گلگت بلتستان: ٹیکس کا نفاذ ' پیکج کے ثمرات کا نتیجہ
(Qazi Nisar Ahmad, Gilgit)
بسم اللہ الرحمن الرحی
گلگت بلتستان میں لگائی جانے والی ٹیکس کے بارے میں بھی چند معروضات پیش
کرنے ہیں۔ٹیکس کے نفاذ کے حوالے بھی نام نہاد گلگت اسمبلی اور جی بی کونسل
میں اتفاق اور یکجہتی نہیں ہے۔ کونسل میں بھی چند لوگ ٹیکس کے نفاذ پر شدت
سے مخالفت کرتے ہیں۔ ایک طرف یہ لوگ صوبے کا راگ الاپ رہے ہیںاور ساتھ ہی
ٹیکس کی مخالف بھی کرتے ہیں۔ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر موجودہ پیکج یعنی
سلف اینڈ گورننس آرڈر برائے2009 ء اگر عوامی مفاد میں ہے اور آئینی صوبے کے
لیے پیش رفت ہے تو ٹیکس دینے میں کیا حرج ہے۔ ان کوتاہ فہموں کو یہ سمجھ ہی
نہیں آتی کہ ہم باقاعدہ پاکستان کا حصہ نہیں ہیں۔ صوبے بنانے کے لیے قومی
اسمبلی میں بھاری اکثریت سے قراد پاس کرنی ہوگی اور آئین میں باقاعدہ ترمیم
ہوگی جو سرد ست ناممکن نہیں محال بھی ہے۔حکومت کا ایک اہم وزیر' صوبائی
وزیر پلاننگ اینڈ منصوبہ بندی جناب راجہ اعظیم کا بیان ہے کہ '' ٹیکس عوام
کا معاشی قتل ہے، ہرگز برداشت نہیں کرریں گے۔ وفاق پہلے صوبے کی آئینی
حیثیت تعین کرے'' سابق مشیر جناب وزیر عبادت کہتے ہیں کہ آئینی صوبے سے
پہلے ٹیکس نہیں دیں گے''۔ا گر ٹیکس لگانا ہی ہے تو گلگت بلتستان کو الگ
صوبہ بنایا جائے یا ریاست''۔روزنامہ صدائے گلگت 4 فروری 2013)۔اس طرح کی بے
شمار باتیں اخبارات کی زینت بنتی ہیں ۔ ایک طرف سے یہ لوگ پیکج کی آڑ میں
عوام الناس کا معاشی'اقتصادی'مذہبی اور سیاسی قتل عام کرنے پر مصر ہیں
دوسرے طرف اسی پیکج اور پیکج کی عطا کردہ نام نہاد کونسل کے فرامین کی بھر
مخالفت کرتے ہیں۔ ان کی یہ دوغلی پالیسی گزشتہ چار سالوں سے مختلف شکلوں
میں جاری ہے۔ ہم پہلے ہی دن سے بارہا کہہ چکے ہیں کہ سلف امپاورمنٹ اینڈ
گورننس آرڈر برائے2009 ء عوام دشمن پیکج ہے۔ اس پیکج کے آنے سے کرپشن آیا
ہے۔لڑائی جھگڑے آئے ہیں۔قتل وغارت میں اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری محکموں میں
رشوت اور سفارش و اقرباء پروری کا کلچر مزید اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ غریب
عوام مزید غریب ہوئے ہیں۔ تمام سرکاری ملازمین مختلف النوع مسائل و مشکلات
کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس پیکج کی برکت سے غریب عوام اور سرکاری ملازمین کو
ٹیکس جیسا تحفہ دیا گیا ہے۔ہمارا سوال صرف اتنا سا ہے کہ ان لوگوں سے صرف
ایک دفعہ پوچھا جائے جن پر ٹیکس لگا ہے کہ کیا آپ موجودہ سلف امپاورمنٹ
اینڈ گورننس آرڈر سے خوش ہیں ' تو وہ ہزار دفعہ اس سے بیزاری کا اظہار کریں
گے۔عالمی مسلمہ ضابطہ ہے کہ آئینی حقوق کے بغیر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا ہے۔
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ نصرة الاسلام کے شمارہ نمبر ٥،٦، 2013کے لیے بطور
اداریہ لکھا گیا ہے۔ قاضی |
|