ماں کھو گئی ہے

کائنات کا اسرار ہی یہی ہے ۔سب ایک طرح دیکھتے ہیں نہ سوچتے۔ہر بات کے ہزار مطالب،ہر منظر کے لاکھ رنگ۔''پیاری بیٹیاں''پر آپ نے میری ایک بہن کے خیالات پڑھے جو اس معاشرے میں مردوں کے کردار پر ایک بھرپور احتجاج تھا۔ اس کالم کے شائع ہونے کے بعد حسبِ معمول بہت سی آراء موصول ہوئیں،ان میں بہت سے جذباتی پیغامات بھی تھے،معاشرے کے بگاڑ پر بہت سے کرداروں کو کوسنے بھی دیئے گئے اور اب تک مسلسل پیغامات موصول ہو رہے ہیں لیکن اب ایک اور میری بہن نے اس کے جواب میں اپنے جن جذبات کا اظہار کیا ہے،وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش ہے!

’’کہاں ہیں آج کی فاظمائیں بھائی؟ بہت قابلِ احترام ہیں آپ کی قاریہ بہن،جن کے سامنے آپ نے اپنی کو تاہیوں کا اعتراف کیا ،ان کے دکھائے ہوئے آئینہ میں نہ معلوم آپ نے اپنے چہرے کے کیا خدوخال دیکھے کہ فوراًاْن سے رہنمائی کی درخواست کر بیٹھے۔ان کی آراء پڑھ کر میرا تو جذبہ جنون میں بدلنے لگا کہ کہاں دیکھوں انہیں اور ہاتھ چوموں ان کی فاطماؤں کے،جن کیلئے ان کے دیدہ تر علی کو ڈھونڈ رہے ہیں۔درندوں کے ہجوم میں وہ تنہا ہیں اپنی فاطماؤں کے ساتھ،اور ایک خوف اور دکھ نے انہیں سولی پرلٹکا رکھاہے۔قربان جایئے اس ماں کے جذبات پر۔میں بھی ماں ہوں تین بیٹیوں کی،ایک یونیورسٹی میں استاد بھی ہوں،سولی پر میں بھی چڑھی ہوئی ہوں لیکن درندوں کے ہا تھوں نہیں،بلکہ اس قوم کی ''ماؤں''کے ہاتھوں!جو کچھ دیکھتی ہوں میں شب و روز،اور دکھ یہ کہ لب پر لا بھی نہیں سکتی۔مجھے کہنے دیجئے کہ اس قوم سے''ماں کھو گئی ہے‘‘۔

اگر آج ماں زندہ ہوتی تو بیٹیاں یوں سرِ بازار اپنی عزتوں کے جنازے نہ کاندھوں پرلئے پھرتیں۔اب تویونیورسٹی کسی تعلیمی درسگاہ کی بجائے کوئی فیشن میلہ کامنظر دکھائی دیتی ہے ۔ ہر روز سینکڑوں طالبات میری نظروں سے گزرتی ہیں ۔پہلے توآستینیں مختصرہوتے ہوتے غائب ہوگئیں تھیں اوراب شلوایں اور پاجامے دن بدن یوں اوپرچڑھ رہے ہیں کہ پنڈلیاں کھلتی ہی چلی جا رہی ہیں ۔مجھے ذراغصہ نہیں آتاان بچیوں پر،مجھے غصہ آتا ہے ان ''ماؤں'' پرجن کے سامنے یہ بچیاں تیارہو کرنوک پلک سنوارکرگھروں سے نکلتیں ہیں۔کیا یہ مائیں سمجھتی ہیں کہ یوں ان کے بہتررشتے دستیاب ہوں ہوسکیں گے ؟توبھول ہے یہ ان کی۔ایسے وہ کتنی ہوسناک نظروں کی تسکین کاسامان بنتی ہیں،کیا گھر واپس آنے والی بچیوں کی مائیں یہ سوچتی ہیں؟

