حکومتِ ہند نےحال میں مالدیپ کے
صدر محمد نشید کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ۔محمد نشید نے ۲۰۱۲ میں
عوامی مظاہروں کے پیش نظر استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے ایک سال بعد ہونے
والے انتخابات ہارگئے تھے۔اب ان پر دہشت گردی کا الزام ہے اور عدالت کا
خیال ہے کہ وہ اس دوران ملک سے فرار ہو سکتے ہیں اس لئے حراست میں لینے کا
حکم دیا گیا۔ ایک طرف تو حکومتِ ہند مالدیپ کےسابق صدر کی گرفتاری سے
پریشان ہے لیکن دوسری جانب وہ خود اپنے سابق وزیراعظم کو کوئلہ گھوٹالہ میں
رسوا کرنے میں جٹی ہوئی ہے اور انہیں سی بی آئی عدالت نے ملزم نمبر ۶ کی
حیثیت سے بہ نفس نفیس حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ اس خبر سے سیاسی حلقوں میں
ایک زلزلہ برپا ہوگیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ منموہن سنگھ کی حکومت کا زمانہ زبردست بدعنوانیوں کے سبب
یاد رکھا جائیگا۔ یہ ایک ایسے دور کے گھوٹالے ہیں کہ جب نوین جندل جیسے
صنعتکار کہتا ہے’’ ہم سے وصول کیا جانے والے سیاسی چندے کا ایک فیصد پارٹی
فنڈ اور۹۹ فیصد سیاستداں کی جیب میں چلا جاتا ہے‘‘۔ اس کے باوجودمنموہن
سنگھ کابڑے سے بڑا دشمن یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا ہے کہ انہوں نے اس کے
ذریعہ اپنی ذات کیلئے دولت و ثروت کا سامان کیا ہے۔ان پر یہ الزام ضرور
بنتا ہے کہ وہ بدعنوانی کو روکنے میں ناکام رہےلیکن سپریم کورٹ نے انتولے
سیمنٹ معاملے میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ جب تک ایسے شواہد نہیں مل جاتے کہ
کسی سیاستداں نے ذاتی طور سے بدعنوانی کا فائدہ اٹھایا اسے سزا نہیں دی
جاسکتی ۔ اس کے باوجود منموہن کو پریشان کرنا بدلے کی کارروائی سے زیادہ
کچھ نہیں ہے۔ اس کا ذکر وزیراعظم نے اپنی ایک تقریر میں کیا تھا کہ مجھے
پتہ ہے گرفتاری کے خوف میں کیسے جیا جاتا ہے؟میں طویل عرصہ اس دورسے گذر
چکا ہوں اور اب ایسا لگتا ہے وہ اس کا بدلہ لے رہے ہیں ۔ یہ ستم ظریفی ہے
کہ کانگریس کوحزب اختلاف کے طور پر عوامی مظاہرے کا پہلا کڑا رخ بدعنوانی
کی حمایت میںاختیار کرنا پڑا ۔
منموہن سنگھ کے ساتھ جو سلوک مرکزی حکومت کررہی ہےو ہی معاملہ اروند
کیجریوال اور ان کے ساتھیوں کوبھی درپیش ہے۔ اروند کو اپنے نائب منیش اور
ساتھی یوگیندر یادو کے ساتھ عدالت میں حاضر ہونے کیلئے پھٹکار حال میں سننی
پڑتی ہے۔ جج صاحب کے مطابق ان لوگوں کی نظر میں قانون کا کوئی احترام نہیں
ہے۔وہ جج حضرات جومجرموں اور قاتلوں کو آئے دن کلین چٹ دینے سے نہیں تھکتے
ان کی زبان سے یہ جملہ کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ویسے اس عدالتی سختی کا ایک
فائدہ تو یہ ہوا کہ یادو اور کیجریوال جو ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں
