بابری مسجد اور آئین کی دفعہ341

ڈاکٹر ایم اعجاز علی
سابق ایم پی
بانی و سرپرست آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ

بابر ی مسجد کی حفاظت کے عوض میں مسلمانوں کو دفعہ341( ریزرویشن) سے دست بردار ہونا پڑا تھا  یہ بات سن کر آپ کو عجیب سا لگے گا لیکن آئین مکمل ہونے(26.-Nov.-1949) سے نافذ ہونے ( 26.-Jan.-1950) کے بیچ 22-23دسمبر1949کو بابری مسجد کے صحن میں سازشی طریقے سے رام للا کی مورتی رکھواکر جو ڈرامہ انجام دیا گیا اور مسجد پر جبراً قبضہ کر مندر میں تبدیل کر دینے کی مانگ کو زبردست طریقے جو اُٹھایا گیا، اس کے پیچھے دراصل رام مندر بنانے کا مقصد تھوڑے ہی تھا بلکہ مسلمانوں کو ریزرویشن سے خارج کر دینے کا تھا تاکہ اقتدار میں ان کی حصہ داری صفر ہو جائے۔ کنسٹی چیونٹ اسمبلی کی بحث کا جب آپ مطالعہ کریں گے تو پائیں گے کہ اقلیتی امور کے انچارج سردار پٹیل تھے جو ہندو مہاسبھا کے ممبر ہونے کے ناطے شروع سے ریزرویشن کے ہی مخالف تھے‘ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مجوزہ آئین ہند میں کسی بھی طبقے کو ریزرویشن ملے۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے تو اس کی مخالفت کر اپنا ریزرویشن ( دفعہ341) جاری رکھوا لیا لیکن سنویدھان سبھا کے مسلم ممبران کے ذریعہ ہی مخالفت کرواکر سردار پٹیل نے نہ صرف مسلم ریزرویشن کا خاتمہ کروا دیا بلکہ دفعہ 341پر مذہبی قید لگوانے کی تجویز ہندو مہاسبھا سے دلواکر شیڈول کاسٹ کو ٹے سے بھی اقلیتوں کو خارج کروانے کی چال چلی تھی۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے دفعہ 341 پر بھی ،مذہبی بندش لگانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ 13؍ فروری 1949کو ڈارفٹنگ کمیٹی میں تجویز لاکر کسی بھی طر ح کے ریزرویشن پر مذہبی قید لگانے پر روک لگوادی۔ ا س طرح ڈاکٹر امبیڈکر نے نہ تو کمزور طبقات کے ریزرویشن کو ہی ختم ہونے دیا اور نہ اس پر مذہبی قید لگوانے کی ہندو مہاسبھا کی چال چلنے دی۔ یہ ہندو مہاسبھا کے ہندو راشٹر بنانے کی مہم پر بڑا جھٹکا تھا کیونکہ وہ آزاد ہند کے آئین میں ہی ایسی چال چلنا چاہتے تھے تاکہ اس کے نافذ ہونے کے سو برس جاتے جاتے بھارت کو ہندو راشٹر ، (ایک ذات ہندو اور ایک مذہب ’’ہندو ازم‘‘) بنایا جا سکے۔ لہٰذاجب 26-Nov.-1949کو آئین ہند مکمل ہوگیا اور ان کی کوئی چال نہیں چلی تب دفعہ 341پر مذہبی قید لگوانے کی اپنی ضد کی خاطر ہندو مہا سبھا نے آخری حربے کے طور پر بابری مسجد کو نشانہ بنایا اور 22-23؍ دسمبر 1949کی شب میں اس کے صحن میں رام للا کی مورتی رکھواکر زبردست جذباتی چال کھیلی۔ بٹوارے کا زخم کھایا ماحول‘ گولوالگراکا اترپردیش میں ہندو راشٹر کو لے کر چھڑی ہوئی مہم، گاندھی جی کا قتل ، گوڈسے کی پھانسی (6 Nov.1949) وغیرہ جیسے ماحول میں بابری مسجد کے صحن میں رام للا کی مورتی کی موجودگی سے پیدا کردہ تنازعہ کو کنٹرول کرنا بھلا معمولی بات تھی ۔ سوائے شانتی و سمجھوتے کے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ ہندو مہا سبھا کے ذریعہ ملک میں رام جنم بھومی کے پراچین مندر کو توڑ کر بابر کے ذریعہ وہاں مسجد بنانے جیسی من گڑھنت چال کے ذریعہ سنگھ پریوار چاہتا تھا کہ ایک ایسے سمجھوتے کی نوبت آئے تاکہ مسجد کی حفاظت کی خاطر دفعہ 341پر مذہبی قید لگانے کی شرط کو مسلمان قبول کر لیں۔ بالآخر یہی ہوا۔ سمجھوتے میں مسلمانوں کی طرف سے یہی مانگ رہی کہ جب تک عدالت سے فیصلہ نہ ہو جائے تب تک بے حرمتی سے بچانے کیلئے مسجد پر تالہ لگا رہے۔ اس کے عوض میں ہندو مہا سبھا نے دفعہ341پر مذہبی قید لگانے کی شرط رکھی جسے مسلم رہنماوؤں نے قبول کیا۔ اس طرح جہاں قومی پیمانے پر دنگا فساد ہونے کا خدشہ ٹلا وہیں ہندو مہاسبھا اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ اس طر ح سمجھوتے کے تحت ایک تالہ جہاں بابری مسجد پر لگا (تاکہ رام للادرشن پر روک لگے) ‘وہیں دوسری طرف آئین کی دفعہ 341پر دوسرا تالہ ( مذہبی قید) لگانے کی بات طے ہوگئی۔ 26؍ جنوری 1950کو آئین ہند تو نافذ ہو گیا۔ اُس کے بعد دفعہ341پر مذہبی پابندی کے دو شرط نافذ کئے گئے۔ پہلی شرط یہ لگی کہ شیڈول کاسٹ ریزرویشن صرف ہندوؤں کو ملے گا جس کا آرڈر10؍ اگست1950کو آیا( جسے صدارتی حکم نامہ1950کہا جاتا ہے۔) اس کے 9؍ سال بعد دفعہ 341پر دوسری شرط یہ لگی کہ 1950میں ریزرویشن سے خارج شدہ اقلیتی فرقے کو دوبارہ اس زمرے میں شمولیت کے لئے پہلے ہند ومذہب قبول کرنا ہوگا ۔یہ آرڈر23؍ جولائی 1959کو لایا گیا تھا۔ یہ دونوں آرڈر زہریلے ہیں لیکن پارا ۔IIIاور پارا۔IVکی شکل میں آئین ہند میں آج بھی موجود ہیں۔ آئین ہند کے نافذ ہوئے65سال گذر گئے ۔ ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ سمجھوتہ میں کون کس پر بھاری پڑا۔ آج کی تاریخ میں بھی ایودھیا مسئلہ جیوں کا تیو ں کھڑا ہے۔ فرق یہی ہے کہ کل تک مسجد ہٹانے کا مسئلہ تھا جس کی جگہ پر آج مندر بنانے کا مسئلہ ہی بچا رہ گیا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کی بد حالی کے مد نظر ریزرویشن کا مسئلہ کھڑا ہے جو شروع سے سب سے اہم مسئلہ بنارہا حتیٰ کہ سچر کمیٹی رپورٹ سامنے آئی جس میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی خراب بتائی گئی ۔ اس رپورٹ کے بعد مسلمانان ہند اس دفعہ 341کے مسئلے پر متفق ہوتے نظر آئے جس پر بابری مسجد تنازعہ کے آڑ میں سنگھ پریوار والوں( ہندو مہاسبھا) نے مذہبی قید لگوانے کی کامیاب سازش 1949میں ہی رچی تھی۔جہاں تک ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا معاملہ ہے اس کی راہ پوری طرح ہموار ہو چکی ہے‘ اب تو سرکار بھی رام زادوں کی ہی ہے اور جمہوریت کے دیگر ستونوں پر بھی اُنہیں کا قبضہ ہے۔ پولس فورس اُن کا ہے۔ جبکہ دوسری طرف دفعہ 341پر پاندی کا اثر یہ ہے کہ آگرہ جیسی حرکات کا سامنا ہمیں کرنا پڑ رہا ہے جو محض ایک چھوٹی سے جھلک ہے ورنہ اتنے وسیع ملک میں ہزاروں ہزار ایسے حلقے ہیں جہاں تبدیلیٔ مذہب کی راہ ہموار بنی ہوئی ہے۔ اندازہ لگاہے کہ سمجھوتا میں کون فریق کس پر بھاری پڑا اور اس کے اثرات کا مقابلہ اب کس حکمت سے کی جائے۔
Azam nayyar
About the Author: Azam nayyar Read More Articles by Azam nayyar: 12 Articles with 8422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.