انسانی آبادی پر کنٹرول سے مراد
آبادی میں بے انتہاء اضافہ کی شرح کو روکنا ہے تاکہ کسی بھی ملک کی آبادی
اتنی رہے جتنے اس کے وسائل ہوں تاکہ تمام لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات
دستیاب ہوسکیں ۔ اگر آبادی زیادہ ہواور قومی وسائل کمیاب ہوں تو کٹھن زندگی
لوگوں کا مقدر بن جاتی ہے۔ ان لوگوں کے بچے نہ تو اچھی تعلیم حاصل کر سکتے
ہیں نہ صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس متوازن غذا کے لیے زر
نہیں ہوتا، ان کی قوت خرید کمزور ہوتی ہے، نوجوانوں کو روزگار نہیں ملتا جس
کی وجہ سے وہ معاشرتی برائیوں چوری، ڈاکہ، زنی لوٹ مار، قتل و غارت جیسے
قبیح افعال کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس لئے ماہرین کہتے ہیں کہ آبادی اتنی ہونی
چاہیے کہ حکومت ان کی ضروریات پوری کرسکے۔ یہی حال خاندانوں کا ہے جن کے
بچے زیادہ ہوتے ہیں وہ والدین بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت نہیں کرسکتے اور
جن کے بچے کم ہوتے ہیں وہ ان کو اچھی طرح لکھا پڑھا کرمعاشرے کا مفید شہری
بناتے ہیں۔اس لئے حکومتیں ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ آبادی ایک حد کے اندر
رہے۔ آبادی پر کنٹرول کی مثالیں اس دنیا میں موجودہیں مثلاً چین نے’’بچہ
ایک ہی اچھا‘‘پالیسی اپنائی اور لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ شرح پیدائش کو
کنٹرول کریں وہاں ایک سے زیادہ بچوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ناجائز
بچے رکھنے والوں کو جرمانے کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے نئے اقتصادی سروے2013-14ء کے مطابق پاکستان اس وقت آبادی کے
لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ اس کی آبادی18کروڑ80لاکھ ہے۔ پاکستان میں
شرح پیدائش1.95فی صد ہے۔جو جنوبی ایشیائی ملکوں کی اوسط شرح پیدائش کے لحاظ
سے بہت زیادہ ہے۔حکومت پاکستان فیملی پلاننگ(خاندانی منصوبہ بندی)جیسی کئی
حکمت عملیوں کے ذریعے آبادی کو کنٹرول کرنے پر کام کر رہی ہے۔پاکستان کی
زیادہ آبادی اس کا ایک اندرونی مسئلہ ہے جسے مثبت تناظر میں حل کیا
جاسکتاہے یعنی ہم اپنے وسائل کو بہتر انداز میں ترقی دے کر مسئلہ پر قابو
پاسکتے ہیں۔اس مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور
پاکستان نے اقوام متحدہ کو بتایا ہے کہ وہ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی
کوشش کے ساتھ ساتھ انہیں صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کررہا ہے۔علاوہ ازیں
ملک میں آبادی کے کنٹرول کی حکمت عملیوں کو موثر طور پر نافذ کیا جارہا ہے۔
ہمارے پاس انسانی وسائل کے بہتر انتظام کے ذریعے آبادی کو کنٹرول کرنے کا
آپشن بھی موجود ہے جس کے لیے متعدد طریقے تجویز کئے گئے ہیں ۔ حکومت کے پیش
نظر جو مقاصد ہیں وہ یہ ہیں کہ آبادی کی مینجمنٹ کے لیے ایسے اقدامات
اٹھائے جائیں کہ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ بے روزگار نوجوانوں
کی توانائیوں سے مثبت اور موثر طریقے سے استفادہ کرنے کے لیے انہیں ترغیبات
مہیا کی جائیں۔نوجوانوں کی مایوسی کو ان کی زندگی میں صحت مندانہ سرگرمیوں
کو متعارف کروا کر امید میں بدلا جاسکتا ہے۔ اس طریقے سے ہم اپنی آبادی میں
تشدد کے رجحانات کو بھی روک سکتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین ملک کی کل آبادی کا 51فی صد ہیں۔انہیں بھی قومی ترقی کے
دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھی قومی ترقی میں اپنا اہم کردار
ادا کرسکیں۔خواتین کو قرضے دے کر چھوٹے پیمانے کی صنعتیں متعارف کرانا
حکومت کا ایک بڑا اہم اقدام ہے۔ خواتین اپنے گھروں میں اپناکاروبار شروع
کرکے ملکی ترقی میں یکساں کردار ادا کر سکتی ہیں۔خواتین معاشرے کی اہم
ارکان ہیں اس لیے انہیں ترقی میں برابر کا کردار اد ا کرنا چاہیے۔ خواتین
کی ترقی اورانہیں بااختیار بنائے بغیر پاکستان کی ترقی اورخوشحالی کا خواب
شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ملک کی تعمیرو ترقی میں خواتین کا کردار انتہائی
اہمیت کا حامل ہے۔پاکستان کی خواتین با صلاحیت،محنتی اورتعلیم یافتہ
ہیں،خواتین نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ کوئی بھی
معاشرہ خواتین کو ان کے حقوق دیئے بغیر ترقی کی منزلیں طے نہیں کر سکتا۔
پنجاب حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور انہیں مساوی ترقی کے مواقع
فراہم کرنے کیلئے انقلابی اقدامات کئے ہیں۔خواتین کی ترقی اوران کے حقوق کے
تحفظ کیلئے تاریخی اقدامات اٹھائے ہیں۔سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا
کوٹہ5فیصد سے بڑھا کر15فیصد کردیا گیا ہے۔ حکومت کے اس انقلابی فیصلے سے
زیادہ سے زیادہ خواتین کو مختلف شعبوں کی ترقی میں اپنا بھر کردارادا کرنے
کا موقع ملے گا،اسی طرح ضروری قانون سازی کے ذریعے خواتین کا وراثت میں حصہ
یقینی بنایا گیا ہے۔ ایک اورانقلابی فیصلے کے تحت خواتین کو ملازمت کیلئے
عمر کی حد میں 3سال کی خصوصی رعایت بھی دی جارہی ہے۔ خواتین کو بااختیار
بنانے کے حوالے سے حکومتی اقدامات کے حوصلہ افزا اور مثبت نتائج برآمد ہو
رہے ہیں۔اس پس منظر میں قیمتی انسانی وسائل کا انتظام و انصرام وقت کی اہم
ضرورت بن جاتا ہے جس کے لیے نہ صرف حکومت اور اس کی تنظیم بلکہ ہر شخص کو
توجہ دینی چاہیے۔ |