میں درزی سے بضد تھی کہ میری بچی کی آستین ''٢١''انچ کی ہو گی'وہ کہہ رہا تھا:اس کپڑے میں صرف ''١٦''انچ کی بن سکتی ہے ۔میں نے کہا کہ'' میری بیٹی نہیں پہنے گی!''اس پر اس نے جل کر دوکان کے دوسرے سلے ہوئے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا اوربولا''یہ سب قمیضیں بغیرآستینوں کے ہیں،یہ آپ ہی کی بیٹیوں کی ہیں''۔بھائی !آپ یقین کریں اس نے نیم خواندہ ہونے کے باوجودوہ طمانچہ ماراتھا قوم کی ماؤں کے منہ پرکہ میں مارے شرم کے کچھ بھی تو نہ کہہ سکی اور کپڑا اٹھا کربوجھل قدموں سے دوکان سے نکل گئی۔طارق روڈ پر اپنی بارہ سالہ بیٹی کیلئے لباس کی تلاش میں گئی کہ کسی شادی میں پہننے کیلئے اس کونیاجوڑا درکار تھا۔آپ یقین کریں کسی دوکان پر آستینوں والے کپڑے نہ مل سکے۔ایک دوکاندار بولا:
’’آستینیں علیحدہ رکھی ہیں'آپ کنٹراس کرسکتی ہیں''۔میں نے کہا کہ آستینیں قمیض سے علیحدہ کیسے ہوگئیں؟بولا''مائیں پسند نہیں کرتیں آستینوں والے کپڑے!ہم تو وہی پروڈکٹس لاتے ہیں جن کی ڈیمانڈہوتی ہے''۔
کیابچیاں اپنی خریداری خودکرتی ہیں؟کیا ان کا’’ٹیسٹ‘‘ان کا ذوق ان کی مائیں ترتیب نہیں دیتیں؟اکثربس میں سفرکرنے کا اتفاق ہوتاہے مجھے۔میرے قریب بیٹھی ہو ئی میری ہی یونیورسٹی کی طالبات کے ہاتھ مسلسل موبائل پرمصروف ہوتے ہیں یاموبائل کوکان سے لگائے وہ خوابوں کی دنیا میں پہنچی ہوئی ہوتی ہیں۔ان کے چہرے پرآتے جاتے رنگ خوب عکاسی کرتے ہیں کہ وہ کس سے باتیں کررہی ہیں لیکن وہ اپنے اطراف کی دنیا سے بے خبرافسانوی دنیاکا حصہ ہوتی ہیں۔ان کے ہاتھوں میں جب ہم نے موبائل دیاتو کوئی چیک اینڈ بیلنس رکھا؟اس ماں کے آنسومجھے نہیں بھولتے جوانتہائی معززاورمتمول خاندان سے تعلق رکھتی تھی اوراس نے بیٹی کی شادی مجبوراًاس نوجوان سے کی جواس کے گھرانٹرنیٹ کنکشن دینے آیاتھا۔اسے معلوم ہی نہیں تھاکہ نیٹ پریہ دوستی اتنی مضبوط ہوجائے گی۔

میں نے اس خاتون سے کہا کہ''بیٹی پرنظرکیوں نہیں رکھی؟''بولیں''ہاں یہ اندھااعتماد تھامیرا،میں نے اس وقت سوچا ہی نہ تھاکہ میرے گھر میں یہ سب کچھ ہوجائے گا۔اب جی چاہتا ہے کہ چیخ چیخ کرسارامعاشرہ سرپراٹھالوں کہ اے میری طرح کی بدنصیب ماؤ!خداراہوش میں آؤ۔''بازارمیں چلتے چلتے قدم ٹھٹھک سے جاتے ہیں جب وہ ادھیڑعمر کی ماں جس نے خود کو عبایاسے ڈھانپاہواہوتا ہے اوراس کے ساتھ اس کی ٹین ایج کی بچی مختصریابغیرآستینوں اورنیم عریاں پنڈلیوں کے ساتھ اٹھلا اٹھلا کرچل رہی ہوتی ہے۔میری میٹرک کی طالبہ بیٹی مجھے نام گنواتی رہی کہ عیدپراس کی کن کن سہیلیوں کی ماؤں نے بیٹیوں کو''جینز ٹراؤزر''(پتلونیں)لیکردی ہیں۔اس کی دلیل یہ تھی کہ اچھی مائیں وہ ہوتی ہیں جوبچیوں کی خواہشات کاخیال رکھتی ہیں-

