کراچی میںNBFبک شاپ کا افتتاح۔ کتاب کلچر کے فروغ میں اہم پیش رفت

نیشنل بک فاؤنڈیشن مرکزی حکومت کے تحت قائم ایک قومی ادارہ ہے جس کا بنیادی مقصد ملک میں کتاب کلچر کا فروغ ہے ۔ یہ کتابیں شائع کرکے کیا جائے، کتابیں لکھواکر کیا جائے ، کتابیں لکھنے کی جانب مصنفین کو مائل کرکے ہو، کتاب سستی فروخت کرکے کیاجائے مقصد کتاب، مصنف اور قاری ، علم کی اس مثلث کے مابین رابطہ کار کا کردار ادا کرناہے۔اس ادارے کا یہ بھی کام ہے کہ یہ کتاب کے تخلیق کار یعنی مصنفین، کتاب کی اشاعت اور قاری یعنی پڑھنے والوں کو باور کرائے کہ علم کی یہ مثلث ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہے اور معاشرے میں کتاب کلچر کو فروغ دنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ فاؤنڈیشن کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے جب کہ ریجنل آفسیز پاکستان کے تمام ہی بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ یہ ادارہ 1972میں پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ کے تحت قائم ہوا تھا۔ جس کے اولین ایم ڈی یونس سعید تھے۔ کئی معروف شخصیات اس ادارے کی سربراہ رہیں ہیں اس وقت اس کے سربراہ معروف ادیب و دنش ورپرفیسر ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہیں جو جنوری 2014سے اس کے سربراہ ہیں۔

راقم الحروف کو 19مارچ2015کو اس کے کراچی مرکز میں ہونے والی نئی عمارت میں کتابوں کی دکان کے از سر نو قیام اور اس کے افتتاح کی تقریب میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ تقریب کی سب سے اہم اوراچھی بات یہ رہی کہ تقریب کے مہمان خصوصی حکومت سندھ کے سینئر وزیر نثار کھوڑو صاحب کو منتظمین نے جو وقت تقریب شروع کرنے کا دیا تھا وہ اس سے کچھ وقت پہلے ہی تشریف لے آئے جس کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ انہیں کسی اور اہم میٹنگ میں جانا تھا۔یہ واقعہ تقریبات کے حوالے سے اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ ہے کہ مہمان خصوصی تشریف لے آئیں اور مہمان تو کجا میزبان بھی غائب ہوتے ہیں۔سینئر وزیر نثار کھوڑو نے وقت سے پہلے تقریب ہال میں پہنچ کراچھی روایت کی بنیاد ڈالی۔ اس سے پہلے کہ میں تقریب کا حال مزید بیان کروں اس حوالے سے ایک مہمان کے بروقت پہنچنے کا واقعہ بیان کرنا ضروری ہے، 1980کی بات ہے میری ایک کتاب کی تقریب رونمائی تھی۔ حکومت سندھ کے وزیر تعلیم سید غوث علی شاہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ حکیم محمد سعید صاحب کو بھی اس تقریب میں دعوت دی گئی تھی۔ ابھی مہمان بھی نہ آئے تھے ،میزابان بھی چند ہی تھے حکیم محمد سعید صاحب یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے کہ بھئی مجھے جو وقت دیا گیا تھا میں اس کے مطابق آگیاہوں۔ان کی بڑائی تھی کہ انہوں نے اس صورت حال کو خوش اسلوبی سے نبھایا۔ نثار کھوڑو صاحب کی جلد آمد سے مجھے حکیم صاحب یاد آگئے۔ ویسے ابھی کچھ لوگ ہمارے معاشرے میں ایسے پائے جاتے ہیں جو وقت کے پابنداوراچھی روایات کا خیال رکھتے ہیں۔

