یوحناآباد میں درندگی اور شرمندگی

پاکستان میں ڈیڑھ دہائی سے دہشت گرد دندناتے اورخون کی ہولی کھیلتے پھررہے ہیں اور تقریباً پچاس ہزار پاکستانیوں کو شہیدکردیا گیا مگر اس کے باوجود مادروطن کے نڈرعوام کسی بھی مرحلے پر زندگی اوراپنے مستقل سے مایوس نہیں ہوئے وہ خودکش حملے اوربم دھماکے والے مقام پرفوراً امدادی سرگرمیوں میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کوخون کے عطیات دینے ہسپتال چلے جاتے ہیں۔آپریشن ضرب عضب کی کامیاب پیشرفت کے بعددہشت گردمزیدبزدلی پراترآئے ہیں اورانہوں نے بچوں کو نشانہ بناناشروع کردیا۔مسلسل قربانیوں کے باوجودپاکستانیوں کو انصاف کے ایوانوں اوراپنے محافظ جوانوں کی قابلیت اورکمٹمنٹ پربھرپوراعتماد ہے۔دہشت گردوں نے ہرقسم کے ہتھکنڈے آزمائے مگروہ پاکستانیوں کودہشت زدہ اورتقسیم کرنے میں ناکام رہے۔پاکستان میں زندگی کبھی نہیں رکی ،لوگ کبھی ڈراورسہم کراپنے گھروں میں نہیں بیٹھے ۔اپنے پیاروں کی شہادتوں پرغم وغصہ فطری ہے مگرآئے روز شہادتوں اوراندوہنا ک سانحوں کے باوجودکسی شہر میں توڑپھوڑیاجلاؤگھیراؤنہیں ہوا،احتجاجی مظاہرین نے کسی بیگناہ کوتشددکانشانہ نہیں بنایا ۔حضرت علی ہجویری ـؒ کے مزارسمیت مقدس مزارات ،مساجد،مدارس اورامام بارگاہوں ،جی ایچ کیوسمیت فوجی قافلوں اورپولیس کے تربیتی مراکز پرخود کش حملے ہوئے ۔ ان حملوں کے نتیجہ میں ہرعمر کے مسلمان مردوخواتین اورمعصوم بچوں نے جام شہادت نوش کیا اورخاص طورپر پشاور کے آرمی سکول میں پھول سے بچوں کوجس وحشت کے ساتھ مسل دیا گیا،پشاور کے ہر گھر سے کسی نہ کسی معصوم شہید جنازہ اٹھامگر عوام نے صبروتحمل کادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔دہشت گردوں کادیرینہ مقصد تھا ہمارے درمیان نفرت اورنفاق کی فصل کاشت کرنااورپھراس آگ پرپٹرول چھڑکنا جویوحناآبادسانحہ کی صورت میں پوراہوگیا۔دہشت گردپاکستان ،پاکستانیوں اورانسانیت کے دشمن ہیں ،ان کے نزدیک مسلمانوں یامسیحیوں میں کوئی فرق نہیں ۔یوحناآبادمیں دوگرجاگھروں پرخود کش حملے درحقیقت پاکستان کی سا لمیت اورقومی وحدت پرحملے تھے ۔دہشت گردوں نے اس اتحادویکجہتی پرکاری ضرب لگائی جو بحیثیت ریاست اورقوم ہماری بقاء کیلئے بیحدضروری ہے مگربدقسمتی سے مسیحی عوام نے اپنے آپ کومسلمانوں سے الگ کھڑاکرلیا ۔اگرنفاق اورنفرت کی فصل فصیل بن گئی تویہ دہشت گردوں کی جیت ہوگی اوراس کاجشن بھارت میں منایا جائے گا ۔

سانحہ یوحناآبادرونماہونے سے مسیحی رنجیدہ ہیں مگر انہوں نے احتجاج کی آڑمیں جوکچھ کیا وہ انتہائی ناپسندیدہ ہے۔سانحہ یوحنا آبادمیں صرف مسیحی عوام کی موت نہیں ہوئی بلکہ دوپولیس اہلکاروں سمیت مسلمان شہری بھی شہیدہوئے۔سانحہ جوزف کالونی کے بعد بھی یوحناآباد کے مسیحی نوجوانوں نے بدترین توڑپھوڑکی تھی اوراب سانحہ یوحناآباد کے بعدبھی دوسری مسیحی آبادیوں سے گاڑیاں بھربھر کے ڈانڈابردارنوجوانوں کو وہاں پہنچایاگیااورچندسوڈنڈابرداروں نے یوحنا آباد کونوگوایریابنادیاجہاں امدادی ٹیموں اورپولیس حکام کوبھی جانے کی اجازت نہیں تھی ۔یوحناآباد میں ری ایکشن کے نام پرجوکچھ ہوا براہوا مگراس سے بھی زیادہ براہوسکتا تھا مگرسی سی پی اولاہور کیپٹن (ر)محمدامین وینس کی بروقت مداخلت اورمزاحمت نے شہرلاہورکوایک بڑی تباہی جبکہ ٹیچر مریم صفدر کومشتعل مظاہرین کے ہاتھوں مرنے سے بچالیا ورنہ خدانخواستہ ملک بھر میں بدامنی اورمذہبی فسادات کی آگ بھڑک اٹھتی۔ مریم صفدرنے جان اورآن بچانے کیلئے گاڑی دوڑائی لہٰذاء ان کیخلاف ایف آئی آر کاکوئی جوازنہیں ۔ دوبیگناہ مسلمانوں کوزندہ جلانے کے بعدبھی مسیحیوں کی آتش انتقام نہ بجھی توانہوں نے یوحناآباد کے باہر واقعہ ایک جامع مسجدکوشہید کرنے کامذموم منصوبہ بنایا جوسی سی پی اوکیپٹن (ر)محمدامین وینس کے حکم پرڈی ایس پی کاہنہ اقبال حسین شاہ نے اہلکاروں کی مدد سے ناکام بنادیا ۔آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیرا،سی سی پی اولاہورکیپٹن (ر)محمدامین وینس،ڈی آئی جی آپریشن ڈاکٹرحیدراشرف ،ایس ایس پی آپریشن باقررضا،ایس ایس پی انوسٹی گیشن راناایازسلیم،ایس ایس پی سی آئی اے عمرورک اورڈی ایس پی کاہنہ اقبال حسین شاہ مسلسل وہاں موجود اوراپنے ماتحت اہلکاروں کومختلف ہدایات اوراحکامات دیتے رہے ۔وہاں ان کی موجودگی سے پولیس اہلکاروں کوحوصلہ ملتارہا اوروہ چٹان کی طرح ڈٹے رہے۔سی سی پی اوکیپٹن (ر)محمدامین وینس کی ہدایت پرنڈرایس ایس پی سی آئی اے عمرورک،فرض شناس ایس پی ڈاکٹررضوان اور مستعدڈی ایس پی کاہنہ اقبال حسین شاہ مشتعل اورڈنڈابردارمظاہرین کی طرف سے حملے کے خطرے کے باوجود یوحناآبادمیں امن وامان کی صورتحال کوکنٹرول کرنے کیلئے متاثرہ گرجا گھروں اورمارے جانیوالے مسیحیوں کے گھروں تک گئے اورمسیحی مذہبی ومنتخب قیادت سے ملے ۔وفاقی وزیرپورٹ اینڈشپنگ سینیٹرکامران مائیکل ، صوبائی وزیرداخلہ کرنل (ر)شجاع خانزادہ،صوبائی وزیرخوراک بلال یٰسین ،صوبائی مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق ، مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما رانامبشراقبال اوراخترحسین بادشاہ بھی متحرک رہے ۔اس صورتحال پرقابوپانے کے سلسلہ میں یوحناآبادکی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی منتخب اورمذہبی قیادت کاکردارایک سوالیہ نشان ہے ۔یوحناآبادوزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کے حلقہ انتخاب میں آتا ہے ،اس روزوہ بھی وہاں آجاتے تواچھاہوتا ۔

یوحناآبادمیں پولیس نہیں بلکہ پنجاب حکومت ناکام ہوئی،انہیں یوحناآباد کے مسیحیوں کانہیں بلکہ ان کے مغربی آقاؤں کاڈرتھا ۔یوحناآبادمیں رینجرز کوطلب کرنے کافیصلہ درست نہیں تھااس سے پولیس کی کمزوری اورناکامی کاتاثرابھرا۔پولیس کی کمزوری کاتاثر ابھرنے میں ریاست یاحکومت کافائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے۔اگرپولیس فورس کوپنجاب حکومت سے ''فورس ''ملتی تودوگھنٹوں میں صورتحال پرقابوپایا جاسکتاتھا۔سی سی پی اوکیپٹن (ر)محمدامین وینس بدامنی پرقابوپانے اوربحرانی صورتحال سے نبردآزماہونے کیلئے کافی ٹرینڈ ہیں مگرانہیں مصلحت پسند حکومت سے احکامات نہیں ملے ۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعدپنجاب حکومت نے جس طرح پولیس حکام کو'' قربان'' کیا اس کے بعد پولیس کی خوداعتمادی میں نمایاں کمی آئی ہے۔ پولیس میں بڑے پیمانے پرتبادلے یادوچارآفیسرزاورایس ایچ اوزکومعطل کرنے سے حکومت کی رٹ قائم نہیں ہوتی۔