ایران حکومت نے بڑی مہارت سے انتہا پسندسیاست شروع کی
ہوئی ہے ۔ اس سیاسی مہارت کے اثرات سے امریکا شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کے دور
کے تعلوقات کی نشان دہی ہونا شروع ہو چکی ہے ۔ چند دن پہلے ایران کے ایک
طاقت ور شخصیت سابق وزیر انٹلیجنس اور موجودہ صدارتی مشیر علی یونس کی طرف
سے بیان تھا کہ ا یران عظیم الشان سلطنت بن چکا ہے ۔عراق ہمارا ہے۔ا۔کھوئی
ہوئی زمین واپس لے رہے ہیں۔ اسلام پسندوں (سنیوں)اور نئے عثمانیوں سے
مقابلہ کریں گے۔ترک ہمارے تاریخی مخالف ہیں۔ اس بیان سے ایران کی پالیسی کو
دیکھیں اور رضا شاہ پہلوی دور کی پالیسیوں کا معائنہ کریں تو بات سمجھ آرہی
ہے۔ رضا شاہ نے مسلمانوں سے ناطہ کاٹ کر چار ہزار سال پرانی تاریخ سے ناطہ
جوڑنے کا جشن بھی منایا تھا۔وہ مسلمانوں سے ناطہ توڑ کے امریکا کا بہترین
دوست بن گیا تھا اور ایشیاء میں امریکی ایجنٹ قرار پا یا تھا۔ یہ صرف اس
لیے ہوا تھا کہ اُس نے امریکہ کی خواہشات کے تحت اپنی اسلامی شناخت کو ختم
کیا تھا اور تاریخ کی پرانی غیر اسلامی ایرانی حکومت سے جوڑا تھا۔ امریکا
نے ایسی ہی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے مصر کے حکمرانوں کا ناطہ بھی اسلام
سے توڑ کر مصر کے تاریخی فرعونوں سے جوڑنے پر مصر کے حکمرانوں سے خوش رہا
اورتیس سال تک امریکی پٹھو حکمران مصر کی مظلوم رعایا پر حکمرانی کرتے
رہے۔یہی پالیسی عظیم مسلم ترکوں کے ساتھ بھی برتی گئی اور کمال اتاترک کو
سامنے لایا گیا اور اُس نے پھر ترکی سے اسلام کو نکالا تھا۔ ترکی میں اسلام
سے متعلق ایک ایک چیز ختم کی گئی تھی۔پاکستان میں بھی ڈکٹیٹر مشرف کو اِس
بات کے لیے کھڑاکیا گیا تھا اور اُ س نے بیان دیا تھا کہ میرا آئیڈئیل کما
ل اتاترک ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف نے سب سے پہلے پاکستان اور روشن خیال پاکستان کی
اصطلائیں بھی اسی لیے گھڑی تھیں۔ گو کہ ڈکٹیٹر مشرف کے بعد صدر زرداری اور
اب نواز شریف بھی اِس پر پاکستان میں بڑی مہارت سے عمل کر رہے ہیں۔ تعلیمی
نصاب سے ایک ایک کرکے اسلامی دفعات ختم کی جارہی ہیں۔۱ ۲ویں ترمیم کے ذریعے
بڑی مہارت سے صرف داڑھی والوں کو ہی دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ بات دور
تک نکل گئی۔ بات ایران کی حکومت کے عزائم سے شروع ہوئی تھی۔ ایران کو
امریکی گرفت سے نکال کررضا شاہ کے خلاف خمینی ؒ نے پیرس سے جلاوطنی کے
دوران تحریک شروع کی اور رضا شاہ کے چار ہزار سالہ قومی بت کو پاش پاش کر
کے شعیہ نہیں اسلامی انقلاب بر پاہ کیا تھا اور امریکا کے عزائم کو خاک میں
ملا دیا۔ خمینی ؒ نے نعرہ دیا تھا لا شرقیا۔ لاغربیا۔ ۔ ۔ اسلامیا۔
اسلامیا۔ اس انقلاب کو اسلام پرگہری نظر رکھنے والے مسلم دنیا کے اکابرین
نے سنی شیعہ سوچ کو ایک طرف رکھتے ہوئے خوش آمدید کہاتھا ۔ اس لئے کہ اس
انقلاب میں مسلمانوں کے ایک فرقہ شیعہ کی بات کرنے کے بجائے اسلام کے آفاقی
سوچ کی بات کی گئی تھی۔ اسلامی انقلاب کی آفاقیت کی کچھ جڑیں اب بھی ایران
کے معاشرے کے اندر موجود ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے حکمرانوں کی ذاتی خواہشات
