مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی معزول صدر محمد مرسی پر نئے مقدمے
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
اخوان المسلمون کے 183حامیوں کو
سزائے موت ، نظام انصاف فرسودہ ہے۔ایمینسٹی انٹرنیشل
مصر میں ایک بار پھر اخوان المسلمون کو تعزیر اور پھانسی کی سزاوں کا سامنا
ہے۔ معزول صدر محمد مرسی کے خلاف الجزیرہ ٹیلی ویژن کو 'اہم دستاویزات'
فراہم کرنے کے الزام میں ایک نیا مقدمہ شروع کیا جارہا ہے، جس میں انھیں
سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے۔ مصر کی ایک عدالت نے 13 پولیس اہلکاروں کے قتل
کے الزام میں اخوان المسلمون کے 183 حامیوں کو بھی سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیسنل نے ان سزاؤں کی مذمت کی ہے ۔اور
کہا ہے کہ یہ متنازعہ فیصلہ مصر میں انصاف کے فرسودہ نظام کی عکاسی کرتا ہے۔
ایمینسٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سزائیں معطل کی جائیں اور ملزمان کا
مقدمہ عالمی معیار کے مطابق چلایا جائے۔ مصر میں فوجی حکومت کی جانب سے اب
تک ہزاروں افراد کو سزائے موت دی جاچکی ہے۔ جن میں اسلام پسند ،اور لبرل
شامل ہیں۔ ایمینسٹی کا کہنا ہے کہ حمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل
سیسی کی حکومت ، عدالت کو مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ سابق
صدر محمد مرسی کے خلاف اس نئیمقدمیکا آغاز اس ماہ کی 15 تاریخ سے قاہرہ میں
ہو گا۔مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کو فوج سے ختم کردیا تھا۔
مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے 3 جولائی کو حکومت کا تختہ
الٹ دیا تھا۔اس فوجی اقدام کے خلاف احتجاج کرنے والے اخوان المسلمون کے
کارکنان اور دیگر جمہوریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے سخت کریک ڈاؤن
کیا تھا جس کے دوران ایک ہزار چارسو سے زیادہ افراد ہلاک اور دو ہزار سے
زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔مصر کے معزول کئے جانے والے صدر اور اخوان المسلمین
کے رہنما محمد مرسی کوگرفتاری کے بعد کئی مقدمات کا سامنا ہے ان پر الزام
ہے کہ انھوں نے اپنے دور اقتدار میں مظاہرین کو قتل کرایا، مبینہ طور
پرعالمی طاقتوں خاص طور پر ایران کے ساتھ مل کر مصر میں امن وامان کی صورت
حال کو خراب کی ، اور سابق صدر حسنی مبارک کو 2011 میں معزول کرنے کیلئے
جیل توڑی اور پولیس ہرحملے کروائے۔ مرسی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ اور
خود کو اب بھی مصر کا جمہوری صدر قرار دیتے ہیں۔ سابق صدر مرسی پر پرانے
مقدمے تو چل ہی رہے ہیں۔ لیکن تازہ مقدمہ حال ہی میں مصری عدالت میں جمع
کروائی گئی ایک درخواست کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ جس میں مرسی پر الزام
لگایا گیا ہے کہ انھوں نے دیگر 9 ساتھیوں کے ہمراہ جن میں ایک الجزیرہ کا
رپورٹر بھی شامل ہے، کے ساتھ مل کر الجزیرہ ٹی وی کو دس لاکھ ڈالرز کے بدلے
میں انتہائی خفیہ دستاویزات فراہم کیں تھیں۔دراخواست میں جن افرد کا ذکر ہے،
ان میں سے سات افراد پہلے سے ہی حکومت کی تحویل میں ہیں۔ دوسری جانب
آسڑیلیا سے تعلق رکھنے والے الجزیرہ کے رپورٹر پیٹرگریسٹا کو مصر کی فوجی
حکومت نے عالمی دباو کی بنیاد پر رہا کردیا ہے۔ پیٹر گریسٹا ایک سال تین
ماہ سے قید میں تھے۔ ان پر الجزیرہ کی رپورٹوں میں اخوان المسلمون کی حمایت
کا الزام تھا۔ الجزیرہ انگریزی سے تعلق رکھنے والے رپورٹر کو ان کے دو دیگر
ساتھیوں کینڈین نژاد مصری شہری محمد فہمی اور مصری پروڈیوسر باہر محمد کے
ساتھ دسمبر 2013 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ الجزیرہ نے فوجی بغاوت کے بارے
میں خبریں نشر کی تھی، جن کی بنیاد پر اس کی نشریات بھی معطل کردی گئی
