شاعری کا عالمی دن اور شاکر شجاع آبادی

 شاعری کا عالمی دن 21 مارچ کو منایا جارہا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد شاعروں اور شاعری کی پزیرائی کرنا اور اس کی حمایت کرنا ہے یونیسکو نے فنون اور ثقافتوں میں دنیا بھر میں شاعری کے اہم کردار کو تسلیم کروانے کی خاطر 1999میں ہرسال 21مارچ کو شاعری کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ عالمی یوم شاعری کے موقع پر شاعری اوراس کے مطالعہ ، تخلیق اور تدریس اور شاعروں کی پذیررئی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ ”لفظ اور صوت کی تخلیق ،،کے ساتھ ہی جذبوں کے اظہار کیلئے شاعری جیسا لطیف ترین ذریعہ بھی وجود میں آ گیا تھا ،جسے دنیا کی ہر قوم اور ہر زبان میں فروغ ملااور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔”شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے،، جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔ شاعری جب خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔ شاعری جب عقیدت کے سفر پر گامزن ہوئی تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان۔
بقول خلیل رامپوری
شاعری نے مجھے انسان بنایا ہے خلیل
میں وہ شیشہ تھا کہ دنیا سے چمکتا ہی نہ تھا

موجودہ حالات میں جہاں معاشرہ دہشت گردی اور مادہ پرستی کی لپیٹ میں ہے اور ہر طرف مفاد پرستوں کا ٹولہ ہالہ بنائے ہوئے ہے۔ سکون امن وشانتی کے متلاشی کچھ اور کریں نہ کریں اگر کوئی شاعری کی اچھی کتاب نظر آجائے تو وہ فوری طور پر اس کتاب کوگھر لے کر جاتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ ریڈیو ،ٹی وی چینل پر کوئی اچھا گیت آرہا ہو تو بڑے انہماک کے ساتھ سنتے ہیں۔ لوگوںکا ابھی بھی شاعری اور شاعروں سے لگاو ¿ ہے۔ اور یہ لگاؤ وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوا۔ البتہ پڑھنے اور سننے کے میڈیم ضرور بدل گئے ہیں ۔ پرنٹ شدہ کتاب کے ساتھ اب برقی کتاب بھی پڑھی جاتی ہے۔ کہا جاسکتاہے کہ سوشل میڈیا نے شاعر اور شاعری کو اور بھی مقبول بنا دیا ہے۔

جس شاعر کی شاعری روح کو بے قرار کردے جس مشاعرے میں وہ پڑھیں تولوگوں کی بڑی تعداد کھنچی چلی آئے۔ وہ شاعر اور اس کی شاعری مقبول عام ہوتی ہے۔ایک ایسے باکمال شاعر کا نام ہے، شاکر شجاع آبادی ہیںسرائیکی زبان کے سب سے زیادہ مقبول شاعر ان دنوںوہ لا ہور جنرل ہسپتال میں نیورو سرجری کے لیے داخل ہیں۔ شاکر شجاع آبادی، جن کا اصل نام محمد شفیع ہے نے اپنی صلاحتیوں کو دینا بھر میں منوایا ہے۔شاکر نے بچپن سے ہی شاعری شروع کردی تھی اور اپنے اندرکے شاعر کو خود ہی دریافت کیا اور اس شاعر نے پھر ایسا کچھ کیا کہ آج وہ مقبول شاعر ہے۔شروع شروع میں شاکر شجاع آبادی اپنے شہر میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں اپنا کلام پڑھتے رہے اورپھرانہیں پہلی مرتبہ 1986 میں ریڈیو پاکستان ملتان کے ایک مشاعرے میں اپنے اشعار پڑھنے کا موقع ملا۔اس کے بعد شاکر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ملتان،بہاولپورسمت وسیب کے دوسرے شہروں کے بعد ان کی شہرت لاہوراور پھر پورے پاکستان تک پہنچ گئی۔ریڈیو،ٹی وی، اخبارات ورسائل وجرائدپر وہ چھاگئے۔کوئی مشاعرہ ایسا نہیں ہوتا جس میں وہ اپنا کلام نہ سنا رہے ہوں ۔شاکر نے نے اپنی زندگی سرائیکی شاعری کے لیے وقف کردی اور اپنی شاعری میںمعاشرے کے مظلوم پسے ہوئے محروم وطبقات کو اپنا موضوع بنایا۔

