ڈیل سے ڈھیل تک

پاکستان میں ڈیل اورڈھیل کی سیاست نے ریاست اورجمہوریت کوکمزورجبکہ مفادپرست سیاستدانوں کوایکسپوز کردیا۔سینیٹررضاربانی کانام نہاداتفاق رائے سے چیئرمین سینیٹ منتخب ہوناتوسمجھ آتا ہے مگر جمعیت علماء اسلام کے رہنما مولاناعبدالغفورحیدری کاپانچ ووٹ کے ساتھ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا جمہوریت کا''حسن''نہیں بلکہ بدصورتی ہے، پاکستان کے ایوانوں میں ہونیوالے زیادہ تر فیصلے اصولی نہیں ''وصولی''سیاست کے آئینہ دارہیں۔اصولی سیاست کرنیوالے گھروں میں بیٹھ گئے مگروصولی کی سیاست کے علمبردارمنتخب ایوانوں میں براجمان ہیں۔ہرکوئی دوسرے کی گھات میں بیٹھا ہے۔ضمیر بک رہے ہیں ، کوئی وزارت کاانعام کوئی اپنے دام وصول کررہا ہے۔حکمران اوراقتدارکے بھوکے سیاستدان اقتدارکی بندربانٹ کوجمہوریت کانام دے کرجمہور کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹ میں چھ ووٹ ہیں مگرانہیں چھ سے زائد ووٹ ملے جو حقیقت میں ڈیل کی سیاست کیخلاف نفرت اور خاموش بغاوت کااظہار ہے۔چندسہی مگرسینیٹ اور اسمبلیوں میں ابھی باضمیرلوگ ہیں جوکسی سرکاری''کھمبے ''کوووٹ دینے کیلئے تیار نہیں۔''سمجھوتہ ایکسپریس''پرسوارہو کر ایوان اقتدارمیں داخل ہونیوالے یعنی ڈیل کرنیوالے ڈیلیورنہیں کرسکتے ۔سیاستدانوں کی ایک دوسرے کیلئے ڈھیل ان کیلئے اقتدارمیں آنے کاراستہ ہموارجبکہ احتساب کے ہنٹر سے کھال بچانے کیلئے ڈھال کاکام کرتی ہے ۔ پاکستان میں نظریاتی نہیں بلکہ''مفاداتی''اورنظریہ ضرورت کی سیاست کادوردورہ ہے۔ سیاستدان اپنے مفادات کیلئے متحدہوجاتے ہیں مگرعوام کے درمیان اتحادویکجہتی کسی دورمیں بھی ان کاایجنڈا نہیں رہا۔ان کے نام نہادتاریخی فیصلوں پرتاریخ اورتقدیر بھی انہیں معاف نہیں کرے گی۔بدقسمتی سے آج بھی نظریہ ضرورت قومی سیاست اور سیاسی پارٹیوں کامحور ہے ۔ نظریہ ضرورت حقیقت میں ایک ریت کاڈھیر ہے اوراس پرکھڑانظام کسی وقت بھی منہدم ہوسکتاہے۔ضرورت کے تحت اوروقت کے ساتھ ساتھ سیاسی نظریات تبدیل کرنیوالے لیڈر نہیں ڈیلرہیں۔ جوایک دوسرے کے بدترین دشمن ہوتے ہیں ان میں راتوں رات گہری دوستی ہوجاتی ہے ۔ عام لوگ جس رویے کو منافقت کانام دیتے ہیں اسے سیاستدانوں کی زبان میں'' مفاہمت ''کہاجاتاہے جبکہ ان کی ریاکاری اوراداکاری سیاسی رواداری کہلاتی ہے۔ یہ ریاست اورجمہوریت بچانے یا کالاباغ ڈیم بنانے کیلئے متحدنہیں ہوتے مگرعوام کو''ڈیم فول ''بنانے کیلئے ''اچانک'' ان کے درمیان اتحاد بن جاتا ہے۔عام لوگ اورسیاسی کارکنان جن کے خون میں جنون دوڑتا ہے وہ پارٹی نظریات کی خاطراپنے رشتہ داروں کوبھی چھوڑدیتے ہیں ،پڑوسی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اوردیرینہ دوست دشمن بن جاتے ہیں مگرسیاستدانوں کی دوستی اوردشمنی مستقل نہیں ہوتی ۔انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے کوغدار،بدعنوان اورملک وقوم کیلئے سکیورٹی رسک قراردینے والے ضرورت پڑنے پراتحادی بن جاتے ہیں۔

سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں نظریہ ضرورت اس وقت مزید بدصورت بن گیاجس وقت مسلم لیگ (ن) نے یقینی شکست کی خفت سے بچاؤکیلئے باامرمجبوری پیپلزپارٹی اوراس کی اتحادی پارٹیوں کے متفقہ امیدواررضاربانی کی حمایت کافیصلہ کیاجس کواب تاریخی فیصلہ قراردیا جارہا ہے ،سیاستدانوں کے ایک دوسرے کیلئے تعریفی کلمات کواگر''انجمن ستائش باہمی'' کہا جائے توبیجانہ ہوگا ۔میاں شہبازشریف کی طرف سے جس ''علی بابا''آصف زرداری کوسڑکوں پرگھسیٹنے کادعویٰ کیا گیا تھا اب وزیراعظم میاں نوازشریف اس کے ساتھ گاڑی میں ڈرائیورسیٹ پربراجمان ہوتے ہیں اورنہیں سابق صدرمملکت کابھرپورپروٹوکول دیا جاتا ہے۔ہمارے سیاستدان ہوشیار نہیں ہیں بلکہ ہماری عوام ضرورت سے زیادہ بھولی ہے ۔عوام کی یاداشت انتہائی کمزورجبکہ ان کے ہضم کرنے کی صلاحیت زبردست ہے۔اگراب بھی عوام کاسیاسی شعور بیدارنہ ہواتوان کیلئے زندگی مزیددشوارہوجائے گی۔ ہمارے سیاستدان جس ''جمہوریت'' کوبچانے کاڈھول پیٹ رہے ہیں یہ حقیقت میں ان کیلئے ایک کلب ہے جہاں کسی ناداراورمفلس کی رسائی اورنمائندگی کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ سیاستدان اپنی چمڑی اوردمڑی بچانے کیلئے اتحادبناتے ہیں مگرمطلب براری کے بعد ان اتحادوں کاوجودباقی نہیں رہتا ۔اگرعوام متحدنہ ہوئے توسیاستدان انہیں استعمال اوران کااستحصال کرتے رہیں گے۔

عمران خان نے جس تبدیلی کابیڑااٹھایا ہے اس کے آثاراوراثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔عمران خان کواناڑی کہا جاتا ہے مگرانہوں نے اپنی جماعت کوسینیٹ میں جوڑتوڑ بلکہ توڑپھوڑاورخریدوفروخت کاحصہ نہیں بنایا ۔مسلم لیگ (ن) ،پیپلزپارٹی،اے این پی ،جے یوآئی اورایم کیوایم کے اتحادسے پی ٹی آئی تنہا نہیں بلکہ سیاسی واخلاقی طورپرمزید تواناہوئی ۔مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کوایک دوسرے کااینٹی ووٹ ملتا تھامگر اب دونوں پارٹیاں متحدہوگئی ہیں توظاہرہے ان دونوں کااینٹی ووٹ پی ٹی آئی کامینڈیٹ بنے گا ۔مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے ''اتحاد ''کوشفاف الیکشن کی صورت میں یقیناعوام کے انتقام کاسامنا کرنے پڑے گا۔

گورنرہاؤس کی گھٹن سے بیزارہوکرپنجاب کی گورنر شپ چھوڑنے والے چودھری محمدسرور ،کمالیہ کے باکمال اورباوقار سیاستدان ریاض فتیانہ ، سابق وفاقی وزیر،ممتازقانون دان اوردانشوربابراعوان،آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم بیرسٹرسلطان محمودچودھری کی پی ٹی آئی میں آمد تبدیلی کی غماز ہے کیونکہ ہمارے ہاں حکمران جماعت میں جانے کی روایات ہیں مگراب سنجیدہ سیاست کے حامیوں کی سوچ بدلی ہے اوروہ تبدیلی کیلئے سرکاری پوزیشن چھوڑکراپوزیشن کی سیاست کیلئے پاکستان تحریک انصاف میں آرہے ہیں جومحض ایک صوبہ خیبرپختونخوا میں برسراقتدار ہے ۔