متنازعہ علاقوں کی تاریخ ہمیشہ
تنازعات کا شکار ر ہی ہے ۔کشمیر کا وجودجتنا پرانااسکی تاریخ بھی اتنی ہی
متنازعہ ہے۔ ماضی کے جھرکوں میں جائے بنا اس موضوع پراصل چھیڑ نہیں کی جا
سکتی ۔آج مختلف دانشوروں کو جب کشمیریوں کے ماضی پر رشک کرتے ،سیاسیوں کو
نعرے لگاتادیکھتا ہوں تو اندر ہی اندر شرمندگی سی محسوس ہوتی ہے۔ شاید ہم
سچ کہنے ، سننے اور لکھنے سے کترا رہے ہیں یا ہمیں معلوم ہی نہیں کہ آیا سچ
کیا ہے۔معلوم تاریخ نہیں بتاتی کہ ہم کبھی بہت زیادہ قابل فخر قوم رہے ہیں
۔تین سے پانچ سو سال پرانی تاریخ کا مطا لعہ کافی ہے جو صاف بتا رہا ہے کہ
کشمیری پہلے بھی مفتوحہ رہے اور بلا شبہ آج بھی ۔۔ ! اعتراض کرنے والے اپنے
ہاں ثقافت ، تہذیب و تمدن، زبان، ادب،پیشے کچھ بھی اٹھا کے دیکھ لیں کچھ
بھی ایسا نہیں ملتا جو ہم نے سنبھالے رکھا ہو یا جس پر ناز ہوسکتا ہو،
سوائے بڑھکوں کے۔ زمین کے ٹکڑوں پر سیاست ہمارا معمول رہا۔ انسان اور
انسانیت کا درس اور جدید دنیا کے تقاضوں سے آگاہ ہی نہیں ہوئے۔ اس میں کسی
ایک حکمران ،یا چند سیاستدانوں کا قصور نہیں ، ذمہ دار نہیں شاید ہمارا
خمیر۔۔۔۔!آج کا موضوع معاہدہ امرتسر ، سو،اسی کی تاریخ پر نظر دوڑا لیتے
ہیں۔دو طبقے ہیں ایک اس معاہدے کا کسی حد تک حمایتی اور دوسرا شدید جانی
دشمن۔۔۔!
ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر 7بڑے ریجنوں کشمیر ، جموں ، کارگل ، لداخ
، بلتستان ، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے ریجنوں پر مشتمل ہے۔ یہ ریاست
84ہزار 471مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ریاست دنیا کے تینوں پہاڑی سلسلوں
(قراقرم، ہمالیہ ، ہندوکش )میں پھیلی ہوئی ہے۔اس وقت یہ ریاست 4حصوں میں
تقسیم ہے۔ پاکستان کے پاس 28ہزار مربع میں گلگت ، بلتستان اور ساڑھے 4ہزار
مربع میل آزاد کشمیر کا علاقہ ، بھارت کے زیر قبضہ علاقوں میں وادی کشمیر ،
جموں اور کار گل و لداخ ، چین کے پاس 10ہزار مربع میل اقصائے چن کا علاقہ
ہے، چین نے کچھ علاقہ 1963ء کی جنگ میں بھارت سے چھینا جبکہ 1900مربع میل
علاقہ پاکستان سے 16مارچ 1963ء میں پاک چین معاہدے کے تحت عارضی طورپر حاصل
کیا ہے۔
معاہدہ امر تسر کے مخالف دانشوروں کا کہنا ہے کہ اہل کشمیر کی مظلومیت کی
طویل شب تار کاآغاز 16مارچ 1946ء میں ہوا۔ جب معاہدہ امرتسر طے پایا اس
معاہدے کے مطابق گلا ب سنگھ نے انگریز سے 75لاکھ نانک شاہی میں جموں و
کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا ، جبکہ گلگت بلتستان ، کارگل
اور لداخ ریجن کے علاقوں پر قبضہ کر کے ایک مضبوط اور مستحکم ریاست قائم
کی۔ کشمیر کی مزاحمتی جدو جہد کا مطالعہ کیا جائے تو ڈوگرہ حکمرانوں کے دور
میں 1924ء تک سیاسی خاموشی نظر آتی ہے۔یہ خاموشی 1924ء میں اس وقت ٹوٹی جب
سری نگر میں کام کرنے والے ریشم کے کارخانوں کے مزدوروں نے اپنے اوپر ہونے
والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائی اور پوری ریاست نے ان کی آواز کے ساتھ آواز
ملائی۔ 1931ء میں تحریک مالیہ عدم ادائیگی کا آغاز کیا گیا۔ اس کے علاوہ
1946ء میں شیخ عبداﷲ کی کشمیر چھوڑدو تحریک اور دیگر تحریکوں نے کشمیر کے
مسلمانوں کو ڈوگرہ راج کے خلاف جدوجہد کرنے پر تیار کیا۔ 24اکتوبر 1947ء کو
