حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے ایک اعلیٰ خاندان کی خاتون جس کا نام بھی اتفاق سے ”فاطمہ“ تھا کے چوری
کرنے پر جب اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو بہت سے لوگوں نے اسے
معاف کرنے کی سفارش کی، اس موقع پر رسول عربی کا کا فرمان تھا کہ اگر میری
بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا جاتا! یہ ایک
ایسا واقعہ ہے جس سے امت مسلمہ کو عدل کا درس دیا گیا۔ پہلے معاشروں میں
ایسا ہی رواج تھا کہ جب کوئی غریب جرم کر بیٹھتا تو اس کو بھرپور سزا ملتی
لیکن جب کوئی امیر اور باحیثیت شخص وہی جرم کرتا تو اسے اس کی حیثیت کی وجہ
سے صاف بچا لیا جاتا۔ اگر ہم یورپ، امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ اور مہذب
معاشروں کو دیکھیں تو انہوں نے اسی وجہ سے ترقی کی منازل طے کیں کہ وہ اپنے
معاشروں میں عدل قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دوسری جانب رسول اکرم صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیواﺅں اور ان کے نام پر انگوٹھے چومنے والوں نے
جب ان کے احکامات کے برخلاف عدل و انصاف کا راستہ چھوڑ دیا، معاشرے کو
طبقات میں تقسیم کردیا تو دنیا تو ہاتھ سے گئی ہی، اللہ کو بھی نہ صرف
ناراض کرلیا بلکہ اس کے قہر کو دعوت دی جانے لگی۔
اگر ہم اپنے معاشرے میں نظر دوڑائیں تو ہر مکتبہ فکر، ہر محکمہ، ہر جگہ
اکثریت دوغلے لوگوں کی ہے۔ صرف پچھلے چند سال کی تاریخ کو کھنگال لیں تو
عدل و انصاف کا جنازہ بڑی دھوم سے نکلتا ہوا دکھائی دے گا۔ یہ ضروری نہیں
کہ عدل و انصاف صرف عدالتوں کی ذمہ داری ہے یا کسی قانون کی کتاب میں لکھے
ہوئے طریقہ سے عدل و انصاف کیا جاسکتا ہے۔ عدل و انصاف کرنے کے لئے اخلاقی
اقدار سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ پاکستان کے بڑے مکاتب ہائے
فکرمیں سیاستدان، فوجی، عدلیہ، وکلا، میڈیا بطور خاص شامل ہیں۔ حالیہ حالات
و واقعات پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالنے سے سب جگہوں پر منافقت اور دوغلی
پالیسیوں کا دور دورہ ہے ایسا کرنے والوں کو تو پتہ نہیں شرم آتی ہے یا
نہیں لیکن قوم ضرور شرمسار ہوتی رہتی ہے۔ سب سے پہلے وکلاء کی مثال کو
سامنے رکھتے ہیں۔ پاکستان کے وکلاء نے دو سال سے زائد عرصہ وطن عزیز میں
عدلیہ بحالی تحریک چلائی جس میں بلاشبہ انہوں نے اپنی جان و مال کی قربانی
بھی دی، پیٹ پر پتھر بھی باندھے، پولیس اور دوسری ایجنسیوں سے ماریں بھی
کھائیں اور جیلیوں میں بھی گئے لیکن کیا عدلیہ کی بحالی کے بعد ان کی تمام
ذمہ داریاں ادا ہوگئیں؟ کیا وہ اتنے ”مقدس“ہوگئے کہ اگر خود قانون شکنی بھی
کریں تو کوئی انہیں پوچھنے والا نہ ہو؟ اگر کوئی اور کوئی جرم کرے، ملزم
ٹھہرایا جائے تو وہ اس کے خلاف عدالتوں میں بھی جائیں، سڑکوں پر احتجاج
کرکے بھی اپنا جمہوری حق استعمال کریں لیکن اگر ان کی صفوں میں سے کوئی
کالے کوٹ اور کالی ٹائی کی حرمت کو پامال کرے، قانون شکنی کا ارتکاب کرے تو
اس کا ساتھ دیں! اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کا موجودہ الیکٹرانک میڈیا
اکثر اوقات عوام کو تصویر کا صرف ایک رخ دکھاتا ہے جو سچ بھی نہیں ہوتا،