شاکر شجاع آبادی جب کسی مشاعرے میں شامل ہوں توحاضرین سے صبر نہیں ہوتا ، ان کے نام کا نعرہ لگناشروع ہوجاتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اس موقع پراسٹیج سیکریٹری انہیں چند منٹ کے لیے ڈائس پر مدعوکرتے ہیں۔ اور شاکر فرمائشی اشعار سنا کر واپس اپنی نشست تشریف لاجاتے ہیںاس وعدہ کے ساتھ کہ وہ دوبارہ پڑھنے کے لیے آئیں گے ۔شاکر کی شاعری زبان زدِعام ہوگئی۔ ہندوستان، کینیڈا اور امریکا ، یورپ جاپان، ناروے سمیت دنیا بھرمیں شاکر کی شاعری مقبول ہے۔”شاکر کا جادو چل گیا،، اوروہ مقبولیت کے گراف پر پہلے نمبروں پر آگئے، جس کے ساتھ ہی ان کی کتابوں کی فروخت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ پبلشروں نے ان کی ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع کیں۔ان کی مقبول کتابوں میں لہو دا عرق، پیلے پتر، بلدین ہنجو، منافقاں تو خدا بچاوے، روسیں تو ڈھاڑیں مار مار کے اور گلاب سارے تمہیں مبارک، شامل ہیں۔ 2007ء میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔شعرو شاعری کے چوبیس برسوں کے دوران شاکر نے ہزاروں ڈوہرے، قطعات، گیت ، غزلیںاور کافی نظمیں لکھیں۔وہ اپنی پیدائش کے بعدہی سے چلنے پھرنے میں خرابی کا شکار تھے۔یہ عوامی شاعر بارہ برسوں سے چلنے پھرنے سے اب قاصر ہے۔انہیں سر اور گردن کی حرکت میں دشواری کا سامنا بھی ہے۔شاکر کی بیماری کی خبر جب میڈیا نے دی اور پھر ایک تسلسل کے ساتھ اس فالواپ بھی ہوا تو حکومتی ارباب واختیار نے اس کا نوٹس لیا۔وزیر اعلی میاں محمد شہباز شریف کی ہدایات پر اب ان کا سرکاری خرچ پر علاج ہورہا ہے۔ڈاکٹروں کی ٹیم (بورڈ) بھی بنا دی گئی ہے۔بہتر علاج سے شاکر کی طبیعت تو سبھل گئی ہے مگر وہ مکمل صحت یاب نہیں ہیں۔

فروری 2014ء میں وزیراعظم نواز شریف نے شاکر کے لیے ایک ملازمت، ماہانہ وظیفے اور ایک گھر کا اعلان کیا تھا۔ اس عظیم عوامی شاعر جو قوم کا اثاثہ ہیں کے لیے یوم شاعری کے عالمی دن کے موقع پر ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ میاں محمدشہباز شریف نے جوپچیس ہزار روپے کے ماہوار وظیفے کا اعلان کیا تھا اور ایک بار اس کی ادائیگی بھی ہوئی۔ اس وظیفے میں اضافہ کرتے ہوئے سابقہ وظیفہ جات کی یکمشت ادائیگی کی جائے۔شاکر کی مکمل صحت یابی تک ان کاعلاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے۔شاکر شجاع آبادی کے بیٹے کو سرکاری ملازمت دی جائے۔ تاکہ ان کے گھروالوں ایک مستقل روز گار کا بندوبست ہوسکے۔ ان کے چاہنے والے ان کی مکمل صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔
کلام شاکر
دل منگ پووی تاں لنگھ آوویں ، میڈے گھر دا سوکھا راہ اے
ہاں واسی ڈکھ دے صوبے دا، ضلع غم، تحصیل جفا اے
ہِک میل فراق دے موضعے توں، واہندا ہنجوواں دا دریا اے

جڈاں شاکر پرھلی منڑ ٹپسیں، اگوں سامنے میڈی جا اے
۔
کل خاب ڈٹھم جو مر گیا ہاں ، جگ سوگ منیندا رہ گئے
کوئی تیار میڈے جنازے دا، اعلان کریندا رہ گئے
چن آروں ویاروں ٹ ±ر تاں پئے، او قدم گِھلیندا رہ گئے
گئے غیر جنازہ چا شاکر، اور پیر دھوویندا رہ گئے
۔
بے وزنے ہیں تیڈی مرضی اے، بھانویں پا وچ پا، بھانویں سیر وچ پا
پا کہیں دشمن دی فوتگی تے، یا جھمر دے کہیں پھیر وچ پا
پا چن دی چٹی چاندنی وچ، یا رات دے سخت ہنیر وچ پا
راہ رلدے شاکر کنگن ہیں ، بھانویں ہتھ وچ پا، بھانویں پیر وچ پا
۔
تیکوں یاد ہوسی میں آکھیا ہم، دلدار مِٹھا تو چھوڑ ویسیں
ول ول قرآن تے ہتھ نہ رکھ،نہ قسماں چا تو چھوڑ ویسیں
ک ±جھ سوچ سمجھ کے فیصلہ کر، نہ جوش دکھا تو چھوڑ ویسیں
کر شاکر،کوں برباد سجن، بس لوک ِکھلا تو چھوڑ ویسیں
۔
زندگی ھک بوجھ ھے بس چئی وداں
چودی نی پر کنڈھ پچھوں لڑکئی وداں
اجھو مکدے پندھ گھر نزدیک ھے
تھکے بت کوں ایہو لارا لئی وداں
تھک پیا ھوسیں میاں آرام کر
ھیں صدا کہیں دی تے کن کڑکئی وداں
کون لیندے گل غریباں کوں بھلا
آپ شاکر آپ کوں گل لئی وداں
 
Riaz Jazib
About the Author: Riaz Jazib Read More Articles by Riaz Jazib: 53 Articles with 58715 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.