اسرائیل کی ایک اور ہٹ دھرمی

 انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو اپنے فوجیوں پر مقدمہ چلانے نہیں دیں گے

اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو بینجمنن نے عالمی برادری کو ایک بار پھر یہ کہہ کر چیلینج کردیا ہے کہ اسرائیل اپنے فوجیوں کے خلاف ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں ممکنہ جنگی جرائم کے الزامات پر مقدمات نہیں چلانے دے گی ۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو تو پہلے ہی رد کرتا چلا آ رہا ہے اور وہ انھیں کسی خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ اب اس کے انتہا پسند وزیر اعظم Benjamin Netanyahu نے یہ بیان دیا ہے کہ ہم اسرائیل کی دفاعی افواج کے فوجیوں اور افسروں کو ہیگ میں عالمی فوجداری عدالت میں گھسیٹنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسرائیل نے انٹرنیشنل کرائم کورٹ میں اپنے خلاف درخواست کے ردعمل میں فلسطینی اتھارٹی پر اقتصادی پابندیاں لگانا شروع کر دی ہیں اورمحصولات کی رقم کی ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز کی قسط کو ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس نے فلسطینیوں کے خلاف امریکا سمیت مختلف مقامات پر مقدمات چلانے کی بھی دھمکی دی ہے۔ اسرائیل ہر ماہ فلسطینی اتھارٹی کو تقریباً ساڑھے 12 کروڑ ڈالرز ادا کرتا ہے ۔ یہ رقم فلسطینی اتھارٹی کے ملازمین کی تنخواہوں کی ادئیگی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اتھارٹی کے ملازمین کی ماہانہ تنخواہوں کی کل مالیت 20 کروڑ ڈالرز بنتی ہے۔ دوسری جانب امریکا نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اتھارٹی کو محصولات کی رقم کی منتقلی معطل کر نے کی مخالفت کی ہے۔ امریکی دفتر خارجہ کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ '' اسرائیل کا یہ اقدام کشیدگی میں اضافے کاسبب بنے گا۔ '' دوسری جانب اسرائیل نے فلسطین کو مزید انتقامی اقدامات کی دھمکی دی ہے۔حالیہ ''ویک اینڈ'' کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اسرائیلی وزر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کی تھی ، اسی طرح امریکی ٹیم فلسطینی حکام کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔امریکہ کی کوشش ہے کہ معاملات کو بڑھنے نہ دیا جائے اور ایک دوسرے کے خلاف ادلے بد لے میں کیے جانے والے اقدامات کو روکا جائے۔' اسرائیل اورفلسطین کے درمیان حالیہ تنازع نومبر دو ہزار بارہ سے فلسطینی اتھارٹی کو اقوام متحدہ میں مبصر کی حیثیت حاصل ہو نے پر ہوا ہے۔ اسرائیل نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے انتہائی حساس علاقوں میں مزید یہودی بستیاں تعمیر کرے گا۔ امریکہ بھی فلسطین کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کو عالمی عدالت میں گھسیٹنے ، اور فلسطینی اتھارٹی کیطرف سے فوجداری عدالت کا حصہ بننے کے فیصلے پرناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ ایسے فیصلوں سے فلسطینی عوام کی الگ ریاست کی منزل قریب نہیں آئے گی ۔محصولات کی رقم روکنے پر فلسطین نے اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور اسے ایک اور 'جنگی جرم' قرار دیا ہے۔یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل نے فلسطین کو ٹیکس کی رقوم کی منتقلی کو روک دیا ہو۔ اس سے قبل سنہ 2014 میں بھی جب فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے مختلف بین الاقوامی معاہدات اور کنونشنز میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا اسرائیل نے ٹیکسوں کی رقوم فلسطینی اتھارٹی کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ہیگ میں قائم جرائم کی عالمی عدالت یکم جولائی سنہ 2002 میں روم کے قانون کے نفاذ کے بعد قتل عام، انسانیت کے خلاف جرائم اور جنگی جرائم کے واقعات پر مقدمات چلا سکتی ہے ۔فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے عالمی فوجداری عدالت میں شمولیت کا فیصلہ اس وقت کیا جب انھیں اس کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہیں آیا۔فلسطینی صدر محمود عباس نے عالمی فوج داری عدالت کے معاہدہ روم کے علاوہ بھی تقریباً 20 دوسرے عالمی اداروں میں شمولیت کے معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔ ا قوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے فلسطین کی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (جرائم کی عالمی عدالت) کی رکنیت حاصل کرنے کی درخواست منظور کر کے فلسطین کے لئے امید کا ایک دروازہ کھول دیا ہے۔ اب فلسطین کو اس بات کے مواقع حاصل ہوں گے کہ وہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں جنگی جرائم کے مقدمات دائر کرسکے۔انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے ارکان کی 122 ملکی کانفرنس میں فلسطینی اتھارٹی کو بطور مبصر کے شریک ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی کے بین الاقوامی کرائم ٹریبیونل کا حصہ بننے کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ اقوم متحدہ کی جانب سے بان کی مون کے اس فیصلے سے اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے بھرپور مخالفت کے باوجود ہیگ میں قائم عالمی عدالت یکم اپریل کے بعد سے فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم پر مقدمات چلا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفین یوجرک نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بان کی مون نے آئی سی سی کے رکن ممالک کو اس بات سے آگاہ کردیا ہے۔ سیکرٹری جنرل نے اس بات کی تصدیق بھی کر لی ہے کہ فلسطین کی طرف سے یہ درخواست قواعد کے مطابق دی گئی تھی۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے آئی سی سی اور دیگر 16 عالمی معاہدوں اور دستاویزات پر دستخط 31 دسمبر کو سلامتی کونسل کی طرف سے ان کی ایک قرار داد رد کیے جانے کے ایک دن بعد کیے تھے۔ دوسری جانب امریکی کانگریس نے بھی 44 کروڑ ڈالر کی امداد روک لینے کی دھمکی دی ہے۔ گذشتہ برس پچاس دن تک غزہ پر اسرائیل کی فوج کشی کی وجہ سے 2200 فلسطینی شہید ہوگئے تھے جن میں چار سو سے زیادہ بچے بھی شامل تھے۔اسرائیل جنگ کا آغاز کرتے ہوئے، طاقت کے زعم میں تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ غزہ کو نیست و نابود کردے گا۔اسرئیل کے پاس ایسا سوچنے کا جواز بھی تھا۔کیونکہ وہ فلسطین (حماس) کے ہر حملے کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس کے پاس ایسے ایئرن ڈوم راکٹ شکن موجود ہیں جو فلسطین کے ہر راکٹ کے ہدف اور نشانے کو سمجھ کر اسے فضا میں ہی ناکام بنادے، لیکن جب جنگ شروع ہوئی تو فلسطین کے کئی راکٹ اپنے ہدف پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔اسرائیل کے لوگ مارے گئے۔حماس نے بے جگری سے یہ جنگ لڑی اوراسرائیل کو یہ ماننے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اس کا ایک مضبوط دشمن ہے۔حماس نے اس لڑائی میں نہ صرف اسرائیل کے 69نوجوان ہلاک کیئے۔ بلکہ یہ بھی ثابت کیا کہ وہ طویل جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل نے فلسطین کو نیست و نابود کرنے کا جو خواب دیکھا تھا، اس میں ناکامی نے اس کو نفسیاتی شکست میں مبتلا کردیا ہے۔ ہیگ میں قائم یہ ادارہ(جرائم کی عالمی عدالت) آزادانہ حیثیت میں کام کرتا ہے اور یہ اقوام متحدہ کے نظام کا حصہ نہیں ہے۔ فلسطین آئی سی سی کی رکنیت کے حصول میں عرصہ سے سرگرم تھا، تاکہ اسرائیل کے انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کو اس عدالت میں پیش کیا جا سکے۔ اسی لیئے فلسطینیوں نے آئی سی سی کی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں اپنے لیے مبصر کی حیثیت سرکاری طور پر قبول کر لی تھی۔ دوسری طرف ہیومن رائٹس واچ میں آئی سی سی کی وکیل بلقیس جراح کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش یہ تھی کہ فلسطین کسی طرح کورٹ میں شامل ہو جائیں تاکہ کسی طرف سے بھی انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کا جائزہ لیا جا سکے۔ یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ روس، چین ، بھارت جیسے ملکوں کو اتفاق رائے سے دعوت دی گئی تھی۔ فلسطینیوں کو مبصر کے طور پر دعوت دینے پر بھی کسی نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل میں نفسیاتی شکست کا احساس جنم لے رہا ہے اور پڑھا لکھا طبقہ یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ اس میں غزہ کی اس جنگ کو اسلحہ کے بل پر جیتنے کی صلاحیت نہیں ہے۔اس جنگ میں اسرائیل کی طرف سے کھلے عام عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی رہی ۔ پناہ گزینوں کی رہائش گاہوں پرتابڑ توڑ حملے کیئے گئے۔ اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لئے ہوئے بچوں اور عورتوں کو ہلاک کیا گیااور عالمی اپیلوں کو نظر انداز کیا گیا۔ اس جنگ میں اسرائیل کوسفارتی ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اس جنگ میں اسرائیل کے رویے نے پوری دنیا میں یہ پیغام دیا تھا کہ وہ ایک جابر قوم ہے اور جنگ کے دوران اصولِ جنگ کو یکسر نظر انداز کردیتی ہے۔پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جہاں کے بڑے شہروں میں اسرائیلی بربریت کے خلاف احتجاج نہ ہوا ہو، اس سے پوری دنیا میں اسرائیل کی شبیہ ایک درندہ صفت قوم کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی ہے ،اسرائیل نے اس جنگ کا االزام حماس پر تھوپنے کی بہت کوشش کی لیکن دنیا نے اسرائیل کی ہر دلیل کو مسترد کردیا۔یہ اسرائیل کی بڑی سفارتی ناکامی ہے۔سفارتی سطح پر اسرائیل کو ناکامی کا پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اس کے حق میں صرف امریکہ کا ایک ووٹ پڑا ،باقی 29 ملکوں نے اس کے خلاف ووٹ کیا۔ اس ووٹنگ میں اس کے کئی دوست ملک جن میں ہندوستان بھی شامل ہے اسرائیل کی بربریت کو دیکھتے ہوئے مخالف ہوگئے۔ اسرائیلی حملوں میں دو ہزار دو سوسے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے۔جن میں چار سو سے زیادہ بچے،تقریبا ڈھائی سو عورتیں،74 بوڑھے شامل تھے۔ ان حملوں میں دس ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں جن میں 2805 بچے، 1823عورتیں اور 343 بوڑھے شامل ہیں۔اسرائیل نے شروع کے چار ہفتوں میں غزہ پر کل 55800 حملے کیے،ان میں6663فضائی، 33871 بری اور 16209 سمندری حملے کیے۔ان حملوں میں 138 مساجد پورے طور پر اور 110 مساجد جزوی طور پر منہدم ہوئی ہیں۔52 اسپتالوں کو نقصان پہنچا تھا۔توقع ہے کہ عالمی عدالت میں جانے سے اسرائیل کے جرائم بے نقاب ہوں گے۔ اور فلسطینوں کو اپنے موقف میں اقوام عالم کی حمایت حاصل ہوگی۔

 

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 419099 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More