میاں نواز شریف اور ان کی جماعت پہلے سے کہیں زیادہ ادلے
کا بدلہ فوری دینے کے پابند ہوگے ہیں ن لیگ نے اپنی حکومت بچانے کیلئے اپنے
اتحادیوں کا دامن نہ چھوڑا ۔جس کے باعث حکومت گرتے گرتے بچ گئی ن لیگ کی
حکومت پر سب سے برا وقت دھرنوں کی صورت میں آیا جب پی ٹی آئی اور عوامی
تحریک نے اسلام آباد میں اپنے چند ہزار لوگوں کے ساتھ ریڈ زون میں ڈیرے ڈال
لئے ،اس وقت لوگوں کا کہنا تھا کہ ن لیگ کی حکومت صبح گئی یا شام کو۔۔۔
لیکن یار لوگ اس سے با خبر تھے کہ ن لیگ کی حکومت نہیں گرے گی کیونکہ
فرینڈلی اپوزیشن ان کے ساتھ ہے اور اس بحران سے نکالنے کیلئے پی پی کے شریک
چیئرمین آصف علی زرداری نے پتا نہیں کون کون سے سیاسی پتے کھیلے خدا ہی
جانے جس کے باعث ساری سیاسی قیادت ایک پیج پر جمع ہوگئی ،لیکن یہ حقیقت ہے
کہ ن لیگ کی حکومت بچانے کیلئے پی پی کے شریک چیئرمین اور باقی اہم عہدے
دار شب وروز مصروف عمل رہے ،اسی طرح مولانا فضل الرحمان کا ساتھ بھی قابل
رشک رہامولانا کی دھمکی بھی کام آگئی کہ ہم بھی اسلام آباد کی طرف عریانی،
فحاشی،بد تہذیب کے خاتمے کیلئے مارچ اور دھرنا دے سکتے ہیں ،یعنی پی پی اور
جے یو آئی (ف) نے ن لیگ کا پورا پورا ساتھ دیا جس کے باعث نواز حکومت بچ
گئی اس احسان کا بدلہ جھکانے کیلئے میاں نواز شریف نے
مفاہمت،برداشت،قربت،مل کر چلنے کی اصلاحات کا سہارا لیتے ہوئے چیئرمین سینٹ
کی سیٹ پی پی کے رضا ربانی،ڈپٹی چیئرمین کی سیٹ جے یو آئی کے مولانا
عبدالغفور حیدری کو دے دی ہے میرے نقطہ نظر سے قارئین دانشوروں کا اختلاف
بھی ہو سکتا ہے مگر مجھ ناقص کے نزدیک اکثریت میں ہونے کے باوجود ن لیگ کا
سینٹ چیئرمین اور وائس چیئرمین کی قربانی اور سیٹیں تحفے کے طور پر پلیٹ
میں رکھ کرپی پی ،جے یو آئی کودے دینا یہی ظاہر کر رہا ہے ۔حالیہ چیئرمین
اور ڈپٹی چیئرمین کے الیکشن بھی مک مکا کی سیاست ہے جس سے کوئی تبدیلی نہیں
آئے گی کیونکہ اس وقت پاکستان میں مک مکا کی سیاست کا راج ہے ایوان بالا کے
منتخب عہدیداران کے انتخاب کے دوران ہارس ٹریڈنگ کے خلاف کی نہیف آوازیں
بھی سنائی دیں کہ ہارس ٹریڈنگ کے خلاف اعلان جہاد کرنے والوں کے بکس سے سات
کی بجائے سولہ ووٹ کیسے نکل آئے؟ یہ ہارس ٹریڈنگ نہیں تو اور کیا ہے؟اس بار
شائد یہ آواز اس لئے زیادہ سنائی نہیں دی کہ تمام سیاست دانوں نے سینٹ
ممبران کے انتخاب پر ہونے والی سبکی کے باعث چپ ساد لی ۔ امید کی جارہی ہے
کہ سینٹ چیئرمین کی بلامقابلہ تقرری اور ڈپٹی چیئرمین کی فرینڈلی جیت سے
ایوان بالا کے کامیاب یہ امیدوار ایسے کرپشن کی گنگا میں اس طرح ہاتھ نہیں
دھویں گے جس طرح عام سینٹ ممبران ۔۔۔۔ کیونکہ عام سینٹ ممبر کے بارے میں
زدعام یہ بات سننے کوملی کہ پندرہ کروڑ کے لگ بھگ خرچہ آیا ان کا مفاہمت کے
باعث کم خرچ ہوا۔ صورت حال یہ ہے کہ جو کسی کیلئے کام کررہاہے اسے نوازا