بھاتے عدالت میں سسودیہ کے ساتھ ایک قطار میں کھڑے نظر آئے۔ یہسب ایسے دور
میں ہورہا ہے جبکہ سنگھ پریوار والوں کے بیانات سے خود بی جے پی پریشان ہے
۔ ان کے بیانات اس قدر بیہودہ ہیں کہ ان کو پڑھ کر شرم آتی ہے اور ان اوٹ
پٹانگ بیانات کے سبب ملک و قوم کا نام ساری دنیا میں بدنام ہو رہا ہے ۔ اس
کے باوجود ان پر کوئی لگام کسنے والا نہیں ہے۔ اسی کو کہتے ہیں اندھی نگری
چوپٹ راج بقول مولانا رومی؎
اہل دل کے لئے یہ نظم بست وکشاد
کہ سنگ وخشت مقید ہیں اور سگ آزاد
قومی سیاست میں بدلے کی کارروائی نئی نہیں ہے۔ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی
لگا کر اپنے سارے مخالفین کو ایک ساتھ جیل بھیج دیا تھا اس کی انہیں بھاری
قیمت چکانی پڑی۔ جنتا پارٹی نے اندرا گاندھی کو گرفتار کیا آگے چل کر اس
کا سیاسی فائدہ کانگریس کو ہوا۔ اٹل جی نے نرسمھا راؤ کو یوریا بدعنوانی
کے معاملے میں عدالت میں کھینچا اس کا نقصان بی جے پی کو ہوا۔ سیاسی داوں
پیچ سے علی الرغم اہم سوال یہ ہے کہ مسٹر کلین کہلانے والے راجیو گاندھی
اور منموہن سنگھ کو آخر بدعنوانی کے سبب کیوں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔یہ
دونوں بظاہرغیر سیاسی رہنما کرپشن کے دلدل میں کیسے جا دھنسے؟ ان کو
بدعنوان بنانے کا سہرہ کس کے سر جاتا ہے؟ اس سوال کا نہایت سہل اور سیدھا
جواب ’’موجودہ سیکولرجمہوری نظام ‘‘ہے کہ اس کی انتخابی دلالی میں اچھے
اچھے سفید پوش لوگوں کے ہاتھ تو کجا منہ بھی کالا ہوجاتاہے ۔ اس صورت حال
میں انور مسعود کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
ریل گاڑی اور الیکشن میں ہےاک شے مشترک
لوگ بے ٹکٹےکئی اس میں بھی ہیں اُس میں بھی ہیں
اس خوشنما نظامِ سیاست کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ محکوم عوام بڑے ارمانوں سے
جس صاف ستھری شبیہ کے رہنما کو اقتدار کی کرسی پر فائز کرتے ہیں ایک قلیل
عرصے کےاندر اس کا دامن داغدار ہوجاتا ہے اور اس کی بدعنوانی سے تنگ آکر
عوام کواقتدار کی زمام کار اس سے چھین لینے پر مجبور ہوجانا پڑتا ہے ۔
رہنما اپنی صلاحیت یا صالحیت سے اس پر اثر انداز نہیں ہو پاتے بلکہ یہ نظام
بڑی آسانی سے حکمرانوں کو اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے ۔فیالحال بدعنوانی کے
خلافدھرم یدھ چھیڑنے والا اروند کیجریوال بڑی تیزی کے ساتھ اس مکافاتِ عمل
کا شکار ہے۔ کیا یہ بات حیرت انگیز نہیں ہے کہ جس جماعت کی شفافیت کایہ
عالم تھا کہ اس کا بہی کھاتہ ویب سائٹ پر رکھا جاتا ہےآج یہ حال ہو گیا ہے
کہ الیکشن کمیشن کواسے پچھلے سال ہونے والے قومی انتخابات کا حساب پیش کرنے
کیلئے دو مرتبہ نوٹس دینے کے بعد تیسری مرتبہ دھمکی دینی پڑتی ہے کہ ۲۰