کہ وہ ہمیشہ صحیح پٹری سے اُتر جاتے ہیں۔ انہیں صرف اقتدار سے واسطہ ہوتا
ہے۔ یہی کچھ ایران کے حکمرانوں نے بھی کیا۔ وہ شعیہ سنی اتحاد اور اسلام کے
آفاقی پیغام کو پس پشت رکھ کر پھر اسلام کے ازلی دشمن کے ساتھ ا تحاد کر کے
شام ،عراق، یمن اور مشرق وسطیٰ جہاں سنی اکثریت ہے پر بھی حکمرانی کے خواب
دیکھ رہے ہیں اور امریکا کے ساتھ مل کر ان ملکوں کی شعیہ آبادی کو اُکسا
رہے ہیں وہ اسطرح ایک بار پھر امریکہ کے چنگل میں پھنستے چلے جا رہے
ہیں۔اور اسلام کی آفاقی سوچ سے ہٹ کر قومیت کی بند گلی والی سوچ کے پیچھے
پڑھ گئے ہیں۔ امریکا نے ایرانی حکمرانوں کو رضا شاہ پہلوی والا سبق پھر سے
پڑھانا شروع کر دیا اور وہ اپنا رشتہ اسلام سے توڑ کر اسلام سے پہلے والی
پرانی ایرانی تاریخ کے پجاری بنتے جا رہے ہیں۔ اسی سوچ کا اظہار علی یونسی
صاحب کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے۔ اگر اس سوچ کو موجودہ حالات سے پہلے کے
حالات سے ملا کر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے ایرانی
حکمرانوں کو پہلے طالبان کے خلاف استعما ل کیا۔ طالبان اسلامی حکومت جس نے
امریکا کے خلاف کوئی بھی دہشت گردی نہیں کی تھی اُسامہ بن لادن کا بہانہ
بنا کر افغانستان کا تورا بورہ بنا دیا تھا۔ شمالی افغانستان جس میں شیعہ
ہزارہ لوگ رہتے ہیں اُن کو ایرانی حکمرانوں کی ایما پر طالبان کے خلاف کیا
گیا۔ اور ایک وقت آیا کے طالبان اور ایران کی فوجیں ایک دوسرے کے خلاف
سرحدوں پر پہنچ گئیں تھیں۔ ایران کی حمایت یافتہ افغان حکومت میں شیعہ
افراد کی زیادہ تعداد داخل کر دی گئی ہے ۔عراق شام کے سرحدی علاقوں میں نئی
قائم ہونے والی داش سنی حکومت سے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کی ملیشیا لڑ
رہی ہے۔جس پر ایران نے آگے بڑھ کر عراق کو اپنا حصہ قرار دے دیا ہے۔ یمن
میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ شام میں بھی شعیہ اقلیت کی بشار حکومت کی مدد
کی جا رہی ہے۔یہود و نصارا نے بڑی مہارت سے سنی شیعہ کو مقابل کھڑا کر دیا
ہے۔ موجودہ تناظر میں ہم اپنے کالموں میں اکثر اس بات کو زور دے کر لکھتے
رہتے ہیں کہ مسلم دنیا کے جن ملکوں میں شعیہ آبادی زیادہ ہے اُس میں شعیوں
کو حکومت کا حق ہونا چاہیے اور جن ملکوں میں سنی آبادی زیادہ ہے اُن ملکوں
میں سنیوں کو حکومت کرنے کا حق ہونا چاہیے۔ رہا شعیہ سنی عقاہد تو اس کا
فیصلہ آخرت پر چھوڑ دینا چاہییے ۔ اِس کا اﷲ فیصلہ کر دے گا کہ کون حق پر
ہے اور کون حق پر نہیں ہے۔ اسلامی حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ یہود نصارا کی
مسلمانوں کولڑانے والی پالیسیوں کو سمجھیں اوراس فلسفے پر عمل کر کے ہی
مسلمان اپنے ازلی دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اس لیے ایران حکومت کو علی
یونسی کے بیان سے رجوع کرنا چاہییے ورنہ اس کا رد عمل سنی حلقے سے آئے گا
جو مسلمانوں کے لیے نیک شکون نہیں ہو گا۔ جبکہ دشمن یہی چاہتا ہے۔ اس بات
کو شاعر اسلام علامہ اقبال ؒ نے اس شعر میں بیان کیا ہے۔
بتان رنگ و خون کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا۔ ۔ ۔ نہ تورانی رہے باقی نہ
ایرانی نہ افغانی
اﷲ امتِ مسلمہ کا نگہبان ہو آمین۔
|