نثار کھوڑو صاحب نے بھی اس صورت حال کو نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا ۔ بک شاپ کا افتتاح کیا ، مختصر تقریر کی اور چلے گئے۔ تقریب کے اختتام پر جب میں نے محترم انوار احمد زئی صاحب سے سلام دعا کی تو انہوں نے بتایا کہ وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ وہ طویل تقریر کے لیے کچھ لوگوں سات رکھتے ہیں آج میری جگہ انوار احمد زئی صاحب کئی گھنٹے تقریر کریں گے۔ وزیر موصوف کی جو بات ریکارڈ ہوئی وہ یہ کے نیشنل بک فاؤنڈیشن ملک میں کتاب کلچر کے فروغ کے لیے جو اقدامات کررہا ہے یہ ایک اچھا قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں سستی کتاب فروخت کرنا بہت بڑی بات ہے۔فاؤنڈیشن اس خدمت پر قابل ستائش ہے۔ میں جب تقریب میں پہنچاتو پروفیسر انوار احمد زئی تقریر فرما رہے تھے۔ انہوں نے بھی نیشنل بک فاؤنڈیشن کے اقدامات کی تعریف کی اور کتاب اور مطالعہ کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ انجمن ترقی اردو کی سیکریٹری محترمہ فاطمہ حسن نے بتا یا کہ انجمن اور فاؤنڈیشن کے مابین کتاب کلچر کے فروغ کے حوالے سے کوئی ایگریمنٹ ہو رہا ہے جس کے تحت دونوں ادارے ایک دوسرے کی مطبوعات کی تشہیر اور فروخت میں کرادار ادا کریں گے۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کے موجودہ ایم ڈی جو پاکستان کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں ، مصنفین میں اچھی شہرت کے مالک ہیں ڈاکٹر انعام الحق جاوید صاحب نے تفصیلی گفتگوکی اور فاؤنڈیشن کے ماضی کے ساتھ ساتھ حال کا اچھا حال بیان کیا اور مستقبل کے لیے سنہرے خوابوں کی ایک لمبی فہرست بھی بیان کی۔ ان کاکہنا تھا کہ انہیں یہاں آئے کوئی ایک سال ہی ہوا ہے اس ایک سال (31-01-2014)کے دوران انہوں نے فاؤنڈیشن کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ۔ سب سے اچھی بات جو انہوں نے کہی کہ یہاں آکر انہوں نے یہ نعرہ لگایا کہ’ میں نہ خود کھاؤں گا اور نہ کھانے دونگا‘کاش یہ نعرہ ہماری بیورو کریسی، ہمارے حکمران اور سیاست داں بھی لگانے لگ جائیں بلکہ انعام الحق جاوید کی طرح اس پرعمل بھی کر نے لگ جائیں۔ جاوید صاحب نے فاؤنڈیشن کی آمدنی کی تفصیل بیان کی وہ حیران کن تھی کہ کوئی بھی سرکاری ادارہ کتابیں چھاپ کر اور بیچ کر کروڑوں میں بھی کما سکتا ہے۔ جب کہ وہ کتابیں سستی فروخت کرتا ہو۔ اور بہت سے باتیں جاوید صاحب نے کیں جو دل کو لگیں، وقت اجازت نہیں دے رہا کہ انہیں بیان کروں ۔ بس ایک چیز کی کمی کا احساس ہوا وہ یہ کہ فاؤنڈیشن کو قائم ہوئے 43 سال ہو چکے ، ڈاکٹر انعام الحق جاوید اس کے پندھرویں ایم ڈی ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے سابقہ سربراہان کے صرف نام لکھ رہا ہوں یہ خراج تحسین ہے فاؤنڈیشن کے حوالے ان تمام سربراہان کو۔ یونس سعید اس کے اولین ایم ڈی تھے، پھر ڈاکٹر اے آر ملک ، اے کیو رضی الرحمٰن، ارشاد احمد، محمد محسن، ڈاکٹر ڈبلیو ایم زکی، عبد الحفیظ اختر، احمد فراز، افتخار عارف، غیاث الدین احمد، محمد کاشف مرتضیٰ، محمد اسلم راؤ، جاید اختر، مظہرالا سلام ، مظہر علی خان شامل ہیں۔ کاش جاوید صاحب اس ادارے کے سابقہ تمام نہ صحیح چند معروف شخصیات جیسے معروف و محترم شاعر احمد فراز مرحوم کا ذکرہی ہو جاتا تو اچھاتھا وہ 2فروری 1994سے 21جون 2005تک اس کے ایم ڈی رہے، افتخار عارف بھی اس کے سربراہ رہے۔ یہ ادارہ چند سال قبل نہیں بنااسے قائم ہوئے43سال ہوچکے ہیں جاوید صاحب جب اس کے ایم ڈی بنے تو اس کی عمر 42سال تھی۔ اس موقع پر اگر ان محترم شخصیات کا کو خراج تحسین پیش کردیاجاتا تواچھا لگتا احمد فراز کی روح بھی خوش ہوجاتی۔ چلیے ہوسکتا ہے کہ ایم ڈی صاحب سینئر وزیر کے جلد آجانے سے کچھ اپ سیٹ ہوگئے ہوں اور ان کے ذہن سے یہ بات نکل گئی ہو۔ ایسی غلطیاں تو انسان سے ہو ہی جایا کرتی ہیں۔ تقریر ماشاء اﷲانہوں نے خوب کی اور کرنی بھی چاہیے تھے۔ فاؤنڈیشن کی جس بلند و بالا اور خوبصورت بلڈ نگ کے زیر سائع یہ تقریب منعقد ہورہی تھی یہ عمارت قبلہ جاوید صاحب کے دور میں مکمل ضرور ہوئی لیکن اس کی تعمیر بہت پہلے شروع ہوچکی تھی۔میں نے اس عمارت کی بنیادوں کو نیچے سے اوپر آتے دیکھا ہے۔ بک شاپس گو ان کا حال اچھا نہ تھا لیکن قائم تھیں۔ آپ نے جو بہتری اور اچھائی کے اقدامات کیے وہ لائق ستائش ہیں۔ اگر ہمارے دیگر اداروں کے سربراہان بھی آپ کے نقش قدم پر چل پڑیں تو ہمارے ملک کی تقدیر بدل جائے۔

ذاہدہ حنا بھی بہت لیٹ تشریف لائیں۔ معزرت کے ساتھ مختصر تقریر کرتے ہوئے اپنا تعلق کتاب سے بیان کیا۔ وہ تو واقعی کتاب دوست، مطالعہ کرنے والی ہیں تب ہی تو دھڑا دھڑ کالم دے مارتی ہیں۔ بغیر پڑھے لکھنا دشوار ہی نہیں نہ ممکن ہے شاعری کی اور بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں مانتی کہ کتابیں نہیں پڑھی جاتی ،میں کہتی ہوں کہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں لیکن انگریزی کی، وہ اس لیے کہ انگریزی میڈیم اسکول والے بچوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ فلاں کتاب پڑھ کر آنا ہے۔بچوں کو لائبریری میں باقاعدہ لے کر جایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس سرکاری اسکولوں میں کتب خانوں کا برا حال ہے۔ اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ ذاہدہ حنا صاحبہ کی رائے سے میں سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔سرکاری اسکولوں میں کتب خانوں کا تصور ہی نہیں۔ اس کے برعکس انگریزی میڈیم اسکولوں میں باقاعدہ لائبریری سسٹم موجود ہے۔ کتب خانے کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ ان میں پیشہ ورانہ اور نیم پیشہ ورانہ عملہ خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ سب سرکاری سطح پر کرنے کے کام ہیں۔ ہماری حکومتیں اقتدار میں آکر اقتدار کو بچانے میں تمام وقت صرف کردیتی ہیں ۔ تعلیم اور پھر کتب خانوں یا کتاب کلچر کی بات کس طرح ہوسکتی ہے۔البتہ زبانی جمع خرچ خوب ہوتا ہے۔