میڈیا کسی ایک فرد کے انفرادی فعل کو پوری کمیونٹی کو بدنام کرنے کے لئے
استعمال کرتا ہے جو سراسر غلط اور قابل مذمت ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے
کہ وکلاء بھی قانون کو ہاتھ میں لینا شروع کردیں؟
یہ تو تھی ان وکلاء کی بات کہ جو سمجھتے ہیں کہ دوسروں کے لئے اصول و ضوابط
کچھ اور ہونے چاہئیں اور ان کے لئے کچھ اور، ذرا نرم نرم، ”ہتھ ہولا “رکھنے
والے جبکہ دوسری طرف صف اول کے وکلاء میں شمار ہونے والے کچھ خصوصی افراد
ہیں جن کو اب اپنی پارٹی آئین اور قانون سے بھی زیادہ عزیز ہے، گزشتہ کل وہ
مشرف کے خلاف دلائل دیتے تھے تو کہا کرتے تھے کہ سول کیسز میں صدر کو کوئی
استثناء حاصل نہیں ہے، بدنیتی کی بنیاد پر کئے گئے افعال میں صدر کو کسی
قسم کا استثناء نہیں مل سکتا، اور اب جبکہ وہ ”بے حال“ اور ”بدحال“ سے
”بحال“ ہوچکے ہیں تو انہیں ہر طرف ”استثنا“ کی چھتری اور چھایا نظر آرہی ہے۔
اب فرماتے ہیں کہ جو لوگ صدر کے استثناء کی بات کرتے ہیں وہ صدر کا
”مواخذہ“ کیوں نہیں کرلیتے؟ اب بھلا کس میں اتنی مجال ہے کہ وہ سوال کرسکے
کہ جناب والا! کیا موجودہ صدر صاحب نے جو بھی مال ”کمایا“ ہے اور جتنی بھی
کرپشن کی ہے اور اس کرپشن کو منی لانڈرنگ کے ذریعہ ملک سے باہر بھیجا گیا
ہے تو کیا یہ سب افعال اور اعمال ”اچھی“ بلکہ ”بہت اچھی“ ”نیت“ سے کئے گئے
تھے؟ کیا نیت یہ تھی کہ جب ملک پر برا وقت آئے گا تو یہ ساری ”محنت، مزدوری“
سے کمائی گئی ”حلال“ آمدنی ملک میں واپس لے آﺅں گا تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر
بڑھ جائیں! کیا نیت یہ تھی کہ ڈکار لئے بغیر ہضم کئے گئے پیسہ سے قتل کیسوں
کی عالمی سطح پر تحقیقات کرائی جائے گی تاکہ ملک و قوم کو ایک اربوں روپے
کا غیر ضروری ”ٹیکہ“ نہ لگانا پڑے! کیا نیت یہ تھی کہ اس رقم سے ملک میں
طلباء کے لئے سکول، کالج اور یونیورسٹیاں تعمیر ہوں گی، غریب مریضوں کے لئے
ہسپتال اور شفاخانے تعمیر ہوں گے، بیواﺅں، یتیموں، مسکینوں اور بے سہارا
لوگوں کی مدد کی جائے گی! اگر ایسی نیت نہیں تھی اور یقیناً نہیں تھی تو
کیا ابھی بھی بدنیتی ثابت کرنا پڑے گی؟ جناب علامہ صاحب! اگر حق کا ساتھ
دیتے دیتے تھک گئے، اگر اب اپنے پرمٹوں اور کاروبار کی فکر زیادہ ہوگئی،
اگر اندر سے 89 والا جیالا باہر نکل ہی آیا تھا تو اپنی سابقہ کمائی ہوئی
عزت کا ہی سوچ لیتے، کیا یہ دوغلا پن نہیں کہ مشرف کے خلاف دلائل کے انبار
لگانے والا، زرداری کی بے جا حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ مشرف بھی آجکل طبلے کی
تھاپ پر یہ شعر گنگناتا ہوگا
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ ءسیاہ میں تھی
اگر بات کریں آج کے میڈیا کی تو اس مادر پدر آزادی پر رونا آتا ہے۔ نامعلوم
مقام سے ڈوریاں ہلائی جاتی ہیں اور پگڑیاں اچھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ بات کچھ
ہوتی ہے اور بنا کچھ دی جاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر کی غلطی کی سزا پورے ملک کے
ڈاکٹروں کو ”قصائی“، ”ظالم“،” نا اہل“ اور نہ جانے کیا کیا الفاظ استعمال
کرکے دی جاتی ہے۔ ایک وکیل کی کسی غلط حرکت کی بناء پر پورے ملک کے وکلاء