بھائی!مجھے بتائیں،میں وہ دن کیسے بھول جاؤں جب میری بیٹی کی میٹرک کی الوداعی تقریب تھی جس میں والدین مدعو تھے۔مائیں پنڈال میں تھیں اورباپ باہرگاڑیوں کے پاس موجود، اوربچیاں جب والدین کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کرگھروں کو روانہ ہونے لگیں تومیرامضطرب دل دہائی دیتارہ گیا کہ قوم سے ''ماں'' توکھوئی تھی 'اکبرالہ آبادی کی روح بھی تڑپ گئی ہو گی کہ سچ مچ آج کے باپ کی غیرت بھی عزتِ سادات کی طرح رخصت ہوگئی کہ نیم عریاں بازو،نظرآتی ہوئی پنڈلیوں، اسکرٹس کے ساتھ چست بلاؤز،خاصے اونچے لہنگے،رنگے ہوئے بال۔آپ یقین کیجئے یہ کسی ٹی وی ڈرامے کی ریکارڈنگ کامنظرمیں آپ کونہیں بتارہی،یہ وہ سولہ اورسترہ سالہ دوشیزائیں تھیں جومستقبل کی''مائیں''ہیں۔میراجی چاہا کہ جا کرعدالت کادروازہ کھٹکھٹاؤں کہ حال کی''ماں''کوعدالت کے کٹہرے میں کھڑاکیا جائے جس نے مستقبل کویہ''ماں''دی ہے‘‘!!!!

زبردست بحث سن کرمیں کمرے میں داخل ہوئی توایک ٹی وی پروگرام چل رہا تھا،جس میں پروگرام کی میزبان نے بغیر آستین کے ٹی شرٹ اورشارٹس پہن رکھی تھی جس میں اس کے گھٹنے تک برہنہ نظرآرہے تھے۔جب میں نے افسوس کا اظہارکیاتومیری بیٹی میرے کان میں کہنے لگی کہ''امی! شارٹس کایہی سائزہوتاہے؟''بھائی!دل تھام کرمیری یہ بات سنیں کہ یہ تقریب میری ہی یونیورسٹی میں ہورہی تھی جہاں صوبے کاوزیرِتعلیم دوسری مقامی سیاسی قیادت کے ساتھ موجود تھا۔ مجھ جیسے کچھ اساتذہ نے آج سے کچھ برس پہلے جب دلائل کے ساتھ ایسی مجالس کے انعقاد کو روکنے کی سفارشات پیش کی توہمارامنہ بند کرنے کیلئے ایک تنظیم کے سربراہ نے اپنے ٹیلیفونک خطاب میں اپنی روشن خیالی کااس طرح اظہارفرمایا کہ ہماری ملازمتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی جانوں کوبچانا بھی مشکل ہوگیا۔

ایک مرتبہ میں نے اپنے درزی سے مدد مانگی،اپنی بچیوں کے کپڑوں کے ڈیزائن کیلئے۔آپ یقین کیجئے،اس نے جس کتاب کی میرے سامنے ورق گردانی کی،وہ کسی یورپ کے معاشرے کی تصاویر نہیں تھیں۔وہ پاکستانی مسلمان لڑکیا ں تھیں لیکن ان کے لباس ،ان کے کلوز اپ ،کسی انڈین عریاں فلم سے کم نہیں تھے!کون سا گھر ہے جہاں مائیں ایک چھت کے نیچے بیٹیوں کے ساتھ انڈین ڈرامے اور فلمیں نہیں دیکھتیں!حیا کو ہم نے خودرخصت کیا،اپنی بیٹیوں کوبازارکی جنس بنادیا۔کوئی اور بعد میں،قصوروارپہلے میں خودہوں،اس لئے کہ میں ایک ''ماں'' ہوں۔زمانے کی رومیں بہنے والی،عقل وشعورسے عاری ،خوفِ خدا سے دوراس معاشرے کی ''ماں''۔ایک مسلمان ماں نہیں،'صرف ''ماں''۔