سینئر وزیر کے چلے جانے کے بعد تقریب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی تھے جو نظر آتے ہی ہیں پروفیسر اور بولنے میں ہیں وہ ماہر القادری۔ کیا خوب بولتے ہیں۔مدھر آواز ، سریلا پن ، دھیمی لے کے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی فیڈریشن کی کاوشوں کو سراہا انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں کتاب کی بات کرنا اور سستی کتاب بیچنا، بڑی بات ہے۔ کتب خانوں کا حال ابتر سے ابتر ہے۔ کتاب کی اہمیت اور ضرورت ہر دور میں رہی ہے، اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ ڈاکٹر پیرزادہ نے حکیم محمد سعید اور ان کے کتب خانے بیت الحکمہ کے حوالے سے ایک واقعہ یاد دلا یا کہنے لگے کہ بیت الحکمہ کا افتتاح ہوا تو ہم حکیم صاحب کے ساتھ کتب خانے کا دورہ کر رہے تھے، ہر جانب کتابیں ہی کتابیں ، سلیقے کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں۔ ایک گوشہ ایسا بھی نظر آیا کہ جہاں الماریوں پر بعض معروف دانشوروں، مصنفین، علم و دانش کے نام بھی نمایاں طور پر لکھے ہوئے تھے۔کتب خانے کے اس گوشہ کو دیکھ کر ڈاکٹرپیر زادہ نے اس کی تعریف کی ۔ ڈاکٹر پیرزادہ کے مطابق حکیم صاحب نے سرگوشی میں کہا کہ ڈاکٹر صاحب یہ کمال میرا نہیں بلکہ یہ ان دنشوروں کے ناخلق اولادوں کا ہے ۔ جن کے والدین کتاب سے عشق کرتے ہیں اور زندگی انہیں جمع کرنے میں لگا دیتے ہیں ۔ جب وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں یا اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو ایسی اولادیں اس قیمتی سرمائے کو اپنے گھر سے باہر نکال پھینکنا چاہتی ہیں۔ یا پھر وہ دانش ور جب یہ دیکھتا ہے کہ میری اولاد کو کتب سے کوئی رغبت نہیں میری آنکھ بند ہوتے ہی یہ کباڑی کو چلی جائیں گی تو وہ اس فکر میں رہتا ہے کہ اس کا جمع کیا ہوا علمی سرمایا کسی ایسی لائبریری میں محفوظ ہوجائے جو کم ازکم فٹ پات پرجانے سے محفوظ رہے۔ حکیم صاحب موصوف نے کہا کہ میں ایسے لوگوں کی تلاش اور فکر میں رہتا ہوں ان کا سراغ لگاتا رہتا ہوں جو بھی نظر آتا ہے اس سے اس کا ذخیرہ علم خیریدلیا یا پھر اس نے از خود عطیہ کر دیا۔ اس طرح بیت الحکمہ میں کئی بڑے بڑے عالم فاضل شخصیات کا علمی سرمایا محفوظ ہوگیا ہے۔

ڈاکٹر پیرزادہ کہ کہنا تھا کہ میں بھی کتابیں جمع کرنے کا شوقین رہا ہوں اور اب بھی ہوں۔ اب میں بھی اسی فکر میں مبتلا ہوگیا کہ میرے علمی سرمائے کا کیا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ یاتو میں بھی اپنی کتابیں کسی لائبریری کو دے دیتا دوسری صورت یہ تھی کہ میں اپنے اولاد کو کتاب سے محبت کرنے والا بنا دوں۔ چنانچہ میں نے اپنے بچوں کو مکمل اجازت دی کہ انہیں جو کتاب جتنے کی خریدنا ہوں آزادی سے خریدیں۔ ایسا ہی ہوا کہ میرے بچوں نے جب اور جتنے کی بھی کتب خریدیں میں نے کبھی روک ٹوک نہیں کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے بچے بھی کتاب سے محبت کرنے والے ہوگئے اور میں اس فکر سے آزاد ہوگیا ہوں کہ اب میرے بعد میرے علمی ذخیرہ کا کیا ہوگا۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اپنی تقریر میں بتا یا تھا کہ کراچی کے علاوہ کئی شہروں میں فاؤنڈیشن نے موبائل لائبریری جسے انہوں نے’ بکس آن ویل‘ کا نام دیا ہے کئی بسیں دوردراز کے شہروں، دیہاتوں میں جاتی ہیں ، وہ چاہتے تھے کہ کراچی میں بھی دو بسوں کے لیے مہمان خصوصی سینئر وزیر سے درخواست کریں گے کہ وہ اس کا انتظام کردیں لیکن وہ بہت جلدی میں آئے اور جلدی میں چلے گئے۔ ڈاکٹر پیززادہ نے وعدہ کیا کہ وہ