تھیں۔الجزیرہ نیوز چینل نے اپنے رپورٹر کی رہائی کو خوش آئیند قرار دیتے
ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ان کے دیگر دو صحافیوں کو بھی جلد رہا
کردیا جائے گا۔الجزیرہ کے ایکٹنگ ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ سواگکا کہنا ہے کہ
ہم باہرمحمد اور محمد فہمی کی رہائی تک وہ چین سے نہیں بیٹھے گے۔اس امید کا
اظہار کیا جارہا ہے کہ پیٹر گریسٹا کی طرح ان دونوں رپوٹرز کوبھی مصری صدر
عبدالفاتح السیسی کی جانب سے ایک خصوصی حکم نامے کے ذریعے بیرون ملک جانے
کی اجازت دیدی جائے گی۔مظاہرین کی ہلاکتوں کے الزام میں ڈاکٹر مرسی کے
علاوہ اخوان المسلمون کے مرکزی قائدین محمد البلتاجی اور اعصام العریان کو
بھی اس مقدمے میں ماخوذ کیا گیا ہے۔اس مقدمے کے پندرہ مدعا علیہان میں سے
آٹھ اس وقت زیر حراست ہیں اور باقی مفرور ہیں۔ڈاکٹر مرسی پر جاسوسی کے
الزام میں الگ سے جو مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ اس میں مصر کے پراسیکیوٹرز نے
ان پر پاسداران انقلاب ایران کو ریاست کے خفیہ راز افشاء کرنے کا الزام
عاید کیا تھا جن کا مقصد مصر کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا۔پراسیکیوٹرز
نے معزول صدر پر یہ سنگین الزام عاید کیا تھا کہ انھوں نے اخوان کے پینتیس
دوسرے لیڈروں، فلسطینی جماعت حماس اور ایران کے ساتھ مل کر مصر کو عدم
استحکام سے دوچار کرنے کی سازش کی تھی۔معزول صدر ڈاکٹر محمد مرسی،اخوان کے
لیڈروں اور لبرل کارکنان سمیت چوبیس افراد کے خلاف عدلیہ کی توہین سمیت
مختلف الزامات کے تحت تین اور مقدمات بھی چلائے جا رہے ہیں۔ان میں اپنے
مخالفین کو قتل کرنے کی شہ دینے ،غیر ملکی گروپوں کے ساتھ مل کر سازش کرنے
اور جیل توڑنے کے الزامات پر مبنی مقدمات شامل ہیں۔ان کیسوں میں انھیں موت
کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ملک بھر میں مصر کی آرمی کی جانب سے ہونے والے کریک
ڈاون میں ہزاروں لوگوں کو جیل اور سیکڑوں کو پھانسی کی سزائیں ہوچکی ہیں
جبکہ سیکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں بھی سامنے آئیں ہیں۔اخوان المسلمون کے ان
رہنماؤں کے خلاف نئے مقدمے کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے، جب ملک
میں آئین سے متعلقبنیادی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ فوجی حکومت ریفرنڈم کے
ذریعے آئینی تبدیلیوں کے لیے عوامی سطح پر ’’ہاں‘‘ کی تیاریوں میں مصروف
ہے۔اخوان المسلموں کے وکیل صفائی محمد الدماطی نے اس نئے مقدمے کی مذمت کی
ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سرا سر ’سیاسی مقدمہ‘ ہے اور حکومت اپنے پر تشدد
کریک ڈاؤن کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔مصر کے حالیہ واقعات
مشرقی وسطی کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ مصر کی موجودہ فوجی
حکومت کو بڑے پیمانے پر امریکہ اور سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے، جبکہ
برطانیہ اور یورپی یونین مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود
فوجی حکومت کی سیاسی پشت پناہی کررہی ہیں۔ آٹھ کروڑ آبادی کے اس ملک کے بیس
فیصد عوام خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مصری فوج جس کی تعداد چار
لاکھ پینسٹھ ہزار ہے۔ ایک ایسا ادارہ بن گیا ہے جس کے اپنے کمرشل مفادات
ہیں۔ مصری فوج کے علیحدہ سوشل کلب اور شاپنگ سینٹر ہیں اور پچھلے کئی عشروں
سے انہوں نے اپنے تجارتی مفادات کو مزید پھیلایا ہے۔ مصری فوج پر امریکی
اثر رسوخ کی ایک بڑی وجی یہ بھی ہے کہ امریکہ ہر سال مصری فوج کو ایک بلین
ڈالر سے زیادہ کی امداد دیتا ہے اور مصری فوج، امریکی ٹیکنالوجی پر بہت
زیادہ انحصار کرتی ہے۔ |
|