کو بدنام کیا جاتا ہے اور ”وکلاءگردی“ ”کالی بھیڑیں“ ”غنڈے“ ثابت کیا جاتا
ہے۔ وہی میڈیا جو کسی بیرونی اشارے پر، این جی اوز کی ایماء پر اور
ایجنسیوں کی ڈکٹیشن پر ”شازیہ کیس“ کو دن رات مسلسل ایک وکیل کے خلاف اور
پوری وکلاء برادری کو بدنام کرنے کے لئے کووریج کرتا ہے، اسے مغلپورہ لاہور
میں گیارہ سال کے بچے کو بدفعلی کے بعد قتل کئے جانے کے افسوسناک واقعہ کی
بھنک بھی نہیں ملتی۔ وہ میڈیا جو ایک ایماندار افسر کو اس کے ڈرائیور کی
غلطی کی سزا دلوانے کے لئے سرگرم عمل ہوتا ہے اسی میڈیا کو پاکستان میں
ہونے والے ڈرون حملے صرف ”ایک منٹ“ کی خبر کے لئے نظر آتے ہیں اور پھر
نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ وہ میڈیا جو کسی اسلامی ملک میں اٹھارہ سال کی
لڑکی کی پچاس سال کے شخص سے شادی پر واویلا مچا دیتا ہے وہی میڈیا یورپ اور
امریکا میں آٹھ سال کی لڑکی کے ساتھ زیادتی کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ اپنے
پروگراموں کو چلانے کے لئے اور اشتہار حاصل کرنے کے لئے اخلاقیات کا جنازہ
نکالنے والا میڈیا آخر کار ایسی خبریں ہی کیوں زیادہ اچھالتا ہے جس میں ملک
و قوم اور اسلام کی بدنامی کا پہلو نکلتا ہو اور اس کو بڑھا چڑھا کر پیش
کرنے اور بار بار نشر کرنے سے آخر وہ کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔
سیاستدانوں کے تو کیا کہنے ہیں۔ ان کے بھی اصول و ضوابط اپنے لئے کچھ ہیں
اور دوسروں کے لئے کچھ! سارے لاہور کو پلازوں کا قبرستان بنا دیا گیا لیکن
کچھ ”خصوصی“ پلازوں کی طرف آنکھ اٹھانے کی ہمت کسی میں بھی نہیں! کراچی کے
حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جارہے ہیں اور اسمبلی میں ایک دوسرے پر ”پھولوں“
جیسی زبان استعمال کی جارہی ہے! اگر ایک دوسرے پر اعتماد نہیں، ٹارگٹ کلنگ
کا مجرم سمجھا جارہا ہے تو اوپر سے ڈھونگ کیوں رچایا جارہا ہے۔ کوئی ملک سے
”باہر“ بیٹھ کر وعظ کرتا ہے تو کوئی ایوان صدر کے ”اندر“سے، ایک دوسرے کی
گردن کاٹنے کے خواہشمند لیکن جب مفادات مشترکہ ہوجائیں تو باہم شیر و شکر!
اراکین اسمبلی کی مراعات بڑھانی ہوں، عوام کو قبر میں دھکا دینے کے لئے
مہنگائی کا ”ٹیکہ“ لگانا ہو، نوکریوں اور عہدوں کی بندر بانٹ کرنی ہو تو سب
ایک! اتنے دھڑلے سے جھوٹ بولتے ہیں اور ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ کوئی
مہذب انسان سوچ بھی نہیں سکتا، سننے والا اور دیکھنے والا خود شرمندہ ہوتا
رہتا ہے۔ ایک پرانی کہاوت ہے کہ ایک بھینس چور تھا، جہاں بھینس دیکھتا تھا
اس کے ہاتھوں میں خارش شروع ہوجاتی تھی۔ ایک دن وہ اپنی بیٹی کے گھر جو
دوسرے گاﺅں میں تھا، اسے ملنے گیا اور رات کو واپس نہ آیا۔ صبح جب اپنے
گاﺅں واپس پہنچا تو لوگوں نے پوچھا، چاچا! رات کہاں گزاری، کہنے لگا ”جب
بیٹی کو مل کر شام کو واپس آنے لگا تو گاﺅں کے چودھری کی بھینس دیکھ کر رہ
نہ سکا اور اسے کھول لیا، گاﺅں والوں نے دیکھ لیا اور پکڑا گیا“ لوگوں نے
پوچھا پھر مارا تو نہیں؟ جواب دیا ”گاﺅں والوں نے مجھے میری بیٹی کی وجہ سے
مارا تو نہیں لیکن سارے کپڑے اتار کر درخت پر بٹھا دیا“ انہوں نے پوچھا
”پھر کیا ہوا“؟ کہنے لگا ”ہونا کیا تھا، سارا گاﺅں شرمندہ شرمندہ سا تھا“ |