ایم کیو ایم :یوز اینڈ تھرو پالیسی
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
میں کچھ دنوں سے ٹی وی چینلز پر
ایک چیز تلاش کررہا ہوں لیکن وہ نظر نہیں آرہی ہے۔ آپ لوگ بھی اس حوالے سے
میری مدد کریں۔ میں ان علماء کو تلا ش کررہا ہوں جنہوں نے لال مسجد کو
جلانے ، ڈھانے اور گرانے کے الطاف حسین کے بیانات کی حمایت میں قرآنی آیات
اور احادیث کے حوالے پیش کیے تھے۔ میں تلاش کررہا ہوں کہ لفظ مہاجر کی
توہین پر احادیث کے حوالے پیش کرنے والے یہ علماء خاموش کیوں ہیں؟ نائن
زیرو سے اسلحے کی برآمدگی اور سزا یافتہ مجرموں کی گرفتاری کے بعد اب ذرا
یہ لوگ قوم کی رہنمائی فرمائیں کہ ایسے لوگ جو مسجد کو جلانے اور گرانے کی
بات کریں اور خود قاتلوں کے سرپرست ہوں۔ دوسروں کو دہشت گرد کہیں اور خود
دہشت گردوں کی سرپرستی کریں، قانون کی رٹ بحال کرنے کا شور مچائیں اور خود
سزا یافتہ مجرموں کو پناہ گاہ فراہم کرکے قانون کو جوتے کی نوک پر رکھیں،
ایسے لوگوں کے بارے میں ذرا قرآن و سنت کی روشنی میں کچھ بیان کریں( اگر
واقعی اللہ کاخوف رکھتے ہوں )۔
نائن زیرو پر چھاپے کے بعد رابطہ کمیٹی خاموشی سے صورتحال کا جائزہ لے رہی
تھی کہ جناب الطاف حسین صاحب کی خودنمائی کے شوق نے انہیں مجبور کیا کہ وہ
ٹی وی چینلز اپنی رونمائی کریں، اور انہوں نے اپنے براہ راست خطاب میں کچھ
ایسی باتیں کہہ دیں جو اب ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے لیے مسائل کا سبب
بن رہی ہیں۔ انہوں نے جوشِ خطابت میں کہہ دیا کہ ’’مطلوب افراد کو چاہیئے
تھا کہ وہ اکثریت کو مشکل میں نہ ڈالتے اور نائن زیرو پر نہ چھپتے، اللہ کی
زمین اتنی بڑی ہے ، کہیں اور چلے جاتے ‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی
فرمادیا کہ ’’ میں بھی تو 25 سال سے برطانیہ میں بیٹھا ہوا ہوں‘‘ (گویا کہ
انہوں نے یہ مان لیا کہ وہ جلا وطن نہیں بلکہ مفرور ہیں۔ )
اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جو اسلحہ دکھایا جارہا ہے وہ
رینجرز والے کمبلوں میں اپنے ساتھ لیکر آئے تھے، لیکن شام کو رابطہ کمیٹی
اس اسلحے کو اپنا اسلحہ کہ رہی تھی اور اس کے لائسنس بھی دکھا رہی تھی۔ اس
کا کیا مطلب ہوا؟ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ الطاف حسین صاحب حسب معمول
جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے تھے، لیکن وہ زمینی حقائق
سے بے خبر نکلے انہیں شائد اندازہ نہیں کہ یہ نوے کی دہائی نہیں بلکہ نئی
صدی ہے اور میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام حقیقت کو جان لیتے ہیں۔
رابطہ کمیٹی الطاف حسین صاحب کے بیان پر پونچھا لگانے کی کوشش کرنے لگی اور
پورا زور اس بات پر لگایا جانے لگا کہ مطلوب افراد نائن زیرو سے گرفتار
نہیں ہوئے بلکہ نائن زیرو کے اطراف کی گلیوں اور مکانات سے گرفتار ہوئے ہیں
تاکہ اپنا تاثر بہتر کیا جاسکے لیکن اگلے دن الطاف حسین صاحب نے فرمایا کہ
’’رابط کمیٹی کے کچھ افراد کو معلوم تھا کہ مطلوب افراد نائن زیرو پر موجود
ہیں لیکن مجھے اس سے بے خبر رکھا گیا۔‘‘اب اس کو بوکھلاہٹ کہہ لیں یا اللہ
کی پکڑ کہ رابطہ کمیٹی اور الطاف حسین صاحب کے بیانات میں زمین آسمان کا
فرق نظر آرہا ہے۔فاروق ستار صاحب نجی ٹی وی کے چینل پر فرماتے ہیں کہ رینجر
سے تصادم کا تاثر نہیں دینا چاہتے اور نہ ہی فورسز کے خلاف کوئی بات کرنا