دنوں کے اندر اگر وہ اس کام کو نہیں کرسکی تو اس کا نشان یعنی جھاڑو اس سے
چھین لیا جائیگا۔ یہ بات قابل شرم ہے کہ۹۰ دن کے اندر جس کام کوکرنا تھا
اور زیادہ تر سیاسی جماعتیں اسے کر چکی ہیں ’’عآپ‘‘ ۱۱ ماہ بعد بھی نہیں
کرسکی۔
سیاست کی عمارت تین ستونوں پر قائم ہوتی ہے گویا ان اجزائے ترکیبی کے بغیر
اس کا تصور محال ہے۔ ان میں سے ایک محکوم ہے دوسرا حاکم اور تیسراا ن کے
باہمی تعلق کو متعین کرنے والا سیاسی نظام مثلاًجمہوریت، آمریت یا ملوکیت
وغیرہ۔ انسانی فطرت بلاوجہ کسی کی حکمرانی قبول نہیں کرتی سیاسی نظام حاکم
کیلئے وجۂ جواز فراہم کرتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں کو متعین کرکے اسےاصول و
ضوابط کا پابند بناتا ہے اور محکوم کے حقوق کا تحفظ کرتاہے۔ بدقسمتی سے
ہندوستان میں انتخابات کو سیاست کی اصل سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اس کے
ذریعہ آنے تبدیلیوں سےچند مظاہر بدلتے ہیں۔ چونکہ بنیادی سیاسی ڈھانچے
انتخابی عمل اثر انداز نہیں ہوتا اس لئے کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔
گویا پتوں کی تراش خراش تو ہوجاتی ہے لیکن جڑ کے خصائل جوں کے توں قائم و
دائم رہتے ہیں۔ ظاہری سر سبزی و شادابی فطرتا ًامید وں اور توقعات کو جنم
دیتی ہیں لیکن جڑ کا زہر بہت جلد حزن و یاس بن کر نس نس میں پھیل جاتاہے۔
جمہوری نظام سیاست میں بھی محکوم عوام کو سیاسی اعتبار سے دو طبقات میں
تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک بے شعور اور بے عمل(سیاسی) عوام کا جم غفیر اور
دوسرا مختصر سا باشعورطبقہ جوسیاسی میدان میں مستقل مزاجی کے ساتھ سرگرم
عملرہتا ہے۔ مؤخر الذکر عوامی اقلیت عام طور پر کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے
جڑی ہوتی ہے ۔ ان کی غالب اکثریت ابن الوقتی اور مفادپرستی کی بنیاد پر
سیاسی جماعت سے منسلک ہو جاتی ہے اور ایک ننھی سی بے لوث اقلیتاصول و نظریہ
کی بنیاد پر وابستگی اختیارکرتی ہے۔ اس طرح گویا عملی سیاست میں حصہ لینے
والے بے لوث لوگوں کا تناسب نہایت قلیل اور ناقابلِ ذکرہوتا ہے۔ وقتی جوش
میں سوڈا واٹر کی مانند نکل کھڑے ہونے والے اور پھر بہت جلد مایوسی کا شکار
ہوکر اپنا راستہ بدل دینے والوں کو سنجیدہ سیاسی کارکن نہیں کہا جاسکتا
لیکن یہی غیر سنجیدہ عوامی ریلہ کبھی غریبی ہٹاو کے نعرے سے متاثر ہو کر تو
کبھی بدعنوانی کے خاتمہ کی خاطر ہوا کے رخ کو وقتی طور پر تبدیل کرنے میں
کامیاب ہو جاتاہے جسے سیاسی زبان میں انتخابی لہر کا نام دیا جاتا ہے۔
چونکہ تبدیلی لانے والے خود سنجیدہ نہیں ہوتے اور خود ان کے اپنے اندر کوئی
تبدیلی واقع نہیں ہوتی اس لئےان کے ذریعہ کوئی بڑا انقلاب برپا نہیں ہوتا۔
نظام باطل نے فی زمانہ حکمرانوں کی سہولت کے لحاظ سے کئی برانڈ رائج کررکھے