سیاست اورتجارت کے میدان میں سیلف میڈچودھری محمدسرورنے انتھک جدوجہدسے برطانیہ میں نام بنایا،برطانیہ کے بعداب پاکستان میں بھی ان کامقام اوراحترام ان کے مثبت کام کانتیجہ ہے ۔انہوں نے عہدہ پانے یا اپنا منصب بچانے کیلئے چاپلوسی اورخوشامد کی بجائے بیباکی اور حق گوئی کواپناشعاربنایا۔خوشامدکرنیوالے دوست نہیں بلکہ بدترین دشمن ہوتے ہیں مگرہمارے حکمرانوں کوباضابطہ اپنی شان میں قصیدہ سننے کی عادت بلکہ بیماری ہے ۔چودھری محمدسرور کی بطورگورنرتقرری سے گورنرہاؤس آباداوراس کاوقاربحال ہوا ۔ان کی کوشش ا وردلچسپی سے وہاں سیاست اورصحافت سمیت مختلف طبقات کی پذیرائی کیلئے پروقارتقریبات منعقد ہوتی رہیں مگر ا ن کے چلے جانے سے گورنرہاؤس دوبارہ ویران ہوگیا ہے۔چودھری محمدسرورکی پی ٹی آئی میں شمولیت سے عمران خان کی مزاحمتی سیاست کوتقویت ملے گی۔چودھری محمدسرورکی انتظامی وسیاسی صلاحیتوں کی بدولت پی ٹی آئی آنیوالے دنوں میں حکومت کوٹف ٹائم دے گی اورلاہورمیں دھرنا اسلام آباد کی نسبت زیادہ سیاسی اورانتظامی طورپرحکومت کیلئے زیادہ دباؤکاسبب بنے گا ۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے پہلے دورمیں میاں محمداظہرکوگورنرپنجاب بنایاتھا مگربعدازاں ان سے دیرینہ خاندانی تعلقات میں تناؤآگیا۔تحریک نجات میں میاں محمداظہر نے مسلم لیگ (ن) کے تنظیمی اورسیاسی امور کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں مگر انہیں دیوارسے لگادیا گیا جس پروہ میاں نوازشریف سے راہیں جداکرنے اور اپنا الگ مسلم لیگی دھڑابنانے پرمجبورہوگئے۔میاں محمداظہران دنوں سیاسی طورپرریسٹ پر ہیں مگران کی خاموشی کسی طوفان کاپیش خیمہ ہوسکتی ہے۔میاں محمداظہر کے بعدمیاں نوازشریف نے مسلم لیگ (ن) کے بزرگ اوردبنگ رہنماسردارذوالفقارعلی خان کھوسہ کوگورنرشپ دی مگرانہیں بھی مدمقابل آنے پرمجبورکردیا گیا۔سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ کے بعدبرطانیہ کی سیاست میں سرگرم چودھری محمدسرور کووہاں کی شہریت چھڑاکرگورنرپنجاب مقررکیاگیا ان کی کوشش سے قومی معیشت آئی سی یوسے باہرآئی اورپاکستان کیلئے یورپ میں ٹریڈ کاراستہ ہموار ہوا مگر ان کاسیاسی طورپرابھرنابھی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف ناگوارگزراجس پر چودھری محمدسرورکومستعفی ہونے پرمجبورکردیا گیا۔اب دیکھیں پنجاب کی گورنر شپ کیلئے کیا میرٹ مقررکیا جاتا ہے اورنیاگورنر ان کے ساتھ کہاں تک چل پاتا ہے ۔میاں نوازشریف کے دیرینہ اورمعتمدرفیق انہیں کیوں چھوڑجاتے ہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔ چھوڑنے والے یاچھوڑنے پرمجبورکرنیوالے قصوروارکون ہیں۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.