عمران خان کی ایک ضد مڈٹرم انتخابات کرائے
جائیں. ..؟ یہ کس کا ایجنڈا ہے... ؟
حکومت کو مہلت دی گئی تو کیا واقعی ملک نہیں بچے گا....؟نہیں نہیں ایسے
کیسے....؟
میرا شہر کراچی انسانی خون سے رنگین ہے جگہ جگہ اِنسانی خون کی بو پھیلی
ہوئی ہے اور آج انسان تو انسان اِس شہر کے جانور بھی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے
خوفزدہ ہیں اور شہر میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے شہر کے گلی کوچوں
بازاروں اور سڑکوں پر انسان نما درندوں کا راج ہے جو معصوم انسانوں کے خون
کے پیاسے بنے ہوئے ہیں جنہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے اور ایسے
لوگوں کے لئے جو انسانوں کو یوں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی
نہیں ہے۔ اِن کے لئے تو انسان کو مارنا آسان ہو مگر جنہیں انسانیت کا
احترام ہو اُن کے نزدیک تو اِن کی جانیں بھی اتنی ہی قیمتی اور اہم ہیں جو
آج انسان ہوتے ہوئے اپنے جیسے انسانوں کو مار رہے ہیں۔
میرے آج کے کالم کا موضوع ہی کراچی کے حالات اور یہاں پیش آنے والے واقعات
ہیں مگر اِس حوالے سے مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میں اپنے شہر میں ہونے والے
اُن انسانیت سوز واقعات کا بار بار ذکر کر کے اپنے پڑھنے والوں کو مزید
غمزدہ اور پریشان کر دوں جس کی وجہ سے یہ پہلے ہی پریشان ہیں اور میرے شہر
کا ہر فرد ذہنی اور جسمانی کرب میں مبتلا ہے بلکہ اِس کی وجہ سے میرے وطن
عزیز کا ہر شخص پریشان ہے کہ کراچی میں ایسی کیا وجوہات ہیں کہ آئے روز
کراچی میں درندے اپنی ناپاک کاروائیوں سے قیمتی انسانی جانوں کو موت کے منہ
میں دھکیل جاتے ہیں اور معصوم اِنسان اِن درندوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر
کراچی کی سڑکوں پر اپنی ایڑیاں رگڑتے ہوئے اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے
ہیں تو اِس کیفیت میں اپنے آج کے کالم کی ابتداء ملک کے سب سے بڑے صنعتی
اور تجارتی مرکزی شہر کراچی کی زمین کو ایک بار پھر گزشتہ پانچ دنوں کے
دوران 45معصوم انسانی جانوں جن میں خواتین، بچے، اور جوان شامل ہیں اِن کے
مقدس خون سے رنگے گئے افسوس ناک واقعات سے کرنا چاہوں گا کہ جس پر آج اہل
کراچی سمیت ہر محبِ وطن پاکستانی افسردہ ہے اور اِس پریشانی میں مبتلا نظر
آرہا ہے کہ اِس شہر کی گلی، کوچوں ، بازاروں اورسڑکوں پر آج موت اور
شیطانیت کا جو عریاں رقص جاری ہے اِس کے پیچھے کونسا ایسا خفیہ ہاتھ
کارفرما ہے کہ جس کی کاروائیوں کے بعد نہتے انسانی لاشے تو زمین پر پڑے نظر
آتے ہیں مگر اِن لاشوں کے قاتل نہیں ملتے جس کا پتہ ہماری سیکورٹی فورسز
بھی نہیں لگا پارہی ہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں نہیں لگا پارہی
ہے ؟یہ ایک الگ بحث ہے۔
فی الحال یہ کہ سیکورٹی پر مامور فورسز شہر کراچی میں پیدا ہونے والی لاء
اینڈ آرڈر کی خراب ہوتی ہوئی صورت ِ حال کو بھی کنٹرول نہیں کر پارہی ہیں
اور کراچی کی زمین پر انسانوں کا خون پانی کی طرح سے بہہ رہا ہے جس سے آج
اِس شہر میں بسنے والا ہر شخص خوفزدہ اور ڈرا سہما ہے اور اِس شہر کے بیشتر
علاقوں میں معاملات زندگی بھی بری طرح سے مفلوج ہوکررہ گئے ہیں۔
جبکہ کراچی کی موجودہ سنگین صورتِ حال کے حوالے سے یہ ایک اُمیدا افزا خبر
ہے کہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں
وفاقی اور صوبائی(سندہ کی) حکومتوں نے رینجرز کو کراچی ایسٹ اور ویسٹ