ہیں مثلاًً ملوکیت، آمریت یا جمہوریت ۔ ان سب میں حکمراں کے اقتدار میں
آنے کا جواز اور طریقۂ کار مختلف ضرور ہوتا ہے لیکن اقتدار کی باگ ڈور
سنبھال لینے کے بعد ان کی نفسیات اور رویہ یکساں ہوتا ہے۔جب ایک عام آدمی
ممبئی میں شیوسینا کے پوسٹر پر بالاصاحب ٹھاکرے کے ساتھ ادھو ٹھاکرے اور ان
کے بیٹے ادیتہ ٹھاکرے کی تصویر دیکھتا ہے تو اسے بے ساختہ ملک عبدالعزیز،
ملک سلیمان اور ولیعہد مقرن کی تصاویر یاد آجاتی ہیں۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ
کانگریس کے کارکنان کو صرف اور صرف پرینکا کے اندر اپنے خوابوں کی تعبیر
نظر آتی ہے تو اسے امریکہ کی ری پبلکن پارٹی یاد آجاتی ہے جسے بل کلنٹن
کے مقابلے جارج بش کے بیٹے جارج ڈبلیو بش کے علاوہ کوئی لائق و فائق
امیدوار نظر نہیں آیا اور اس ناہنجار پر امریکیوں نے دومرتبہ اپنے اعتماد
کا اظہار کیا۔ مودی کا وزیر اعلیٰ سے وزیراعظم بن جانا ویسا ہی ہے جیسے
پوتن کا وزیراعظم سے صدر بن جانا۔ جسے خود آرایس ایس بھی (TINA)یعنیمتبادل
کی عدم موجودگی سے تعبیر کرتی ہے۔
حکمرانوں کےا مزاج میں بھی بلا کی یکسانیت پائی جاتی ہے ایک امیر وکیل کا
بیٹا جبغریب ملک کا وزیراعظم بنتا ہو تو اپنے کپڑے دھلنے کیلئے پیرس
بھجواتا ہے وہیں ایک چائے والاجب وزیراعظم کی کرسی سنبھالتا ہے تو برطانیہ
سے اپنے کپڑے سلا کر منگواتا ہے۔ اقتدار وارثت میں ملے یا انتخابات سے عوام
کی پسند کوببانگ دہل پامال کیا جاتا ہے ورنہ کیا وجہ ہے ۳۰۰ منتخب ارکان کو
درکنار کرکے مودی جی حکومت کی اہم ترین ذمہ داریاں یعنی وزارت دفاع، وزارتِ
خزانہ، وزارت ریلوے اور انسانی وسائل کے قلمدان ان کو تھما دیتے ہیں جن کو
عام نے یا تو مسترد کردیا یا منتخب ہی نہیں کیا۔ اقتدار پر اپنی پکڑ کو
مضبوط کرنے کیلئے جس طرح ملک سلمان مختلف اہم عہدوں پر اپنے وفاداروں کو
فائز کرتے ہیں اسی طرح مودی جی پارٹی کے اہل تر لوگوں کو درکنار کرکے اپنے
مرید خاص شاہ جی کو پارٹی کا صدر بنادیتے ہیں۔ اگر شاہ جی کو وہ انعام
اترپردیش کے انتخابات میں کامیابی کیلئے دیا گیا تھا تو دہلی کی ناکامی کے
بعد اس سے محروم کردیا جانا چاہئے تھا لیکن جب تک مودی جی برسرِ اقتدار ہیں
اوروہ مودی جی کی وفاداری ہیں،ان کا بال بیکا نہیں ہوگا ۔ جس دن شاہ جی کی
وفاداری مشکوک ہوجائیگی یا مودی جی کا قتدار ختم ہوجائیگا انہیں بھی اڈوانی
جی کی مانند سیاسی کوڑے دان کی نذر کردیا جائیگا۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور
رہنماوں کے منفرد طرز زندگی کے سبب حکمرانوں کے رویہ سے چند نمائشی
تبدیلیوں کے باوجودہر کوئی اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتا ہے اور وہ اس بابت
جائز و ناجائز یا حلال وحرام کا مطلق پاس و لحاظ نہیں کرتا۔
