ڈی پی مسلمانوں سے کہے کہ ہم بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر بی جے پی نے کرنے نہیں دیا اس لئے کہ آپ لوگوں نے صرف ہمیں ووٹ دینے کے بجائے این سی اور کانگریس کو بھی ووٹ دیا تھا اب اپنی سابقہ غلطی تلافی اس طرح سے کی جائےکہ سب کو چھوڑ کر صرف ہمیں ووٹ دیاجائے۔ بی جے پی بھی ہندووں سے یہی کہے گی کہ ہم دفعہ ۳۷۰ ختم کرنا چاہتے لیکن آپ لوگوں نے صرف ۲۵ نشستوں سے نوازہ اس لئے اب کی بار کم از کم۴۴ نشستوں پر کامیاب کرو تاکہ ہم کسی بیساکھی کے بغیر اچھے دن لاسکیں ۔ گمانِ غالب تو یہ ہے کہ اس وقت تک بی جے پی مرکز میں اقتدار سے محروم ہو چکی ہوگی اور کشمیری عوام اس کی شریک حیات پی ڈی پی کو بھی بن باس پر روانہ کردیں گے ۔

مسرت عالم کی رہائی کے معاملے میں جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے لوگ بے سر پیر کے بیانات دے رہےہیں خود انہوں نے جس غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ رہائی کے بعد انہوں نے بڑے اطمینان کے ساتھ کہا’’ اپنی ۴۲ سالہ زندگی میں سے ۱۷ سال میں جیل میں گزار چکا ہوں اور آزادی کیلئے پھر ایک بار جیل جانے کیلئے تیار ہوں ۔ اس کے بعدحریت پسندکشمیری عوام کےجذبات کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ’’ میں ایک چھوٹی جیل سے نکل کر بڑی جیل میں آگیا ہوں جس کا نام کشمیر ہے‘‘۔ جو شخص عوامی جذبات و احساسات کا اس قدر ماہر نباض ہو تو اگر اسے عوام میں مقبولیت حاصل نہ ہوگی تو کیا بھیڑیا نما عمر عبداللہ، گیدڑ کی مانند غلام نبی آزاد یا لومڑی کی طرح چالاک مفتی محمد سعید پر لوگ جان نچھاور کریں گے۔ مسرت عالم کے بیان میں حزن و ملال کا کوئی شائبہ نہیں ہے اسےپڑھنے کے بعد یہ شعر یاد آتا ہے ؎
مِری زیست پُر مسرت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی
کوئی بہتری کی صورت کبھی تھی نہ ہے نہ ہو گی

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2049 Articles with 1239919 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.