23 مارچ …… سڑسٹھ سال میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا

23 مارچ کوہم ہر سال بڑے تزک احتشام سے مناتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ اور حزب مخالف ہر سال ہی عہد تجدید کرتے ہیں جس میں یہ عہد بھی موجود ہوتا ہے کہ ہم اس ارض پاک کو قرارداد مقاصد کی روح کے مطابق اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے کوشاں رہیں گے۔ لیکن قوم سے کیے جانے والے یہ عہد اگلی صبح کسی کو یاد نہیں رہتے ……24 مارچ سے اگلی 23 مارچ تک پاکستان کو صحیح معنوں میں قرارداد مقاصد جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیدیا گیا اس کی روح کے مطابق تو ایک طرف اس کے ہزارویں حصے پر بھی عمل نہیں ہوتا۔ قرارداد مقاصد یا قرارداد پاکستان مینار پاکستان پر بھی تحریر ہے لیکن شائد ہی وہاں جانے والا کوئی پاکستانی اس کے مطالعہ کی کوشش کرتا ہو۔ عام پاکستانی تو کنجا مجھے اسی طرح یقین کامل ہے کہ جیسے موت برحق ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور حزب مخالف کے کسی راہنما کو یہ قرارداد یاد نہیں ہوگی۔ قرارداد پاکستان تو ایک طرف ہم میں سے کتنے صحافی ، وکیل دانشور اور سیاست دان ہیں جو یہ دعوی کریں کہ پاکستان کا آئین انہیں یاد ہے؟قانون سازی میں پارلیمان کے اہلکار اور وزارت قانون کے ماہرین کا عمل دخل ہوتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے بجٹ کی تیاری میں وزارت خزانہ کے اہلکاران کا سارا کمال ہوتا ہے۔

سرسٹھ سالوں میں پاکستان پر بہت ساری جمہوری حکومتیں برسراقتدار آئیں تحریک پاکستان کی جدوجہد میں پورے اخلاص سے نمایاں کردار ادا کرنے والے قائد اعظم کے رفقائے کار اپنی پوری کوشش کے باوجود پاکستان اور اس کے عوام کو ڈیڑھ دو درجن صفحات کا آئین نہ دے سکے۔پاکستان کو بے آئین سرزمین رکھنے کی سوچ کے پس پردہ کیا عوامل رہے ہیں یہ تو اس دور کے لوگ ہی بتا سکتے ہیں،جو اس دور کے عینی شاہدین ہیں،لیکن عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ ملک کے طاقتور طبقوں سول اور خاکی افسر شاہی کے اتحاد کاپاکستان کو بے آئین رکھنے میں اہم کردار رہا ہے۔ آگے چل کر ایوب خان ، یحیی خان، ضیا ء الحق اور جنرل مشرف کے ملک پر قبضے کے جنون نے اس بات کو سچ ثابت کیا کیونکہ ان سب پاکستان کے خیر خواہوں نے آئین کو چند صفحات کا کتابچہ قرار دیا اور بار بار اسے معطل رکھا بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہنے میں ذرا بھی جھجک محسوس نہ کی کہ’’ آئین کیا ہے بارہ صفحات کا ایک کتابچہ ،جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں‘‘

پاکستان کی محبت کے جزبہ سے سرشار اخلاص سے جمہوریت کو پاکستان کے بہتر جاننے والے پارلمنٹیرین نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر1956 کا آئین تخلیق کیا اور اس کے نفاذ کے لیے یوم پاکستان کا انتخاب کیا اور شائد اس آئین کے تخلیق کاروں کو بعد میں آنے والے حالات کا علم ہو چکا تھا اس لیے انہوں نے 23 مارچ یوم پاکستان کو یوم جمہوریہ سے منسوب بھی کردیا تھا، چونکہ یہ آئین پارلیمانی طرز حکومت کا طرفدار تھا اس لیے طالع آزما ایوب خان نے اسے منسوخ کرنے میں اپنی عافیت سمجھی-