چاہتے ہیں لیکن دوسرے دن الطاف حسین صاحب ایجنسیوں اور پاک فوج پر برس پڑے
اور اچانک انہیں یاد آیا کہ بنگلہ دیش میں فوج نے بنگالیوں کا قتل عام کیا
تھا ( یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس سے قبل وہ متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ
مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی نے بنگالیوں کا قتل عام کیا لیکن کہتے ہیں
نا کہ دروغ گو را حافظہ نیست ) ۔ اس کے جواب میں جب چوہدری نثار اور سیاسی
رہنماؤں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا تو اگلے ہی دن لہجہ بدل گیا ۔
یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ دوسری جانب متحدہ اور الطاف حسین نے مشکل وقت کو
دیکھتے ہی اپنے ان تمام دہشت گرد کارکنان سے آنکھیں پھیر لیں۔الطاف حسین
صاحب نے تو صولت مرزا اور عمیر صدیقی کو پہچاننے سے انکار کردیا ۔ صولت
مرزا کے بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں جانتا ، اس کا ایم کیو ایم سے کوئی
تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی تعلق تھا بھی تو وہ بیس پچیس سال پہلے ختم
ہوگیا۔ صولت مرزا کے اہل خانہ کو نائن زیرو آنے سے منع کردیا گیا اور
اخباری اطلاعات کے مطابق انہیں نائن زیرو سے دھکے دیکر نکال دیا گیا۔صولت
مرزا کی اہلیہ نے اس کے بعد ایک پریس کانفرنس کے ذریعے حکومت سے رحم کی
اپیل کی۔ اس موقع پر ان سے سوال کیا گیا کہ ایم کیو ایم کہتی ہے کہ صولت
مرزا ہمارا کارکن نہیں ہے؟ اس کے جواب میں اہلیہ نے کہا کہ صولت مرزا ایم
کیو ایم کا کارکن ہے اور پارٹی نے ہر موقع پر ہماری مدد کی ہے ، اب اگر وہ
یہ کہتے ہیں تو پھر آپ یہ سوال ایم کیو ایم سے کریں مجھ سے نہیں۔فاعتبرو یا
اولی الابصار
اس کے ساتھ ہی متحدہ کے قائد نے عمیر صدیقی کو اپنا کارکن ماننے اور
پہچاننے سے انکار کردیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ میں عمیر صدیقی کو نہیں جانتا۔
جبکہ جاننے والے جانتے ہیں اور اب تو سوشل میڈیا پر عمیر صدیقی کی ایم کیو
ایم کے اہم ترین رہنماؤں کے ساتھ تصاویر موجود ہیں۔ ان واضح ثبوتوں کے
باوجود اس کو اپنا کارکن ماننے سے انکار کا مطلب کیا ہوا؟؟؟ اس کا مطلب یہ
ہے کہ ایم کیو ایم ایک مافیا ہے، اور مافیا میں ڈان لوگوں کو استعمال کرتا
ہے اورصرف اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے، ذرا ان نعروں پر غور کریں تو
بات زیادہ آسانی سے سمجھ میں آئے گی ۔ ’’ جو قائد کا غدار ہے ۔ وہ موت کا
حقدار ہے‘‘ اور ’’ ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ ۔یہ تو ابھی آغاز ہے ابھی
مزید گرفتاریاں ہونگی اور انکشافات ہونگے تو یہ ان تمام افراد سے آنکھیں
پھیر لیں گے اور ان کو اپنا کارکن ماننے سے انکار کردیں گے۔ایم کیو ایم کے
لوگوں کے لیے موقع ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھیں اور الطاف حسین کے جھوٹے فلسفے
’’ ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے‘‘ کے سحر سے نکلیں، ورنہ آپ کو بھی ٹشو
پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جائے گا۔ یہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے
لیے بھی ایک موقع ہے کہ وہ اب مفاد پرست قائد سے جان چھڑا کر حقیقی معنوں
میں کراچی اور اردو بولنے والوں کے لیے کام کریں ۔ |
|