شہر قائد کا ناسور

گزشتہ ماہ فروری میں رینجرز کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے عدالت میں ایک رپورٹ پیش کرائی تھی جس میں ۱۱ستمبر۲۰۱۲؁ء کو بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کراچی میں پیش آنے والے سانحے کے حوالے سے تھی اس رپورٹ میں جو مندرجات تھے اس سانحے کے حوالے سے تھے کہ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں لگنے والی ٓگ کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ ٓگ بھتہ نہ ملنے کی وجہ سے لگائی گئی تھی یاد رہے کہ اس سانحہ میں ۲۵۹ افراد شہید ہوگئے تھے اور یہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی دہشت گردی تھی اور اس دہشت و وحشت کی ذمہ داری کراچی کی سب سے بڑی سیاسی تنظیم ایم کیو ایم پر ڈالی گئی تھی۔اس سانحے کی تحقیقات کے دوران ایک گرفتار ملزم نے ہی انکشاف کیا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اس فیکٹری کو آگ لگائی تھی عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ واقعے میں ایم کیو ایم کے ملوث ہونے کے حوالے سے اس رپورٹ کے مندرجات کو خفیہ رکھا جائے۔ ایم کیو ایم کے قائد نے اس رپورٹ کو مسترد کیا تھا اور ایم کیو ایم کے دوسرے رہنماؤں نے میڈیا پر خوب دفاع کیا اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے کافی جستجو کرتے رہے اور اب ایک ماہ بعد رینجرز نے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو پر چھاپا مارا اور جہاں سے معروف ٹارگٹ کلرز سمیت سیاسی جماعت کے ۸۶ افراد کو گرفتار کیا اور ایم کیو ایم کے اس مرکزی دفتر سے منشیات،دستی بم کے علاوہ غیر قانونی ہتھیار بھی برآمد کیے۔ان مشہور ٹارگٹ کلرز میں جیو نیوز کے معروف صحافی کے قتل میں ملوث فیصل موٹا،سنگین جرائم میں ملوث عبید کے ٹو اور عمر قید کے اشتہاری مجرم نادر کو بھی گرفتار کرلیا ہے اور اب عدالت نیان ملزمان کو ۹۰ روزہ جسمانی ریمانڈکے لئے رینجرز کے حوالے کردیا ہے۔

نائن زیرو پر چھاپا پڑتے ہی ایم کیو ایم نے اپنی مظلومیت سے لبریز دھاڑ اور واویلا شروع کردیا بلکہ ہمارے غیر جانبدار میڈیا نے اس پورے دن کو یوم سوگ منایا جس پر ایم کیو ایم کے ارکان خوب اپنی بھڑکاس فوج اور رینجرز پر نکالتے رہے۔ایم کیو ایم کے خود ساختہ جلا وطن قائد تو حواس باختہ ہوگئے اور ہوژ کھو بیٹھے اپنے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’کہ اگر گرفتار ہونے والے لوگ اشتہاری تھے تو کہیں اور چھپتے جس طرح میں کئی سالوں سے باہر جلاوطنی کاٹ رہا ہوں ان لوگوں کو چھپنے کے لئے اور کوئی جگہ کیوں نہیں ملی کیوں پارٹی کو مشکل میں ڈالا‘‘۔اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے کب تک مظلوموں کی آہ و سسکیاں ہوا میں اڑتی رہیں گی ایک دن تو یہ پارٹی پکڑ میں آئے گی بلکہ یہ امید ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں کہ ان لوگوں کو مزید ڈھیلی رسی ملے حکمران نہ سہی اﷲ نے ان مظلوموں کا حساب لینا ہے۔کچھ دن پہلے میڈیا ذرائع کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ میں جو پانچ جماعتیں سر فہرست ہیں ان میں پہلے نمبر پر ایم کیو ایم ہے اور اس کے بعد ٹی ٹی پی اور تیسرے نمبر پر مذہبی انتہا پسند جماعت سُنی تحریک ملوث پائی جاتی ہے۔