جس وقت پولیس حکام کی طرف سے باضابطہ تجویز کے باوجود محض خوشامدنہ کرنے پر ایس ایس پی کامران یوسف ملک کوسی پی اوگجرانوالہ نہیں لگایاگیاتوکسی نے سٹینڈ نہیں لیا ،ان دنوں وہ ڈی پی اوننکانہ ہیں اوروہاں مجرمانہ سرگرمیوں کے سدباب کیلئے اپنافعال کرداراداکررہے ہیں۔ ایس ایس پی شعیب خرم جانباز نے جس وقت گجرانوالہ میں ایس پی صدر کی حیثیت سے وفاقی وزیر خرم دستگیرخان کے حامیوں کو ہوائی فائرنگ کر نے پر گرفتار کیاتوانہیں ''اوپر''سے اسیرکارکنوں کورہا جبکہ راتوں رات آئی جی آفس رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا،اس وقت سابق آئی جی پنجاب خان بیگ نے سٹینڈ لیا اورنہ اب آئی جی پنجاب مشتاق احمدسکھیراجوپولیس میں سیاسی مداخلت کامقابلہ کرنے کیلئے شہرت رکھتے ہیں نے قانون پسندایس ایس پی محمدعلی نیکوکاراکیلئے سٹینڈلیا۔پولیس آفیسرز کوقانون شکنی سے زیادہ قانون کی پاسداری کرنے پرزیادہ سزاملتی ہے ۔اگر اسی طرح اصول پرست اورقانون کی حکمرانی کے علمبردارپولیس آفیسرز کوسیاسی انتقام کانشانہ بنایاجاتارہاتو شعیب خرم جانبازاور محمدعلی نیکوکارا کی صورت میں نیک نیت اورنیک نام لوگ پولیس فورس میں آناچھوڑدیں گے ۔یہ بات طے ہے سیاسی بنیادوں پرتبادلے کرنے سے تھانہ کلچرتبدیل نہیں ہوگااس کام کیلئے حکمران اشرافیہ کواپنی روش بدلناہوگی۔ریاست کی رٹ ون مین شو سے نہیں بلکہ اداروں کی مضبوطی اوران کے فعال کردارسے قائم ہوتی ہے۔

قصورمیں مقدس اوراق کی توہین کے ملزمان مسیحی جوڑے کوبھٹہ میں پھینک کر جلایاگیا تھا جبکہ سانحہ یوحناآباد میں زندہ جلائے جانیوالے نوجوانوں پرتوکوئی الزام بھی نہیں تھا۔ حافظ محمد نعیم اور نعمان کی ارواح انصاف کی منتظر ہیں ۔ قصورمیں میاں بیوی یا یوحناآبادمیں حافظ محمدنعیم اورنعمان کو زندہ جلانے کاکسی کوحق نہیں پہنچتا کیونکہ کسی بھی ملزم کو مجر م قراردے کر اسے سزادیناعدالت کاکام ہے کوئی نام نہادعوامی عدالت کسی کی زندگی اورموت کافیصلہ صادر نہیں کرسکتی ۔ شہبازشریف نے قصورمیں جلائے گئے مسیحی جوڑے کے بچوں کوپچاس لاکھ روپے اوردس ایکٹراراضی د ی جو مستحسن اقدام ہے لہٰذاء حافظ محمدنعیم اورنعمان کے ورثا کوبھی یہ سب کچھ دیا جائے ۔ پاکستان میں مسیحی غیرمحفوظ نہیں مگراپنے حالیہ شدید ری ایکشن اورجنونی ایکشن سے انتہائی غیرمقبول ہوگئے ہیں مگراس کے باوجود مسلمانوں کاصبروتحمل قابل دیداورقابل داد ہے کیونکہ اگربھارت میں مشتعل مسیحی دوہندوؤں کوجلاتے تووہاں ان کانام ونشان مٹادیا جایا۔ سانحہ یوحناآباد کے بعد جس طرح دوبیگناہ نوجوانوں کو تشدد کانشانہ بنایا ،انہیں زندہ جلایا اوراس درنددگی کو موبائل فونزمیں فلمایا گیااس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔نوجوانوں کومارنے اورجلانے کے بعد لاشوں کاتقدس پامال کیا گیا انہیں رسی کے ساتھ لٹکایا گیا ۔اس قدردرندگی کے باوجود ان درندوں کے چہروں پرشرمندگی کے کوئی آثار نہیں ،کسی کے ضمیر نے ملامت کی اور نہ کسی نے احساس ندامت کے ساتھ خودکوپولیس کے سپرد کیا ۔ مسیحی قیادت کافرض ہے وہ ان بے لگام عناصر کوقانون کی گرفت میں دے ورنہ نفرت اورنفاق کی فصل فصیل بن جائے گی ۔ جس جس نے حافظ محمدنعیم اورنعمان سے انتقام لیا اب ان کاانجام پنجاب حکومت کاامتحان ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.