موجودہ آزاد کشمیر میں آزاد حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔اِس وقت
بھارت نے آئین کے آرٹیکل 370کے تحت کشمیر کوخصوصی حیثیت دی ہوئی ہے جبکہ
پاکستان نے آزاد کشمیر میں 1947ء میں ہی آزاد ریاست قائم کر دی۔ 1947ء سے
1966ء تک کشمیر یوں نے سیاسی میدان میں آزادی کی جنگ لڑی مگر اس میں کوئی
کامیابی نہ ہوئی۔ 1966ء میں عسکری جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس جدوجہد
کے نتیجے میں یکم جنوری 1989ء سے تاحال تک98ہزار افراد شہید ہوئے۔
دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ عہد نامہ امرتسر انگریز سرکار اور راجا آف جموں
کے درمیان 16 مارچ 1846 ء کو طے پایا، اس معائدے میں راجا نے خود جبکہ
انگریز سرکار کی طرف سے فیڈرک کیوری اور بریوٹ ہنری لارنس نے شرکت کی اور
عہد نامہ کو 10 نکات کی صورت میں حتمی طور پر طے کر لیا۔ اس کی اہم شقیں یہ
تھیں۔ انگریز سرکار وہ تمام پہاڑی علاقے جو دریائے سندھ کے مشرق اور دریائے
راوی کے مغرب میں واقع ہیں ماسوائے لاہورکے جو اس علاقے کا حصہ ہے جو لاہور
دربار نے معائدہ 9 مارچ 1846 ء کی دفعہ 4 کے تحت حکومتِ برطانیہ کے سپرد
کیا ہے مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کی اولادِ نرینہ کے مستقل اور کلی اختیار
میں دیتی ہے۔شق نمبر 3 کے مطابق جو علاقہ مہاراجہ گلاب سنگھ اور ان کے
وارثوں کو منتقل کیا جا رہا ہے اس کے عوض مہاراجہ گلاب سنگھ برطانوی حکومت
کو مبلغ 75 لاکھ نانک شاہی ادا کریں گے ۔مہاراجہ گلاب سنگھ کے پہلا
خودمختار حکمران بنا۔انگریزوں نے کشمیر سکھوں سے حاصل کیا تھا اس لیے انڈیا
اسے اپنا حصہ سمجھتا ہے جبکہ مسلمان آبادی کے اکثریت میں ہونے کی وجہ سے
پاکستان اس کا دعویٰدارہے۔ ہری سنگھ کا موقف مختلف تھا کے تقسیم کے قانون
کے مطابق ریاست کے حکمران کا حق ہے کہ وہ الحاق کرے یا اپنی آزاد ریاست
برقرار رکھے۔دوسرے طبقے کانقطہء نظر یہ ہے کہ ساری دنیا کی طرح یہ علاقہ
بھی عروج و زوال کا شکار رہا، کشمیر کے حکمران مغل ہوں، افغان ہوں یا سکھ
مذہب سے بالاتر ۔کبھی دہلی، کبھی، کابل اور کبھی لاہور سے ہی آتے رہے، وہ
سب ظالم اور نسل پرست تھے، ڈوگرہ بھی کوئی بہترین نہیں تھے مگر اس معاملے
کی نوعیت مختلف تھی، ڈوگرہ کا اقتدار میں آنا قومی آزادی کے برابر ہے،
ڈوگرہ حکومت ایک طرح سے رنچن شاہ سے پہلے کی ہندو حکومت کا احیاء تھا کیوں
کہ گلاب سنگھ جموں کا مقامی تھا اور یقیناََ تاریخ سے آگاہ تھا۔آج کے دور
میں بیٹھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ گلاب سنگھ نے سازش اور بددیانتی سے
کشمیر ہتھیایا تھا،تاریخ گواہ ہے کہ وہ پہلے سے جموں کا حکمران تھا اور اس
نے ان علاقوں کو ملا کر ایک نئی ریاست قائم کی تھی۔تاہم دوسرا طبقہ بھی
کشمیریوں پر دھائے جانے والے مظالم کے خلاف ہے۔
آپ کے سامنے زمین کے ٹکڑے کی خرید وفروخت یا قومی آزدی کی بنیا د کے حوالے
سے اطراف کی سوچ بتا دی ہے۔ اب موجودہ دور میں اسی الجھن میں رہنے کا وقت
شاید نہیں۔ تعلیم، ٹیکنالوجی ، معاش اور طاقت کی مضبوطی کا دور چل رہا ہے۔
جو ان معاملات میں اول ۔۔۔! وہ بادشاہ۔۔ سو کشمیریوں کو ایک ہی جواب۔۔ پہلے
خود کی علمی ، عملی ، سماجی ، دنیاوی،معاشی مضبوطی ۔۔۔ پھر قومی آزادی یا
شخصی غلامی سے نجات کے راستے ۔ وگرنہ گزشتہروایات کی طرح تادم نادم و ہمہ
تن مغلوب۔ |