کے26تھانوں (علاوہ لیاری تھانے) کے ایک خاص قسم کے اختیارات دے دیئے ہیں جس
کے تحت پاکستان رینجرز اِن تھانوں کی حدود میں پولیس کے ساتھ مل کر کرائم
پیشہ افراد کے خلاف بھرپور طریقے سے کاروائی کرے گی۔ اور اِس کے ساتھ ہی
رینجرز کی اِس کاروائی سے یہ اُمید کی جارہی ہے کہ پاکستان رینجرز کو دیئے
گئے خصوصی اختیارات کے بعد شہر میں امن و امان کی صورت ِ حال میں بہتری آئے
گئی اور شہر میں امن و سکون قائم ہوجائے گا۔
جبکہ یہاں میرے خیال سے یہ ٹھیک ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے کراچی کی
بگڑتی ہوئی صورت ِ حال کے حوالے سے جو کیا وہ فی الحال تو درست ہے مگر میں
یہاں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حکومت کا رینجرز کو یہ خصوصی اختیارات دینے کا
عمل قابل تحسین بھی ضرور ہے مگر پاکستان رینجرز کو اِس کے ساتھ ہی یہ بات
بھی یقینی بنانی ہوگی کہ اِس کے اِن اختیارات سے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی
اور ناانصافی بھی نہ ہونے پائے کہ اِس سے کسی کو جانبداری کا احساس ہو اور
پھر کوئی ایسا بھونچال شہر میں جنم لے لے کہ جس سے کراچی کے حالات کو
سنبھالنا نہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ نہ ممکن بھی ہوجائے اور کسی بھی جانب سے
عوامی حلقے اور سیاسی قیادتوں میں احساس محرومی اور ناانصافی کا یہ عنصر
پیدا ہوجائے رینجرز نے اپنے اختیارات کا بیدریغ استعمال کرتے ہوئے صرف اِسے
ہی نشانہ بنایا ہے تو اِس صورتِ حال سے بچنے کے لئے بھی پاکستان رینجرز کو
اپنے اختیارات کے اندھا دھند استعمال سے احتیاط برتنی ہوگی۔
بہرکیف ! اَب میں آتا ہوں اپنے آج کے اپنے دوسرے موضوع کی طرف کہ آج مجھے
یہ خود معلوم نہیں ہوپارہاہے کہ ”ملک میں مڈٹرم انتخابات کرائے جانے والا
“تحریک انصاف پاکستان کے چیئرمین عمران خان کے اِس بیان میں مجھے اتنی
ایٹریکشن (کشش) کیوں محسوس ہورہی ہے حالانکہ اِس سے قبل مجھے اِن کے ایسے
کسی بھی بیان جو اُنہوں نے موجودہ حکومت کی کارکردگی کے باعث ملک میں مڈٹرم
انتخابات کرائے جانے سے متعلق دیا ہو اِس میں کوئی خاص دلچسپی رہی تھی اور
نہ کبھی میں نے اِن کا ایسا کوئی بیان دلجمعی سے پڑھا اور سُنا تھا کیوں کہ
میں یہ سمجھا کرتا تھا کہ عمران خان کسی کے اشارے اور کسی کے خاص ایجنڈے پر
چل رہے ہیں جو اچھی بھلی اِس جمہوری حکومت کو اِس طرح کے اپنے بیانات سے
پریشان کرتے رہتے ہیں مگر مجھے معلوم نہیں کیوں اِن کا یہ بیان اچھا لگا جب
گزشتہ دنوں میں نے ملک کے ایک کثیر الاشاعت اخبار میں تحریک انصاف پاکستان
کے چئیر مین عمران خان کا یہ بیان پڑھا جو کراچی میں ہونے والی اِن کی پریس
کانفرس کے حوالے سے تھا اور جس میں اُنہوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ
بناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کو 5سالہ
مدت پوری کرنے کی مہلت دی گئی تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان نہیں بچے گا اور
اِس کے علاوہ اِن کا اِس موقع پر یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے غلط
اقدامات اور ناقص اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو مشکلات میں دھکیل
دیا ہے اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے اِس موقع پر فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ بھی
کہہ ڈالا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں صدر کو فوجداری و سول مقدمات میں
