لاہور واقعہ، تحمل و برداشت کی ضرورت
(Faisal Azfar Alvi, Islamabad)
گزشتہ اتوار کے دن لاہور شہر کی
مسیحی برادری کے چرچ پر ہونے والے خود کش دھماکوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے
کم ہے، پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست ہے جس کا آئین ملک میں بسنے والی
تمام اقلیتوں خواہ وہ ہندو ہوں، عیسائی ہوں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے
ہوں انہیں وہ تمام حقوق فراہم کرتا ہے جو کہ مسلمان شہریوں کیلئے ہیں، آئین
پاکستان کے مطابق ہر اقلیتی برادری پاکستان کا حصہ ہے اور ہم رنگ، نسل اور
مذہب کو چھوڑ کر سب سے پہلے پاکستانی ہیں، لاہور میں چرچ پر ہونے والے
حالیہ خود کش دھماکوں سے مسیحی برادری کی جو قیمتی جانیں ضائع ہوئیں وہ
انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے جس کی مذمت حکومت پاکستان کے کلیدی
عہدیداروں سمیت تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے واشگاف
الفاظ میں کی، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لاہور میں چرچ پر ہونے والے خود
کش دھماکوں کے پیچھے یقینی طور پر ایسے عناصر کا ہاتھ موجود ہے جو ملک کو
ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اور بد امنی اور انتشار سے آپس کی آگ کو
بھڑکانا چاہتے ہیں اور ایسے عناصرکا ہدف لاہور واقعے کے بعد کے رد عمل کو
دیکھتے ہوئے سو فیصد کامیاب نظر آ رہا ہے، لاہور واقعے کے بعد مسیحی برادری
کا احتجاج ان کا فطری رد عمل ہے اور ان کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حقوق
کیلئے آواز اٹھائیں لیکن جس طرح شہر لاہور اور اس کے بعد پورے ملک میں
مسیحی برادری کی جانب سے جو پر تشدد احتجاج دیکھنے میں آیا ہے وہ انتہائی
قابل افسوس ہے، چرچ دھماکوں میں جاں بحق ہونے والے مسیحی بھائیوں کیلئے
آواز اٹھانے میں پوری پاکستانی قوم مسیحی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے
لیکن احتجاج کو پر تشدد بنانے سے صورتحال مزید گھمبیر ہو گئی ہے جس کا پوری
قوم کو افسوس ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی لاہور واقعے کے بعد مشتعل مسیحی
مظاہرین کی جانب سے دو افراد کوصرف مشکوک ہونے کی بنیاد پر زندہ جلایا جانا
ہے جو کہ ایک قابل افسوس اور قابل مذمت عمل ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں
لینے کے مترادف ہے۔
پوری قوم جانتی ہے کہ پاکستان مسلسل ایک دہائی سے دہشت گردی کے عفریت میں
جکڑا ہوا ہے جس کا نشانہ زیادہ تر مسلمان مرد، عورتیں، بوڑھے بچے بنتے رہے
ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی مساجد، امام بارگاہوں اور سکولوں پر حملوں کی صورت
میں وقتاََ فوقتاََ جاری ہے، ایسے حالات میں جب تمام مذاہب سے تعلق رکھنے
والے افراد دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہوں تو ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے
دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ جانا چاہئے بجائے اس کے کہ ہم آپس میں دست و گریباں
ہوں اور مذہبی منافرت پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں، موصولہ اطلاعات کے
مطابق مشتعل مسیحی مظاہرین کے جانب سے دو مسلمان افراد کو زندہ جلائے جانی
کی اطلاع ملتے ہی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی احتجاجی مطاہرے کیلئے
سڑکوں پر آ گئی جس کے نتیجے میں مختلف جگہوں پر مسیحی اور مسلمان برادری
میں ہاتھا پائی کے واقعات کی بھی رپورٹس سننے کو ملی ہیں، ذرا سوچئے کہ اگر