حاکم ومحکوم چونکہ اپنا طبعی وجود رکھتے ہیں اس لئے ان کی پرکھ نسبتاً
آسان ہے لیکن نظام ایک غیر مرئی شہ ہے اس لئے اس کا ادراک خاصہ پیچیدہ ہے۔
نظام کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنا یا پروان چڑھا سہل تر ہے۔ مثلاً
جمہوریت میں اکثریت کی حکومت ہوتی ہے۔ اگر اقتدار کے دوسے زیادہ طاقتور
دعویدار ہوں تو شاذو نادر ہی اکثریت کی حکومت ہوتی ہےووٹوں کی تقسیم کے سبب
اکثر اقلیت کا اقتدار پر قبضہ ہوتا ہے جیسا کہ مرکز میں ہے۔جمہوری نظام کی
تمام ترنام نہاد خوبیوں کے باجود کنگ اور کنگ میکر یعنی شاہ گدا کی تفریق
موجود ہے۔اقلیت زیادہ سے کنگ میکر بن سکتی ہے کنگ نہیں بن سکتی۔ یہ ایک تلخ
حقیقت ہےکہ اس ظالمانہ طرز سیاست میں عوام اپنی محکومیت کا جشن مناتے ہیں
وہ دوسروں کے سر پر اقتدار کا تاج رکھ اپنا دل بہلاتے ہیں لیکن گہرائی میں
جاکر اس استحصالی نظام استحصال کو کھنگالنے اور ٹٹولنے کی سعی نہیں کرتے
بقول شاعر؎
ووٹوں سے کہ نوٹوں سے کہ لوٹوں سے بنے ہیں
یہ راز ہیں ایسے جنھیں کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
اندر کی جو باتیں ہیں ٹٹولا نہیں کرتے
انتخابات کے حوالے سے فی زمانہ بہت ساری غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔مختلف
قسم کے انتخابات ہر سیاسی نظام میں منعقد ہوتے ہیں لیکن جمہوری نظام میں
چونکہ اس کی بنیاد پر حکومت چلانے والے ہاتھ بدل جاتے ہیں اس لئے بجا طور
یہاں اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ انتخابات اس لحاظ سے نعمت ہیں کہ اس کے
ذریعہ عوام اندرا یا مودی جیسے ظالم حکمرانوں سے اپنا پیچھا چھڑا سکتے ہیں
لیکن اس میں شک نہیں کہ یہی نظام ان لوگوں کو اقتدار پر فائز بھی کرتا ہے ۔
اس لحاظ سے اگر یہ زحمت نہ سہی تو کم از کم رحمت بھی نہیں ہے۔ عام لوگ
انتخابی عمل کو ہی کل سیاسی نظام سمجھ لیتے ہیں حالانکہ یہ سیاسی نظام کا
ایک معمولی کل پرزہ ہے۔ اس کی مثال پریشر کوکر میں لگی سیٹی کی سی ہے جس کا
شور تو خوب سنائی دیتا ہے لیکن رول بہت مختصر و محدودہوتا ہے۔ پریشر کوکر
کے اندر اقتدار کی کھچڑی پکتی ہے جو سیاستداں پکاتے ہیں ۔ اگر اس میں دال
چاول نہ ڈالا جائے تو بیچاری سیٹی کیا کرے۔ یہ دال نہیں گلتی جب تک کے عوام
اپنا خون نہ جلائیں۔ ایندھن کے بغیر سیٹی کی کوک نہیں نکل سکتی۔ جمہوری
نظام کو ایندھن محکوم فراہم کرتا ہے اور بریانی حکمراں کھاتے ہیں کچھ ہڈیاں
عوام کے سامنے ڈال کران پراحسان جتایا جاتا ہے۔
بنیادی طورپرسیٹی کے دوکام ہوتے ہیں ایک تو پریشر کو ریلیز کردینا۔ انتخابی
عمل سے یہ ہوتا ہےکہ ظالم و بدعنوان حکمرانوں کے خلاف عوامی غم و غصہ کا
دباؤ کافور ہوجاتا اور یہ استحصالی نظام ایک نئے استبداد کے ساتھ اپنا
سفرجاری رکھتا ہے۔ ہندوستان میں منفی ووٹنگ عام سی بات ہے تمل ناڈو اور