استثنیٰ حاصل نہیں اِن کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان اپنی اصلاح کرکے احتسابی
عمل کا آغاز کریں اور اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کریں اور عمران خان نے
خاص طور پر اِس کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ بجٹ میں عوام کے لئے
کچھ نہیں ہوگا کیونکہ 16سو ارب میں سے 14سو ارب دفاع اور قرضوں کی ادائیگی
میں خرچ کئے جائیں تو صرف2سو ارب روپے سے ملک کیسے چل سکتا ہے اور اُنہوں
نے اپنی اِسی پریس کانفرنس میں اِس بات کا بھی والہانہ انداز سے ذکرکرتے
ہوئے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو ملک کی بربادی کی
جانب ایک قدم قرار دیا اور حکومت سے انتہائی جذباتی ہوتے ہوئے پیٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کو واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔
یوں عمران خان کے اِس بیان میں مجھے اِس لئے کشش پیدا ہوئی اور اِس لئے بھی
اِن کا یہ بیان مجھے اچھا لگا کہ درحقیقت میں بھی آج حکومتی رویوں اور عوام
کے لئے ریلیف دینے کے کچھ نہ کئے گئے اقدامات سے مایوس ہوگیا ہوں۔ کیونکہ
آج مہنگائی کی عفریت نے میرے بھی ہاتھ تنگ کردیئے ہیںاور میں بھی مہنگائی
سے تنگ آگیا ہوں اِس لئے آج میں بھی عمران خان کے اِس بیان ملک میں مڈٹرم
انتخابات جلد ہونے چاہئیں پر آمین کہے بغیر نہ رہ سکا۔
اور اِس کے ساتھ ہی اتنی جذباتی باتوں کے بعد میں اپنے قارئین کو یہ بتاتا
چلوں کہ جی ہاں یہ وہی عمران خان ہیں جن کی کپتانی میں کبھی پاکستان کی
کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا تھا اوراُس وقت ساری دنیا میں عمران خان کی عمدہ
کپتانی اور پورے ورلڈ کپ کے دوران ٹیم کی بہترین پرفارمنس کی وجہ سے
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا غلغلہ ہوگیا تھا اور اپنی کپتانی میں پاکستان کی
کرکٹ ٹیم کو ورلڈ کپ جیتانے والے اِس عظیم کپتان عمران خان نے اِس کے کچھ
ہی عرصہ بعد اپنے عین عروج پر پاکستان کی کرکٹ سے ریٹائرڈمنٹ کا اعلان
کردیا تھا اور پھر اِس کے فوری بعد عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز
تحریک انصاف پاکستان کی بنیاد رکھ کرکیا اور تب سے آج تک یہ اپنی جماعت
تحریک انصاف پاکستان کے اکلوتے سربراہ اور چیئرمین بھی ہیں تو وہیں یہ
ہمارے ملک کے اُبھرتے ہوئے ایک نڈر اور بیباک اور جذباتی نوجوان سیاستدان
کے روپ میں بھی سامنے آئے ہیں۔
گوکہ یہ اور بات ہے کہ اِن کی جماعت18 فروری 2008 کو ملک میں ہونے والے عام
انتخابات میں کوئی ایک سیٹ تو نہ لے سکی۔ مگر پھر بھی اِن کی جماعت
پارلیمنٹ سے باہر رہ کر بھی ملکی سیاست میں زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ اپنا
ایک فعال کردار ادا کررہی ہے اور ایسا ہی کچھ کررہی ہے جو کسی ایک نشست پر
بھی کامیابی حاصل نہ کرنے والی کسی بھی سیاسی جماعت کو ملک میں اگلے ہونے
والے انتخابات تک اپنا ہوم ورک کرتے رہناچاہئے جیسے عمران خان کی قیادت میں
اِن کی جماعت تحریک انصاف پاکستان اور اِن کے کارکنان گزشتہ انتخابات میں
ایک بھی سیٹ حاصل نہ کر کے یکسوئی سے کررہے ہیں جس سے ایک طرف ملکی سیاست
پر کسی حد تک مثبت اثرت پڑرہے ہیں تو دوسری طرف عوامی سطح پر اِن کی جماعت
کا گراف بھی بڑھ رہا ہے۔ جو ایک اچھا عمل ہے۔
بہرکیف ! میںیہاں اپنے پڑھنے والوں کویہ بھی بتاتا چلوں کہ عمران خان کو