آ جکل ہمارے لئے یہ بہت آسان ہوگیا کہ اس سارے طوفانِ بدتمیزی کی ذمہ داری نت نئے ٹی وی چینلز پرڈال کرخود کومعصوم اور بے بس ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کوئی یہ نہیں کہتاکہ ہمارے ان سیاسی حکمرانوں نے اپنے مغربی اور صہیونی آقاؤں کی خدمت بجا لاتے ہوئے اپنی آئندہ نسل کا بیڑہ غرق کردیاہے۔بھائی!آپ ہر نقصان کاازالہ کرسکتے ہیں لیکن جس قوم کے اخلاق تباہ کردیئے جائیں اس قوم کوپستی اور انحطاط کی اندھیری کھائیوں میں گرنے سے آپ کبھی نہیں بچا سکتے۔آپ جیسے کالم نویس ہرروزملک کو دشمن کی سازشوں سے باخبررکھنے کیلئے کوئی نہ کوئی موضوع ضرورڈھونڈ لاتے ہیں لیکن اب تک آپ نے قوم کی اس ابتری کاذکرکبھی نہیں کیا؟ہم یہ بات بھی بڑی آسانی کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ ملک کی ترقی کیلئے خواتین کوان دقیا نوسی خیالات سے آزادی دلانے کی ضرورت ہے اوراس کیلئے مغربی عورت کی مثال دی جاتی ہے کہ کس طرح آج وہ ملک کے ہرمحکمے اور ادارے میں اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں اورہم نے عورتوں کو گھروں میں قید کررکھاہے۔

بھائی!یہ حقیقت نہیں ہے'میں یہ بات اس لئے یقین سے کہہ رہی ہوں کہ میں نے بھی برطانیہ کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی ہے اورمیں نے بھی اپنی زندگی کے کچھ قیمتی سال وہاں گزارے ہیں اوراب بھی مجھے کئی دفعہ امریکہ اوریورپ کے مختلف تعلیمی اداروں سے رابطے کی دعوت ملتی رہتی ہے اورمیں اپنے ملک کی نمائندگی بھی ایک مسلمان پاکستانی عورت اوراستاد کے ناطے کرچکی ہوں، مغربی ممالک کی پڑھی لکھی خواتین کی آراء اس سے بہت مختلف ہیں جن کاپرچارہمارے یہ کچھ بگڑے ہوئے ضمیر فروش سیاسی رہنمااوران کی تائید کرنے والے قلمکار کررہے ہیں۔ مغرب کے کئی دانشور جن سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے وہ پاکستان کی مسلم خواتین کیلئے تعلیم کوتوبہت ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے معاشرے کی بے راہروی سے بچنے کا ذکر بھی بڑی دلسوزی کے ساتھ کرتے ہیں۔ اب میں اس کی تفصیل بتانے بیٹھ گئی تو اس کیلئے کئی اوراق درکار ہوں گے۔مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آپ معاشرے کی اس بیماری کو اجاگر کرکے ملک کی ماؤں کی توجہ اس طرف ضرور دلائیں گے۔اللہ آپ کو خوش رکھے اور اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ''کی دعا سے اجازت لیتی ہوں۔

میری بہن! اللہ تعالیٰ آپ کودونوں جہانوں کی نعمتوں سے سرفرازفرمائے،میرا مالک آپ کو سدا خوش رکھے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کا بھی محتاج نہ بنائے اور آپ کا ہاتھ تھامے رکھے ۔میری اللہ سے دعا ہے کہ ان کوربصری قلمکاروں کو بھی حقیقت کاادراک ہوجائے تاکہ ہم آخرت کی نجات کا کوئی تووسیلہ اپنے دامن میں بچا کر رکھ سکیں۔ثم آمین!کچھ بھی تو نہیں رہے گا،بس نام رہے گا میرے رب کا جو الحیی القیوم ہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390103 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.