کراچی کے خوف کی علامتیں ہین یہ لوگ اب ایم کیو ایم کے صولت مرزا نامی غنڈے کی موت کے پروانے بھی جاری ہوچکے ہیں جس پر صولت مرزا کی بیوی واویلا کر رہی ہے لیکن الطاف حسین نے صولت مرزا کو جاننے سے انکار کردیا ہے مگر صولت کی بیوی نے اس بات کا برملا اعلان کیا ہے کہ صولت مرزا ایم کیو ایم کا ہی کارکن ہے اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا ہے اب پتہ نہیں کیوں ایم کیو ایم کے قائد اس سے لا تعلقی کا اعلان کر رہے ہیں۔الطاف حسین صاحب کی پارٹی کی مشکلات مزید بڑھنے والی ہیں کیونکہ الطاف ھسین صاحب خود اپنی کشتی بچانے میں بھی سرگرداں ہونگے کیونکہ الطاف حسین پر زمین کچھ تنگ ہورہی ہے سکاٹ لینڈ یارڈ ابھی عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے اس کے علاوہ منی لاندرنگ کیس کا سایہ بھی الطاف حسین کے سر پر منڈلا لا رہا ہے پاکستان کی سر زمین بھی الطاف ھسین کے کلاف مزید گرم ہورہی ہے اور اس کے علاوہ رینجرز کی طرف سے جاری ان آپریشنز میں پکڑے جانے والے فیصل موٹااور عامر خان جیسے سیاسی ملزمان مزید راز افشاں کر رہے ہیں نئی تحقیقات میں یہ معلوم ہوہے کہ اسلحہ پہنچانے اور ٹارگٹ کلنگ کے لئے کراچی میں ایمبولینسز کا استعمال کیا جاتا رہاہے۔

ان سارے معاملات کو دیکھ کے ہمیں جنرل نصیر بابر یاد آتے ہیں جو سندھ کے وزیرداخلہ رہے ہیں جس نے بے رحمانہ آپریشن کر کے ان کے دہشت گردی کے اڈوں کے خلاف جہاد کیا تھا اور لوگوں کو سکون کا ماحول عطا کیا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد مشرف جیسے امریکی لبرل غلام نے اپنے حوس اقتدار کے لئے ان کی مدد کی اور ان کو کھلی چھوٹ دے دی تھی ان درندوں نے بارہ مئی ۲۰۰۷؁ء کو زندہ وکلاء کو جلا کے مشرف کو نزرانہ پیش کیا اور اس کی وجہ سے مکمل طور پر انہیں آزادی ملتی رہی پھر بعد میں آنے والی پی پی پی کی حکومت میں یہ لوگ حکومت کے لئے مجبوری بن گئے اور حالات اس منطق تک آپہنچے کہ ’غریب کی ماں‘ کہلانے والا یہ شہر غریب کی موت بن گیا اور کسی نے توجہ نہ دی۔حالیہ حکومت کو ملنے والے مختلف بحرانوں میں سب سے بڑا بحران دہشت گردی کا ہے جسے ابھی تک حکومت کنترول کرنے میں ناکام رہی ہے اور کچھ مختلف ملک دشمن عناصر نے بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کو حکومت کو اس دہشت گردی سے نمٹنے میں ناکام کرنے کے لئے خوب تماشے کئے اور تماشائی اپنا کھیل پورا کر کے دوبارہ باہر اپنے آقاؤں کے پاس جا چکے ہیں۔ خیر اب حکومت کو فرضی اے پی سی کے علاوہ بھر پور ایکشن پلان کے ساتھ ان ناسوروں کے خاتمے کے لئے میدان میں اترنا چاہیے ایم کیو ایم میں اگر کوئی سنجیدہ سیاسی لوگ ہیں تو وہ نکل کر سامنے آئیں اور حکومت اور فوج کا ساتھ دیں تاکہ کراچی کو دوبارہ امن کا گہوارہ بنایا جا سکے اور اس کینسر جیسے موزی مرض کا ایک سنجیدہ علاج کیا جاسکے۔
Muhammad Shahid Yousuf Khan
About the Author: Muhammad Shahid Yousuf Khan Read More Articles by Muhammad Shahid Yousuf Khan: 49 Articles with 44774 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.