کیرالہ جیسی ریاستوں میں ہر پانچ سال بعد حکمران کا بدل دیا جانا اس طرز
عمل کا ترجمان ہے۔ سیٹی کے بجنے سے یہ اعلان بھی ہو جاتا ہے کہ اب کھانا پک
چکا ہے اس لئے عوام کو مزید ایندھن فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے
اپنا فرض منصبی ادا کردیا اب وہ پانچ سال آرام سے انتظار کریں اگر مظالم و
استحصال قابل برداشت ہوں تواقتدار ِوقت کومزید موقع عنایت فرمائیں اور اگر
ناگزیر ہوجائے تو اقتدار کی باگ ڈورموجودہ حکمراں سے چھین کر کسی اور کے
حوالےکردیں۔
کانگریس کو سبق سکھانے کیلئے بی جے پی کو لائیں یا بی جے پی کو عام آدمی
پارٹی کے ذریعہ سبق سکھائیں۔ اس معاملے میں دوسروں کو سبق سکھانے والے کبھی
خود کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ وہ اس بات کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہر بار
آسمان کو چھونے والی اصلاح کی لہر ان کے ہاتھ میں سبق سکھانے کی چھڑی تھما
کرجھاگ کی مانند کہاں غائب ہو جاتی ہے؟عوام مسلسل ایک سراب کے پیچھے بھاگتے
رہتےہیں۔ دور سے پانی کا عکس دیکھ کر خوش ہوجاتے ہیں اور جب پانی کے بجائے
پیاس سے سابقہ پیش آتا ہے تو کسی نئے فریب میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ وہ
حکمرانوں کو بدلنا چاہتے ہیں لیکن خود اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے۔ وہ
دوسروں کو سبق سکھاتے ہیں لیکن خود کوئی سبق نہیں سیکھتے ۔ایسے بھولے بھالے
لوگوں کیلئے انور مسعود کے پاس بہت قیمتی مشورہ ہے ؎
اپنی جمہوری ترقی کا قصیدہ پڑھ ضرور
لیکن اس کے بعد باقی عمر استغفار پڑھ
انتخابی نتائجسے عوام اگر کوئی ٹھوس سبق سیکھنا چاہتے ہیں تو یہ ہے کہ
پہلےوہ اپنے آپ کو بدلیں اور پھر اس کے بعد اس ملک میں رائج نظام سیاست کو
تبدیل کریں۔ جب تک لوگ اس جمہوری گورکھ دھندے سے نہیں نکلیں گے اس وقت تک
ان کے دامن میں دہلی کی مانندوقتی راحت اور دائمی زحمت آتی جاتی رہے گی
لیکن جب وہ خود بدل جائیں گے اور پھر نظام کو تبدیل کردیں گے تو حکمراں
اپنے آپ بدل جائیں گے۔معبود حقیقی کا باغی یہ خدا فراموش نظام سیاست کوئلے
کی ایسی دلالی ہے جواس میں ملوث سارے لوگوں کے منہ کالا کردیتی ہے ۔ یہ ہر
کیجریوال کو بدلنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس لئے کیجریوال جی لاکھ
بنگلور جائیں لیکن جب واپس آکر اس نظام کا حصہ بنیں گے تو پھر اپنی فطرت
سے انحراف کرنے کیلئے مجبور ہوجائیں گے اور اپنی جماعت کو بدعنوانی سے پاک
کرنے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھانے والے یوگیندر اور بھوشن کوپارٹی سے
نکال باہر کرنے کی سعی کریں گے ۔ اس نظام باطل کونظام حق سے بدلے بغیر محض
افراد کو بدل کسی عظیم تبدیلی کی توقع کرنا عظیم ترین خام خیالی ہے۔ |