کبھی ہم نے اس امر پر غور کرنے کی زخمت گوارہ نہیں کی کہ گذشتہ سرسٹھ سالوں میں ہم نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے، جب بحثیت قوم ہمیں اتنا وقت بھی میسر نہیں کہ ہم اپنا احتساب کر پائیں کہ ہم نے قیام پاکستان سے اب تک کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔ جہاں تک میں اس سوال کا نتیجہ حاصل کر پایا ہوں وہ یہی ہے کہ ہم نے گذشتہ سرسٹھ سالوں میں کھویا ہی ہے پایاکچھ نہیں ۔ ہم ایک قوم نہیں بن پائے، ہم ایک ملت نہیں بن پائے۔ ہم مسلمان متحد ہونے سے قاصر رہے۔ اپنے مسلک میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کو مسلمان تسلیم کرنے کے روادار نہیں رہے ۔ہم ایٹمی قوت ضرور بن گئے ہیں مگر پاکستانی اور مسلمان نہیں بن پائے۔اگرہم ان سڑسٹھ سالوں میں کچھ بن پائے ہیں تو وہ سنی،شیعہ۔وہابی۔دیوبندی،بریلوی،چکڑالوی بن پائے ہیں اس کے علاوہ ہم نے مسلمانوں کو کافر اور دہشت گرد بنانے میں خود کفالت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ ہم متحد ہونے کی بجائے چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹنا پسند یدیدہ فعل سمجھ بیٹھے۔پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں ایک قومی امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی کا قیام عمل مین لایا گیا اور اس کے چیئرمین مولانا یوسف اعوان مقرر ہوئے۔آج اس قومی امن کمیٹی برائے بین المذاہب ہم آہنگی کئی خود رو گروہوں میں بٹ چکی ہے اور ہر گروہ ’’اصلی تے وڈی ‘‘ قومی امن کمیٹی ہونے کی دعویدار ہے لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اس کمیٹی کا ایک دھڑا ممبر شپ کے نام پر معززین پاکستان سے بھاری رقوم بٹور رہا ہے۔ ہماری ناکامی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ پاکستان اور قوم کے لیے صدارتی طرز حکومت مفید ہے یا پارلیمانی نظام حکومت بہتر ہے۔ سیاسی حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں تو وہ ملک میں پارلیمانی نظام حکومت رائج کرتی ہیں اور جب غیر جمہوری حکومتیں برسراقتدار آجائیں تو وہ صدارتی نطام حکومت کاانتخاب کرتی ہیں۔اس مقصد کے لیے 1973 کے آئین میں ترامیم کرکرکے اسکا حلیہ تک بگاڑ دیا گیا ہے۔ ایک میدان اور بھی ہے جس میں ہم نے روئے زمین پر اپنا ثانی پیدا نہیں ہونے دیا وہ میدان احسان فراموشی کا ہے،جس قومی راہنما نے پاکستان کو دنیا میں باعزت مقام دلانے کے لیے کام کیا ہم نے اس کے گلے میں پھانسی کا پھندہ ڈالدیا گیا کسی کو سندھڑی اور کسی کو جدہ پہنچا دیا گیا۔ ہماری عدالتوں نے بھی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر انصاف نہیں کیا بلکہ کھلی آنکھوں سے اور کٹہرے میں کھڑے افراد کے چہرے دیکھ کر فیصلے دیئے گئے جس سے عدلیہ کے معزز و محترم ارکان نے طالع آزماؤ ں کی نگاہوں اور دلوں میں اعلی مقام حاصل کرنے میں تو کامیابی و کامرانی حاصل کرلی لیکن عالمی سطح پرملکی و عدالتی وقار خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔

سول حکمران ہوں یا طالع آزما ہوں سب نے اقرباپروری نہ کرنے،ملکی مفادات پرذاتی مفادات کو ترجیح نہ دینے کا حلف اٹھاتے ہیں مگر حلف نامے پر دستخط کر لینے اور چائے پانی سے مہمانان گرامی کی تواضع کے بعد سب کچھ مدنظر رکھا گیا سوائے قومی ،ملکی مفادات کے۔اس تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ ہم نے قومی و ملی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی ۔پاکستان کی تعمیر ترقی کی بجائے اپنے ذاتی یا فیملی کاروبار کو بام عروج پر پہنچایا اور ان مقاصد کے حصول کے لیے قومی وسائل کو شیر مادر کی طرح استعمال کیا۔ عوام کی خبرگیری کے لیے منافع خوروں،قبضہ گروپوں اور کرپٹ افسر شاہی کو کھلا چھوڑ دیا گیا، جس کے ثمرات کاہم آج سامنا کر رہے ہیں۔ ہم نے سڑسٹھ سالوں میں سوائے ناکامیوں کے کچھ نہیں پایا جبکہ اپنا مشرقی حصہ کھونے ، آئین کو بار بار معطل کرنے، ایک دوسرے کو کافر بنانے، دہشت گرد پیدا کرنے سمیت بہت کچھ کھویا ہے اور ابھی بھی کھونے کا سفر جاری و ساری ہے۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144475 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.