اسی طرح ہم بین المذاہب ہم ٓہنگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آپس میں دست و
گریباں ہوتے رہیں گے تو اس کا فائدہ کون اٹھائے گا؟؟؟ یقینی طور پر ایسے
حالات کا فائدہ ملک دشمن عناصر اٹھائیں گے جو اب تک اپنے مقاصد میں مکمل
کامیاب نظر آ رہے ہیں اور جب تک ہم آپس میں دست و گریباں ہوتے رہیں گے تو
وہ دہشت گرد جن کا تعلق کسی مذہب سے نہیں وہ ہمیں آپس میں لڑواتے ہوئے
مارتے رہیں گے اور ہم مرتے رہیں گے۔
اپنے حقوق کیلئے پر امن احتجاج کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے چاہے وہ کسی بھی
مذہب سے تعلق رکھتا ہولیکن پر تشدد احتجاجی مظاہرے، سرکاری املاک اور نجی
املاک کو نقصان پہنچانا، توڑ پھوڑ ان سب کی اجازت قانون کسی صورت نہیں دیتا
چاہے احتجاج کرنے والے مسلمان ہوں یا عیسائی ہوں، مشکوک افراد کا تعین کرنا
قانون نافذ کرنے والوں کا کام ہے اور انہیں جرم ثابت ہونے پر سزا دینا
عدلیہ کا کام نہ کہ مظاہرین قانون اپنے ہاتھ میں لیکر از خود یہ فیصلہ کر
لیں کہ کون مشکوک ہے اور اس فیصلے کی بنیاد پر اسے سزا بھی دیں، دنیا کا
کوئی قانون احتجاج کے دوران ایسے کسی بھی عمل کی اجازت نہیں دیتا، ، حالیہ
واقعے کے بعد مسیحی برادری کے پر تشدد احتجاج کی مذمت بشپ آف لاہور نے بھی
کی ہے جبکہ پر تشدد احتجاج کے نتیجے میں اب تک 60 سے زائد افراد زخمی ہو
چکے ہیں اور لاہور کے حالات اس قدر خراب ہو چکے ہیں کہ مطاہرین کو سنبھالنے
کیلئے انتظامیہ کو رینجرز طلب کرنے پڑے، اگر ہم نے عقل کے ناخن نہ لئے اور
اسی طرح آپس میں جھگڑتے رہے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچاتے رہے
تو ہمارا خدا ہی حافظ ہے اور ہم ملک دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے ہاتھوں
کا کھلونا بنتے ہی رہیں گے، ضرورت اس امر کی ہے ایسے اندوہناک واقعات کے
بعد صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے عملی طور پر برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے
ہمیں انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کرنا چاہئے اور احتجاج ضرور کیا جائے
لیکن پر امن طریقے سے جس میں سرکاری و نجی املاک کو ہرگز نشانہ نہ بنایا
جائے، حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ جتنا جلد ممکن ہو سکے سانحہ
لاہور کے ذمہ داران کا تعین کرتے ہوئے انہیں عبرتناک سزا دے اور اس کے ساتھ
ساتھ دو افراد کو زندہ جلائے جانے کے واقعے کی مکمل تحقیقات کرتے ہوئے اس
میں ملوث شر پسند عناصر کو بھی کڑی سزا دے جو ملک کا امن و سکون برباد کرنے
پر تلے ہوئے ہیں اور پاکستانی میڈیا کو چاہئے کہ وہ اس وقت بین المذاہب ہم
آہنگی کیلئے اپنا کردار ادا کرے اور غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی رپورٹس
پیش کرے ، میڈیا کی بریکنگ نیوز کے چکر میں حالات مزید گھمبیر صورتحال
اختیار کر سکتے ہیں جس کیلئے میڈیا کو ہوش کے ناخن لینے ضرورت ہے، پوری
پاکستانی قوم کی ہمدردیاں اس وقت مسیحی برادری اور زندہ جلائے جانے والے
افراد کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہیں ایسے حالات میں ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل
کر چلنا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جیتنا ہے جس کیلئے بین المذاہب ہم
آہنگی اولین شرط ہے جس کیلئے ہم سب کو اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا
کرنا ہوگا بصورت ِ دیگر انجام موجودہ حالات سے مختلف نہ ہوگا۔ |
|