جارہاہے مخالفین کو زچ کرنا بے جا تنقید وتنقیص کا عمل جاری وساری ہے تنقید
برائے اصلاح کی بجائے تنقید برائے تنقید سے کام لیا جا رہاہے۔ ایسا الیکشن
جو مفادات پر قربان ہووہ ملک میں کیا تبدیلی لائے گا؟ پی پی کا امیدوار
متفقہ طور پر لانا تھا تو عام انتخابات میں متفقہ امیدوار کیو ں نہیں لائے
گئے؟ اگر اتنی ہی قربتیں ہو گی ہیں تو الیکشن کا کھیل چھوڑ کر سلیکشن کا
کھیل کھیلنا شروع کریں بلدیاتی انتخابات میں بھی تمام پارٹیاں مک مکا کی
سیاست کرکے یوسی لیول پر بلا مقابلہ متفقہ امیدوار سامنے لائیں تاکہ مفاد
پرستوں کا ایک نیا طرز حکومت قوم کے سامنے آ سکے( ویسے بھی با خبر لوگوں کا
کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ۔اب اس قیاس کو حقیقت کا روپ دینے کی
اشد ضرورت ہے )جو صرف مفاد پرست ہی پیدا کریگا اگر ایسا ہوتا ہے تو کچھ ہو
یا نہ ہو مگر انتخابات کے نام پر بے دریغ پیسے کا ضیاع ضرور رک جائے گا جو
امیدوار کامیاب ہونے کے بعد اپنا الیکشن میں خرچ کیا گیا پیسہ عوام کے خون
پسینے کی کمائی سے ناجائز طریقے سے نکالتے ہیں اب بھی یو سی دفاتر میں
کرپشن کا بازار گرم ہے نہ جانے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کرپشن کی صورت حال
اپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے یوسی دفاتر کے خفیہ چھاپے کیوں نہیں مارتے ؟
اس وقت بھی نارمل پیدائشی پرچی اور نکاح نامے تین سو سے پانچ سو روپے جبکہ
لیٹ اندارج کی ایک ہزار سے پندرہ سو روپے فیس وصل کرنے کے بعد بن رہے ہیں
بعض دفاتر سے شکایت آئی ہے کہ ایم پی اے صاحب نے یہ فیس مقرر کی ہے ۔۔۔ کیا
مطلب۔۔۔ یہی کہ الیکشن میں جو پیسہ لگایا تھا اب اسے وصول کرنے کا کام جاری
وساری ہے صوبائی حکومتوں کے احکامات ان کے اپنے ہی ہواؤ ں میں اڑا رہے ہیں
،قبرستانوں میں مردوں کی تدفین کرنا مشکل ہو گیا ہے ان سیاسی بازی گروں نے
مردوں کی تدفین تک مہنگے داموں کر دی ہے من مانی کے ریٹس لئے جا رہے ہیں
جہاں کوئی غریب پھنس گیا اسے لوٹ لیا جاتا ہے ۔ہماری اخلاقی پستی کا یہ
عالم ہو گیا ہے کہ سوچے سمجھے بغیریہ سیاسی بازی گردولت دونوں ہاتھوں سے
اکھٹی کر رہے ہیں سرکاری قواعد وضوابط کا کوئی پاس نہیں ۔ اگر بلا مقابلہ
امیدوار کامیاب ہوں گے تو دولت جمع کرنے کی حوس تو ضرور ہوگی مگر کم ہوگی
کیونکہ ان کا پیسہ الیکشن میں صرف نہیں ہوا ہوگا،میاں نوا شریف صاحب کو اس
فارمولے پر بھی عمل کرکے دیکھ لینا چاہیے شائدبے لگام کرپشن میں کمی واقع
ہو جائے ۔ قارئین کرام !جب تک بحیثیت قوم ہم اپنے ملک کا نظام اسلام کے
تابع نہیں کریں گے تب تک یہی مذاق ہمارے ساتھ ہوتا رہے گا،ہمیں فطرت کی طرف
رجوع کرلینا چاہیے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔لیکن مادیت پرستی کے اس دور
میں ہم اﷲ تعالیٰ کو عملی طورپرقادر مطلق ماننے کیلئے تیار نہیں شائد تو
ہماری حالت کیسے بہتر ہوگی؟ |