کرا چی کے لیے دو بسوں کے حصول میں فاؤنڈیشن کی مدد کریں گے تاکہ یہ سہولت کراچی کے مضافاتی علاقوں کو بھی حاصل ہوجائے۔

کتابیں جمع کرنا میرا بھی مشن رہا ہے۔ اسکول کے زمانے سے ہی میں نے اپنی کتابوں کو سلیقے کے ساتھ سجا کر رکھا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ گھر میں کوئی شیلف یا الماری نہیں تھی ۔ اس وقت میں نے اپنی کتابوں کو ایک تختے کے دونوں جانب اینٹیں رکھ کر شیلف بنا یا اور ان پر کتابوں کو ترتیب سے رکھ لیا کرتا تھا۔ کچھ دن بعد ایک کباڑیے سے پرانا شیلف خرید لیا اس میں کتابیں رکھنا شروع کیں۔ پھر ایک پرانی الماری خریدلی۔ آج سے چند سال قبل میرے اندر بھی یہ سوچ پیدا ہوئی کہ میرا ذاتی ذخیرہ علم کئی ہزار کتابوں پر مشتمل ہوچکا ہے۔ بچوں میں کتاب سے ایسا تعلق اور عقیدت نظر نہیں آتی کہ وہ میرے مرنے کے بعد انہیں اسی طرح سجائے رکھیں گے۔ اس کی ایک وجہ دونوں کا پروفیشن ہے۔ ایک ڈاکٹر ہے دوسرا دواؤں کی کمپنی میں سینئر ایگیزیکیٹوآفیسر اور وہ بھی سعودی عرب میں ۔ چنانچہ میں اپنی کتابوں کے حوالے سے پریشان رہنے لگا۔ یہ بات ایسی تھی کہ کسی سے شیر بھی کیا کرتا۔ جو کرنا تھا خودہی کرنا تھا۔ یہی بہتر جانا کے اب انہیں کسی ایک یا چند کتب خانوں کو عطیہ دیا جائے۔ اکثر لوگ کتابیں بیچ دیتے ہیں اور بعض کتب خانے ایسی کتابیں خرید بھی لیتے ہیں لیکن میں اپنی جمع کردہ کتابوں کو بیچنے کے حق میں نہیں تھا۔ چنانچہ ایک ہزار کے قریب کتب کراچی کے ایک عوامی کتب خانے کو عطیہ کردیں ۔ ان کی عنایت کے انہوں نے میرے نام کی تختی کتب خانے میں لگا ئی۔ کئی ہزار کتب بہت سوچ بچار کے بعد وفاقی جامعہ اردو کے کتب خانے ’بابائے اردومولوی عبد الحق میموریل لائبریری‘ گلشن ِ اقبال کے کتب خانے کو عطیہ کردیں،وہ کتابیں اچھے طریقے سے الماریوں میں رکھ دی گئیں ہیں ۔ الماریوں پر میرا نام بھی درج ہے۔ کچھ کتابیں میرپور خاص میں قائم ’ڈاکٹر یوسف میمن کے کتب خانے کو عطیہ کردیں۔ ان سے میری بہت پرانی دوستی ہے۔

تقریب کے اختتام پر چائے اور وائے سے مہمانوں کی تَواضُع کی گئی۔ شہر کراچی جو روز روز کے ہنگاموں، دھماکوں، چھاپوں کی زد میں رہتا ہے۔ احتجاج، جلسے، جلوس، ریلیاں یہاں کا معمول بن چکی ہیں، شاہراہوں پر پولس اور رینجرس بڑی تعدادا میں گشت کرتے نظر آتے ہیں ۔ خوف کی اس فضاء میں کتاب کلچر کے فروغ کی باتیں کرنے کے لیے کسی بھی اجتماعی کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں ۔ اس خوف زدہ ماحول میں کتاب کی بات کرنا، مطالعہ کے فروغ کی بات کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی گھپ اندھیرے میں کوئی دیا جلاکر روشنی کردے۔ (۱21مارچ2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1288139 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More