یوم یکجہتی کشمیر۔ کیا ڈاکٹر عافیہ کو آزاد نہ کرا سکنے والے کشمیر آزاد کرالیں گے؟

پانچ فروری کو پاکستان بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتاہے۔ سرکاری سطح پر چھٹی دی جاتی ہے تاکہ ملک بھر ایک سماں سا قائم کیا جائے کہ ہر شخص کشمیر کے سلسلہ میں فکر مند ہے۔ ملک کے طول وعرض میں سیاسی، نیم سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اس بات کی کھلی اجازت دی جاتی ہے کہ کشمیر سے یکجہتی کے سلسلہ میں ریلیز اور جلسوں کا اہتمام کریں۔ چنانچہ مختلف جماعتیں کشمیر سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے یہ وعدے دہراتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ کوئی جماعت اقوام متحدہ کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہوتی ہے تو کوئی عالمی برادری سے اپیلیں کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ کچھ ماہوم سی آوازیں انفرادی جہاد کے لیے بھی اُٹھ رہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح سرکاری سطح سے پیغامات جاری کیے جاتے ہیں جس میں روٹین کی اس بات کو دہرایا جاتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور دم توڑتے ہوئے کشمیری مسلمانوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھی جائے گی۔

تاہم ایک بات صاف نظر آرہی ہوتی ہے کہ یہ سبھی یوم یکجہتی کشمیر کو ایک سالانہ فیسٹول کے طور پر لے رہے ہوتے ہیں اور کسی ایسی کوشش یا حل کی طرف نہیں آرہے ہوتے کہ کس طرح کشمیر کے مسلمانوں کو ہندو بنئے کے چنگل سے آزاد کرایا جائے۔

چنانچہ پاکستان کے پاس ایک مضبوط اور ہر اسلحے سے لیس ایک بہادر فوج، جو کشمیر کو چند دنوں کے اندر بھارتی چنگل سے آزاد کراسکتی ہے، لیکن کوئی اس طرف بات نہیں کررہا ہوتا۔ جماعتیں یہ بات کرنے کو اسلام کی بجائے عالمی قانون کو مدنظر رکھتے ہیں کہ جہاں پر امریکہ کو تو یہ اجازت ہے کہ وہ جہاں دندناتا پھرے لیکن اگر کوئی مسلم ملک اپنی افواج کو مسلمانوں کے تحفظ کے لیے متحرک کرے گا تو وہ گناہ گار ٹھہرے گا۔ اسی طرح ہمارے حکمران بھی یہی بہانہ بناتے ہوئے ایسے کسی حل کا ذکر تک نہیں کرتی۔ بلکہ وہ تو اس سے بڑھ کر استعماری طاقتوں کے لیے اپنے فوجی وسائل کو بے دریغ استعمال کررہی ہے۔

اس سال پانچ فروری سے قبل تین فروری کو ہی امریکہ نے مسلمانوں کے دلوں پر ایک اور وار کردیا اور وہ تھا پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مجرم قرار دے دیا گیا یوں کشمیر کے مسئلے کے ساتھ ساتھ جو کہ برطانیہ کی طرف سے جوڑا ہوا مسلمانوں کا رستا ہوا زخم ہے امریکہ نے اپنا حصہ ڈالتے ہوئے مسلمانوں کے جسم پر ایک زخم لگا دیا۔ ہلاکو خان اور فرعون کو مات دینے والی امریکی حکومت نے گواہوں کے متضاد بیانات کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو مجرم قرار دے دیا کہ جس میں سزا ساٹھ سال تک دی جاسکتی ہے۔ جبکہ ہماری حکومت کی طرف سے فقط اظہارَ افسوس کا پھیکا سا مجرمانہ بیان جاری کیا گیا۔ اور وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے ہیں جہاں اُن کی اپنی صفوں سے یہ آوازیں آرہی ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو اسی سرزمین سے اُس کی اپنی حکومت نے غائب کروایا اور پھر امریکہ کے حوالے کردیا۔ اور ظلم کی انتہا دیکھئے کہ یہ اغوا فقط ایک عورت کا نہیں بلکہ اُس کے ساتھ اُس کے تین معصوم بچوں کا بھی اغوا تھا جن میں سے ابھی تک چھوٹی بچی سمیت دو لا پتہ ہیں۔

اس واقعہ نے یہ بات سوچنے پر مجبور کردی ہے کہ وہ حکمران جو اپنے ملک کی بیٹی کا تحفظ نہیں کرسکتے ہیں وہ کشمیر کی آزادی کے لیے کیا خاک عمل کریں گے۔ امریکہ کی طرف سے اس عدالتی فیصلے کے بعد اُن لوگوں کو سوچنا چاہیے جو انصاف کی خاطر کبھی اقوام متحدہ کے طاغوت کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور کبھی عالمی برادری کے نام پر امریکہ اور برطانیہ کے پاؤں چھوتے ہیں۔ کہ ان کفار سے انصاف کی توقع کرنا اپنے آپ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔

چنانچہ یہ بات جان لینی چاہیے کہ ان کفار کی منت سماجت سے ڈاکٹر عافیہ اور کشمیر کے مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانا ممکن نہیں۔ بلکہ ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ یہی سندھ کی سرزمین تھی کہ جہاں سے ڈاکٹر عافیہ کو گرفتار کیا گیا اسی سرزمین پر جب راجہ داہر نے مسلمان عورت کو قید کیا تھا کہ اس وقت کی خلافت نے راجہ داہر کی منت سماجت کرنے کی بجائے محمد بن قاسم کی شکل میں خلافت کی فوج کو بھیجا تھا کہ جس نے ناصرف اُس عورت کو آزاد کرایا بلکہ اسلام کے نور کو اس سرزمین پر پھیلا دیا کہ جس کی وجہ سے آج ہمارے گھروں میں اسلام موجود ہے۔ یہ خلافت کا نظام ہی ہے جو کہ مسلمانوں کی افواج کو خالی بیرکوں میں بٹھانے یا انہیں کفار کی خاطر متحرک کرنے کی بجائے ڈاکٹر عافیہ اور کشمیر کے مسلمانوں کا تحفظ کرے گی۔
Saleem Sethi
About the Author: Saleem Sethi Read More Articles by Saleem Sethi: 9 Articles with 8779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.