گزشتہ انتخابات میں کوئی ایک بھی سیٹ کیوں نہ ملی تو عرض ہے کہ اُن دنوں
عمران خان نے اپنے پتھر سے بھی کہیں زیادہ سخت اُن بنیادی اور بے لچک
اصولوں اور ضابطوں کی پاداش میں خود کو جکڑ کر خود کوایک خول میں قید کر
رکھا تھا جس کی وجہ سے اُنہوں نے ملک میں ہونے والے اُن انتخابات کا
بائیکاٹ کردیا تھا تو یوں اِن انتخابات کے بائیکاٹ کی وجہ سے اِن کی جماعت
تحریک انصاف پاکستان کو کوئی ایک سیٹ بھی نہ مل سکی تھی ۔
جبکہ یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس کے علاوہ اور کوئی ایسی خاصی بات نہیں
تھی کہ اگر یہ اپنے غیر لچکدارانہ اصولوں کی وجہ سے گزشتہ انتخابات کا
بائیکاٹ نہ کرتے تو اِن کی جماعت تحریک انصاف پاکستان کراچی کے علاوہ ملک
بھر سے کم از کم ایک سے زائد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر دس
تک بھی نشستیں حاصل کرسکتی تھی اور پھر یوں اِن کی جماعت بھی ملک کے موجودہ
قومی دھارے میں شامل ہو کر جیسے تیسے انداز سے اپنا کردار اداکرتی جیسا
موجودہ مومی اسمبلیاں انجام دے رہی ہیں۔
مگر فی الحال میں یہاں اس بحث میں جانے کی کوئی خاص ضرورت محسوس نہیں کررہا
ہوں کہ میں اُن وجوہات کو دہراو ¾ کہ جن کی وجہ سے تحریک انصاف پاکستان کے
سربراہ عمران خان نے اُس وقت ملک میں منعقد ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ
کیوں کیا تھا....؟بس اِن سطور میں، میں اپنے قارئین کی یادھانی کرانے کے
لئے صرف اتنا ہی بار بار تحریر دینا ہی مناسب سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے
بس اپنے غیر لچکدارانہ اصولوں اور ضابطوں کے احصار میں خود کو رکھ کر گزشتہ
انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ اِس وجہ سے اِنہیں اور اِن کی جماعت
کو18فروی 2008 کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی موجودہ ڈمی، ربڑ
اسٹیمپ اور مومی اسمبلیوں میں جانے کا موقع تو نہ مل سکا مگر اِن کی جماعت
آج بھی کسی جیتی ہوئی پارٹی کی طرح عوامی مسائل پر اسمبلیوں باہر رہ کر بھی
اپنا کردار اداکررہی ہے۔
جہاں تک میرا خیال ہے اَب میری سمجھ میں یہ بات آنے لگی ہے کہ عمران خان کی
سیاسی دور اندیشی ہی تھی کہ جس کی وجہ وہ 18فروری 2008کے انتخابات کے نتیجے
میں وجود میں آنے والی موجودہ اسمبلیوں کی کیفیت کا اندازہ بہت پہلے ہی
کرچکے تھے کہ آئندہ اِن اسمبلیوں کا مستقبل کیا ہوگا اور یہ اسمبلیاں ملکی
اور عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے اِس طرح کسی گونگے بہرے کا کردار اداکرتے
ہوئے ملک اور عوام کو درپیش اندورنی اور بیرونی سنگین مسائل سے چپ سادے پڑی
رہیں گی جیسے آج کل پڑی ہیں۔ اور عوام کے لئے یہ اسمبلیاں کچھ نہیں کرپائیں
گی سوائے اِن اسمبلیوں اور ایوانوں سے عوام کے لئے مہنگائی جیسے حکم نامے
جارہی ہوتے رہیں گے اور بس ....
تو پھر کیا واقعی اِس حکومت کو اگر 5سالہ مدت پوری مل گئی تو کیا ملک نہیں
بچے گا......؟ نہیں .....نہیں عمران خان ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ حکومت اَب
اتنی بھی ظالم نہیں کہ عوام کے لئے کچھ اچھا اور بہتر بھی نہ کر کے جائے
اور یہ حکومت اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی چلی جائے ....کچھ بھی ہے یہ ایک
جمہوری حکومت ہے اِس کی ہم سب کو ضرورت ہے...ہم سب کو اَب بھی اِس کی مدت
پوری ہونے کی دعائیں کرنی چاہئیں اور اِس سے اچھے کی اُمید ضرور رکھنی
چاہئے۔ |